سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیانِ شرع اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسمی محمد شفیع ولد صدر دین قوم آرائیں ساکن چک نمبر ۱۰۲ گ ب جڑانوالہ روڈ فیصل آباد عرض کرتے ہیں:
میری بیٹی مسمات یاسمین کا نکاح زبردستی مسمی اکبر علی ولد خلیل قوم اوڈ ساکن چک نمبر ۸۲ لیاقت پور ضلع رحیم یار خان کے ساتھ تقریباً چھ ماہ قبل کیا گیا۔ میری بیٹی اس نکاح پر راضی نہ تھی۔ اسے سخت دھمکیاں دے کر نکاح فارم پر انگوٹھے لگوائے گئے۔ میں حلفاً اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر عرض کرتا ہوں کہ میرے انگوٹھے نکاح نامے پر موجود نہیں اور نہ ہی مجھے اس نکاح کا علم تھا۔ یہ سب کچھ میری بیٹی کے ساتھ سراسر ظلم و زیادتی کے طور پر ہوا۔ نکاح کے وقت کوئی رشتہ دار بھی موجود نہ تھا۔
بعد ازاں لڑکی کے رشتہ دار اس کی تلاش میں رہے اور جب حقیقت معلوم ہوئی تو پنچایت کے ذریعے لڑکے کے چچا اور قریبی عزیز لڑکی کو واپس لے کر آئے۔ اب اس کو تقریباً ۲۰ یوم ہو چکے ہیں۔ میری بیٹی اس نکاح کو کسی صورت قبول کرنے پر آمادہ نہیں اور سخت نفرت کرتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا زبردستی نکاح والدین کی اجازت کے بغیر شرعاً درست ہو سکتا ہے یا نہیں؟ براہ کرم مدلل جواب مرحمت فرمائیں تاکہ عنداللہ ماجور ہوں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورتِ مسئولہ میں، اگر سوال اور واقعہ درست ہے تو یہ نکاح شرعاً منعقد ہی نہیں ہوا۔
پہلی وجہ: لڑکی کی رضا مندی کے بغیر نکاح
یہ نکاح لڑکی کو اعتماد میں لیے بغیر، زبردستی اور دھمکی دے کر کروایا گیا۔ جیسا کہ سوال نامہ میں واضح ذکر ہے۔ حالانکہ نکاح کی صحت کے لئے لڑکی کی اجازت اور رضا مندی بنیادی شرط ہے۔
جیسا کہ حدیثِ مبارکہ میں ہے:
صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
(عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ تُنْكَحُ البِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ، وَلاَ الثَّيِّبُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ» فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ إِذْنُهَا؟ قَالَ: «إِذَا سَكَتَتْ»)
(صحیح بخاری ، باب لا ینکح الاب وغیرہ البکر والشیب الا برضاھا ،ج۲ ص ۷۷۱)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس سے مشورہ نہ کر لیا جائے، اور کنواری کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس سے اجازت نہ لے لی جائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کنواری کی اجازت کس طرح ہوگی؟ فرمایا: اس کا خاموش رہ جانا اجازت ہے۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے:
(وَعَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا – «أَنَّ جَارِيَةً بِكْرًا أَتَتْ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَذَكَرَتْ: أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ، فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -»)
(رواہ احمد و ابن داؤد و ابن ماجہ، سبل السلام :ج۳ ص۱۲۲)
ایک کنواری لڑکی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میرے والد نے میری مرضی کے بغیر نکاح کر دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس لڑکی کو اختیار دے دیا کہ چاہے تو نکاح برقرار رکھے یا ختم کر دے۔
علماء نے تصریح کی ہے کہ یہ روایت قابلِ حجت ہے، کیونکہ متعدد اسانید اس کے تقویہ پر دلالت کرتی ہیں۔
ان دونوں احادیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ نکاح کے لئے لڑکی کی اجازت اور رضا مندی شرط ہے۔ اس کے بغیر زبردستی کیا گیا نکاح شرعاً منعقد ہی نہیں ہوتا۔
دوسری وجہ: ولی (باپ) کی اجازت کے بغیر نکاح
یہ نکاح ولی یعنی لڑکی کے والد کی اجازت کے بغیر ہوا، جو کہ شرعاً باطل ہے۔
حدیث مبارکہ میں ہے:
(وَعَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى عَنْ أَبِيهِ – رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا – قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «لَا نِكَاحَ إلَّا بِوَلِيٍّ»)
(رواہ احمد، والاربعہ، وصححہ ابن المدینی والترمذی وابن حبان، سبل السلام، ج۳ ص۱۱۷)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔”
اسی موقف پر جمہور صحابہ کرام اور اہلِ علم کا اجماع ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہو سکتا۔
خلاصہ کلام
مسمات یاسمین دختر محمد شفیع قوم آرائیں ساکن چک نمبر ۱۰۲ گ ب جڑانوالہ روڈ فیصل آباد کا نکاح، مسمی اکبر علی ولد خلیل قوم اوڈ ساکن چک نمبر ۸۲ لیاقت پور ضلع رحیم یار خان کے ساتھ منعقد نہیں ہوا۔
◈ اول: یہ نکاح لڑکی کی رضا و مرضی کے بغیر زبردستی کیا گیا۔
◈ دوم: ولی (باپ) کی اجازت کے بغیر کیا گیا۔
لہٰذا بشرط صحت سوال و بشرط صحت واقعہ، یہ نکاح شرعاً باطل ہے۔
یہ صرف فتویٰ ہے، فیصلہ یا فسخ نکاح نہیں۔ عدالتی توثیق ضروری ہے۔ اس سلسلے میں کوئی سقم یا عدالتی کاروائی کی ذمہ داری مفتی پر نہیں ہوگی۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب۔