زبردستی نکاح کا شرعی حکم: اغوا اور ولی کی اجازت کے بغیر نکاح
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 707

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں:

مسمات کھو بی بی دختر احمد قوم مستری ساکن بہاد مان تحصیل پنڈی بھٹیاں ضلع حافظ آباد کی ہوں۔ ایک شرعی مسئلہ دریافت کرنا مقصود ہے، جو درج ذیل ہے:

میری بیٹی مسمات جنت بی بی کا نکاح زبردستی، بغیر میری رضا و مرضی کے، مسمی مراد ولد پیر قوم ندیرہ ساکن نو تھہ حافظ آباد سے تقریباً دو ماہ اور بیس دن قبل کر دیا گیا۔ اس نکاح کے وقت میری بیٹی کو اغوا کیا گیا اور اس کے انگوٹھے زبردستی نکاح فارم پر لگوائے گئے۔ اس نکاح سے والدہ اور والد کو کوئی علم نہ تھا۔

مزید یہ کہ بیٹی کو دھوکہ دے کر لے جایا گیا اور تقریباً آٹھ دن تک اسے اپنی حراست میں رکھا گیا۔ بعد میں جب ہمیں نکاح کا علم ہوا تو برادری والے تلاش کرکے بیٹی کو واپس لے آئے۔ اس وقت سے آج تک بیٹی ہمارے پاس والدین کے گھر پر ہے۔

یہ نکاح بیٹی سے قتل کی دھمکی دے کر پڑھایا گیا۔ بیٹی اس نکاح کو بالکل قبول نہیں کرتی اور کسی طور پر بھی اس کے ساتھ آباد ہونے پر تیار نہیں ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا شرعاً ایسا نکاح، جو زبردستی اور والدین کی اجازت کے بغیر پڑھایا گیا ہو، شریعت محمدی کے مطابق جائز ہے یا نہیں؟ برائے کرم مدلل جواب عنایت فرمائیں تاکہ عند اللہ ماجور ہوں۔ اگر ہم نے جھوٹ بولا تو ہم خود اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ ہم حلفاً تصدیق کرتے ہیں کہ یہ سوال حقیقت پر مبنی ہے۔ لہٰذا شرعی فتویٰ صادر فرما دیا جائے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال اور بشرط صدق تصدیق کنندگان، مسئلہ یہ ہے کہ یہ نکاح شرعاً باطل ہے، کیونکہ نکاح کا انعقاد اور اس کی صحت کے لئے شرعی ولی یعنی عاقل، بالغ، آزاد مسلمان ولی کی اجازت شرط ہے۔

جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

﴿وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ … ٣٢﴾ …النور

’’کہ اے ولیو! اپنے میں سے بیوہ عورتوں اور اپنے نیک غلاموں اور لونڈیوں کی شادیاں کر دیا کرو۔‘‘

﴿وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ ….﴿٢٢١﴾ …البقرة

’’اور اپنی لڑکیوں کو مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔‘‘

گویا یہاں یہ فرمایا گیا ہے:
(اى لا تنكحوا أيها الاولياء مولياتكم للمشركين).(فقه السنة، ج۲، ص۱۱۲)

﴿فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ۗ … ٢٣٢﴾ …البقرۃ

’’تم ان عورتوں کو ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب وہ معروف طریقے سے راضی ہو جائیں۔‘‘

ان آیات سے واضح ہوا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا، ورنہ ولی کو خطاب کرنے کا کوئی مطلب نہ ہوتا۔

احادیث مبارکہ

((وعن أبي موسى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” لا نكاح إلا بولي "))
(تحفة الاحوذی، ج۲، ص ۱۷۵،۱۷۶؛ روایت احمد، ابو داؤد، ابن حبان، الحاکم، و صححاہ؛ فقه السنة ج۲ص ۱۱۲)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا، یعنی ایسا نکاح باطل ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

(وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَلَهَا الْمَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا، فَإِنْ اشْتَجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ»)

رواه أحمد، وأبو داود، وابن ماجه، والترمذي، وقال: حديث حسن. قال القرطبي: وهذا الحديث صحيح.
(فقه السنة ج۲ص۱۲،۱۳)

نیز حاکم نے فرمایا:
(وَقَدْ صَحَّتْ الرِّوَايَةُ فِيهِ عَنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – عَائِشَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، ثُمَّ سَرَدَ تَمَامَ ثَلَاثِينَ صَحَابِيًّا… وقال على بن المدينى حديث اسرائيل فى النكاح صحيح)
(سبل السلام، ج۳ ص۱۱۷)

خلاصہ کلام

✿ یہ احادیث بالکل صحیح اور اپنے مفہوم میں واضح ہیں۔
✿ صحتِ نکاح کے لئے ولی کی اجازت لازمی شرط ہے۔
✿ چونکہ یہ نکاح اغوا اور زبردستی کے ذریعے کیا گیا اور ولی کی اجازت شامل نہیں تھی، لہٰذا یہ نکاح شرعاً باطل اور لغو ہے۔
✿ اس بنا پر جنت بی بی، مراد ولد پیر کی شرعی بیوی نہیں بنی۔
✿ تاہم چونکہ نکاح فارم پر انگوٹھے لگائے گئے ہیں، اس لئے قانونی پہلو سے عدالتِ مجاز سے اس نکاح کو کالعدم اور باطل قرار دلوانا ضروری ہے، ورنہ قانونی مشکلات کا سامنا ہوگا۔
✿ اگر نکاح کے بعد مراد نے زبردستی صحبت کی ہے، تو اس پر مہر کی ادائیگی واجب ہے۔

یہ فتویٰ بشرط صحت سوال تحریر کیا گیا ہے۔ اگر سوال میں غلط بیانی ہے تو اس کی ذمہ داری صرف سائلہ اور تصدیق کنندگان پر ہوگی۔ مفتی قانونی معاملات اور عدالتی جھمیلوں کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے