زبردستی اور بغیر ولی کے نکاح کا شرعی حکم قرآن و حدیث کی روشنی میں
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ جلد 3، نکاح و طلاق کے مسائل، صفحہ 159

سوال کا مفہوم

ایک لڑکی کسی پریشانی میں ایک جاننے والے شخص سے مدد طلب کرتی ہے۔ وہ شخص اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اس لڑکی کو دھمکاتا ہے اور زبردستی نکاح کر لیتا ہے۔ لڑکی کا تعلق نہ تو اس شخص کے خاندان سے ہے اور نہ ہی اس کے علاقے سے۔ دولت، حسن، اور تعلیم میں وہ لڑکی اس شخص سے برتر ہے۔ نکاح کے وقت لڑکی کے خاندان کا کوئی فرد موجود نہیں تھا، اور وہ لڑکا پہلے سے شادی شدہ بھی ہے۔ لڑکی نکاح سے انکار کرتی ہے، تو لڑکا اسے خاندان میں بدنام کرنے اور قتل کی دھمکیاں دیتا ہے۔ اس دوران لڑکی کو نہ اپنے گھر کا پتہ معلوم ہوتا ہے اور نہ ہی علاقے کا، اور وہ مکمل طور پر اس لڑکے کے قابو میں ہوتی ہے۔ لڑکا اس شرط پر اسے واپس جانے دیتا ہے کہ وہ نکاح کے لیے راضی ہو۔ لڑکی کا بیان ہے کہ اس سے زبردستی نکاح کیا گیا اور دل و دماغ سے وہ اس نکاح کو کبھی تسلیم نہیں کرتی۔

اب سوال یہ ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں، ایسی حالت میں کیا کیا گیا نکاح جائز ہے یا ناجائز؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"جو عورت بھی اپنے ولی کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے۔”
(السنن الکبری للبیہقی 7/105۔ وسندہ حسن، والحدیث: صحیح سنن ابی داؤد: 2083، سنن الترمذی: 1102، وقال: "ھذا حدیث حسن”، صحیح ابن حبان: 4042، و صححہ الحاکم علی شرط الشیخین 2/168)

یہ حدیث متعدد اسناد کے ساتھ مروی ہے اور اس کے کئی شواہد بھی موجود ہیں۔ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو متواتر قرار دیا ہے۔
(دیکھئے: قطف الازھار، صفحہ 87)

صحابہ کرام اور ائمہ کرام کا مؤقف

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے:

"لا نکاح إلا بإذن ولی مرشد، أو سلطان”
"خیر خواہ ولی یا سلطان کے بغیر نکاح نہیں ہوتا”
(الاوسط لابن المنذر 8/264، حدیث 7183، وسندہ حسن)

ائمہ اربعہ میں سے تین ائمہ یعنی:

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ

اور ان کے علاوہ دیگر فقہاء کا بھی یہی قول ہے کہ ولی کے بغیر نکاح درست نہیں ہوتا۔
(دیکھیے: سنن الترمذی: 1102)

مسئلہ کی شرعی حیثیت

مندرجہ بالا دلائل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ:

◈ لڑکی کی رضامندی کے بغیر اور
◈ اس کے ولی کی اجازت کے بغیر
◈ نیز زبردستی اور دھمکیوں کے ذریعے

جو نکاح کیا گیا، وہ شرعاً ہرگز درست نہیں ہے۔

لہٰذا، صورت مسئولہ میں لڑکی کا نکاح نہیں ہوا۔ یعنی ایسا نکاح باطل ہے اور شرعی حیثیت سے جائز نہیں۔

(تاریخِ فتویٰ: 24 مارچ 2013ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے