زبان اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا گیا، لیکن جو نعمت انسان کی شخصیت، عمل، اخلاق، کردار اور انجام پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے وہ ’’زبان‘‘ ہے۔ انسان کی کامیابی اور ناکامی، عزت و رسوائی، بھلائی اور برائی اکثر اسی عضو سے جنم لیتی ہے۔ اس مضمون میں زبان کی حقیقت، اس کی ذمہ داریاں اور اس کے غلط استعمال سے پیدا ہونے والے نقصانات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔
اللہ ربّ العزت نے انسان کو بہترین ساخت عطا فرمائی، اسے دیکھنے کے لیے آنکھیں دیں، بولنے کے لیے زبان دی، اور اظہار کے لیے ہونٹ عطا کیے۔ قرآنِ کریم اس نعمت کو اس طرح بیان کرتا ہے:
﴿اَلَمْ نَجْعَلْ لَّـهٗ عَيْنَيْنِۙ٭ وَلِسَانًا وَّشَفَتَيْنِۙ﴾ (البلد 90 : 8-9)
ترجمہ:
"کیا ہم نے اس کے لیے دو آنکھیں، ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں بنائے؟”
زبان کا صحیح استعمال ایمان کا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو حکم دیا کہ وہ سیدھی، سچی اور درست بات کیا کریں:
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًاۙ٭ يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْۗ﴾ (الأحزاب 33 : 70-71)
ترجمہ:
"اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سیدھی بات کہا کرو۔ وہ تمہارے اعمال سنوار دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔”
یہ آیت دو حکم بیان کرتی ہے:
➊ اللہ سے ڈرنا
➋ سیدھی اور سچی بات کرنا
اور ان کے دو عظیم ثمرات:
➊ اعمال کی اصلاح
➋ گناہوں کی مغفرت
زبان — اصلاح و بگاڑ کا مرکز
نبی کریم ﷺ نے زبان کی اہمیت اور اس کے اثرات کو انتہائی جامع انداز میں بیان فرمایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
( إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ فَإِنَّ الْأَعْضَاءَ كُلَّهَا تُكَفِّرُ اللِّسَانَ… ) جامع الترمذی: 2407 وصححہ الألبانی
ترجمہ:
"جب ابنِ آدم صبح کرتا ہے تو اس کے تمام اعضاء عاجزی کے ساتھ زبان سے کہتے ہیں: ہمارے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، کیونکہ ہم تیرے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ اگر تو سیدھی رہے گی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے، اور اگر تو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔”
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پورے جسم کی اصلاح زبان سے جڑی ہوئی ہے۔
زبان سے نکلنے والا لفظ — جنت یا جہنم کا سبب
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
( إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ… ) صحیح البخاری: 6478
ترجمہ:
"ایک بندہ اللہ کی رضا کا ایسا کلمہ بولتا ہے جس کی وہ پرواہ بھی نہیں کرتا، مگر اللہ اس کی وجہ سے اس کے درجات بلند کر دیتا ہے۔ اور ایک بندہ اللہ کی ناراضی کا ایک کلمہ بولتا ہے، جس کی وہ پرواہ بھی نہیں کرتا، اور اس کی وجہ سے جہنم میں جا گرتا ہے۔”
اسی مفہوم کی ایک اور حدیث میں ہے:
( إِنَّ أَحَدَکُمْ لَیَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَۃِ مِنْ رِضْوَانِ اللّٰہِ مَا یَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ ، فَیَکْتُبُ اللّٰہُ لَہُ بِہَا رِضْوَانَہُ إِلٰی یَوْمِ یَلْقَاہُ ، وَإِنَّ أَحَدَکُمْ لَیَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَۃِ مِنْ سَخَطِ اللّٰہِ مَا یَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ ، فَیَکْتُبُ اللّٰہُ عَلَیْہِ بِہَا سَخَطَہُ إِلٰی یَوْمِ یَلْقَاہُ )
جامع الترمذی: 2319 وصححہ الألبانی
ترجمہ:
"بندہ کبھی اللہ کی رضا والا ایک کلمہ بولتا ہے، اسے اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کہاں تک پہنچا، اللہ قیامت تک اس کے لیے اپنی رضا لکھ دیتا ہے۔ اور کبھی بندہ اللہ کی ناراضی والا کلمہ بولتا ہے، اور اللہ قیامت تک اس پر اپنی ناراضی لکھ دیتا ہے۔”
ایک کلمہ — جنت یا جہنم تک لے جانے والا
نبی ﷺ نے فرمایا:
( إِنَّ الْعَبْدَ لَیَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَۃِ ، مَا یَتَبَیَّنُ مَا فِیْہَا ،یَہْوِیْ بِہَا فِی النَّارِ أَبْعَدَ مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ )
صحیح البخاری: 6477، صحیح مسلم: 2988
ترجمہ:
"بندہ ایک لفظ بولتا ہے جس کے انجام سے بے خبر ہوتا ہے، مگر وہ اسے مشرق و مغرب کے فاصلے سے بھی زیادہ نیچے جہنم میں گرا دیتا ہے۔”
اسی لیے عبدالله بن مسعودؓ زبان کو پکڑ کر کہتے تھے:
"اے زبان! خیر کی بات کر، نفع پائے گی، اور برائی سے خاموش رہ کہ سلامتی پائے۔”
پھر کہتے:
نبی ﷺ نے فرمایا:
( أَكْثَرُ خَطَايَا ابْنِ آدَمَ فِي لِسَانِهِ ) السلسلہ الصحیحہ: 534
ترجمہ:
"ابنِ آدم کی اکثر خطائیں اس کی زبان سے ہوتی ہیں۔”
زبان کی پہلی آفت
➊ شرکیہ الفاظ بولنا
سب سے سنگین گناہ یہ ہے کہ انسان اپنی زبان سے غیر اللہ کو پکارے، اس سے مدد طلب کرے، یا ایسی صفات اس کے لیے بیان کرے جو اللہ نے کسی کو نہیں دیں۔ یہ شرک ہے، اور شرک تمام نیکیوں کو برباد کر دیتا ہے۔
زبان کی دوسری آفت
➋ اللہ پر جھوٹ گھڑنا
قرآن کریم فرماتا ہے:
﴿وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ…﴾ النحل 16 : 116-117
ترجمہ:
"جو جھوٹ تمہاری زبانیں بیان کریں، ان کی بنا پر یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے، تاکہ اللہ پر جھوٹ باندھو۔ جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پاتے۔ ان کے لیے تھوڑا سا فائدہ ہے مگر آخرت میں دردناک عذاب ہے۔”
اسی طرح فرمایا:
﴿…وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾ الأعراف 7 : 33
ترجمہ:
"اور یہ کہ تم اللہ پر وہ باتیں کہو جن کا تمہیں علم نہیں۔”
زبان کی تیسری آفت
➌ اللہ، رسول ﷺ یا قرآن کا مذاق اڑانا
قرآن فرماتا ہے:
﴿قُلْ أَبِاللّٰهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ…﴾ التوبۃ 9 : 65-66
ترجمہ:
"کہہ دیجیے: کیا تم اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کا مذاق اڑاتے تھے؟ بہانے نہ بناؤ، تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے۔”
زبان کی چوتھی آفت
➍ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنا
نبی ﷺ نے فرمایا:
( إِنَّ کَذِبًا عَلَیَّ لَیْسَ کَکَذِبٍ عَلٰی أَحَدٍ ، مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ )
صحیح البخاری: 1291، صحیح مسلم: 4
ترجمہ:
"جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا، اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔”
ایک اور حدیث:
( مَن یَّقُلْ عَلَیَّ مَا لَمْ أَقُلْ ، فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ )
صحیح البخاری: 109
ترجمہ:
"جس نے میری طرف وہ بات منسوب کی جو میں نے نہیں کہی، وہ جہنم میں جگہ بنا لے۔”
نبی ﷺ نے فرمایا:
( مَنْ حَدَّثَ عَنِّي… ) مسلم مقدمہ
ترجمہ:
"جو شخص ایسی حدیث بیان کرے جسے وہ جانتا ہو کہ یہ جھوٹی ہے، وہ بھی جھوٹوں میں سے ایک ہے۔”
زبان کی پانچویں آفت
➎ غیر اللہ کی قسم کھانا
قسم صرف اللہ ربّ العالمین کی کھائی جا سکتی ہے۔ غیر اللہ کی قسم کھانا شرعی طور پر حرام ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
( لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ وَلَا بِأُمَّهَاتِكُمْ… ) سنن أبی داؤد: 3248، سنن النسائی: 3769، وصححہ الألبانی
ترجمہ:
"اپنے باپوں کی قسم نہ کھاؤ، نہ اپنی ماؤں کی، نہ شریکوں کی۔ قسم صرف اللہ ہی کی کھایا کرو، اور اللہ کی قسم بھی صرف اس وقت کھاؤ جب تم سچے ہو۔”
زبان کی چھٹی آفت
➏ عمومی گفتگو میں جھوٹ بولنا
جھوٹ بولنا زبان کی بڑی آفتوں میں سے ہے، اور یہ منافقت کی علامت بھی ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
( عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ… ) صحیح مسلم: 2607
ترجمہ:
"تم ہمیشہ سچ بولو، کیونکہ سچ نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف۔ اور آدمی سچ بولتا رہتا ہے حتیٰ کہ اللہ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔”
پھر فرمایا:
ترجمہ:
"جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف۔ آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے حتیٰ کہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔”
نبی ﷺ نے منافق کی نشانی بیان کرتے ہوئے فرمایا:
( آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ… ) صحیح البخاری: 33
ترجمہ:
"منافق کی تین نشانیاں ہیں:
جب بات کرے تو جھوٹ بولے،
جب وعدہ کرے تو خلاف کرے،
اور جب امانت دی جائے تو خیانت کرے۔”
جھوٹ پھیلانے کی سزا — حدیث نبوی ﷺ
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث میں نبی ﷺ نے خواب کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
( فَإِنَّہُ الرَّجُلُ یَغْدُوْ مِنْ بَیْتِہٖ فَیَکْذِبُ الْکِذْبَۃَ تَبْلُغُ الْآفَاقَ )
صحیح البخاری: 1386، 7047
ترجمہ:
"یہ وہ شخص ہے جو صبح گھر سے نکلتا ہے، جھوٹ بولتا ہے اور وہ جھوٹ دنیا بھر میں پھیل جاتا ہے۔ اسے قیامت تک یہی عذاب دیا جائے گا۔”
آج کے دور میں سوشل میڈیا پر جھوٹ کو پھیلانا انتہائی عام ہو چکا ہے، جب کہ اس کی وعید انتہائی سخت ہے۔
زبان کی ساتویں آفت
➐ جھوٹی گواہی دینا
نبی اکرم ﷺ نے اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
( أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ؟ ) صحیح البخاری: 5976، صحیح مسلم: 87
ترجمہ:
"کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں میں سے نہ بتاؤں؟
اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا۔”
پھر آپ ﷺ سیدھے ہو کر بیٹھے اور تین مرتبہ فرمایا:
ترجمہ:
"خبردار! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی سے بچو۔”
زبان کی آٹھویں آفت
➑ جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنا اور احسان جتلانا
نبی ﷺ نے فرمایا:
( ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ… ) صحیح مسلم: 106
ترجمہ:
"تین افراد ایسے ہیں جن سے اللہ قیامت کے دن نہ بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے:
① ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا،
② احسان جتلانے والا،
③ جھوٹی قسم کھا کر سودا بیچنے والا۔”
زبان کی نویں آفت
➒ لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنا
آج کل یہ آفت عام ہے — مزاح، لطیفوں اور تفریح کے نام پر جھوٹ بولنا۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
( وَیْلٌ لِلَّذِیْ یُحَدِّثُ بِالْحَدِیْثِ لِیُضْحِکَ بِہِ الْقَوْمَ فَیَکْذِبُ ، وَیْلٌ لَہُ ، وَیْلٌ لَہُ )
سنن أبي داؤد: 4990
ترجمہ:
"اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹی بات کہے۔ اس کے لیے ہلاکت ہے، ہلاکت ہے۔”
زبان کی دسویں آفت
➓ مذاق اڑانا یا برے القاب سے پکارنا
قرآن کریم فرماتا ہے:
﴿لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ…﴾ الحجرات 49 : 11
ترجمہ:
"ایمان والو! کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اڑائے، ہوسکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔ نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں، ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو، نہ برے القاب سے یاد کرو۔”
زبان کی گیارہویں آفت
⑪ غیبت کرنا
نبی اکرم ﷺ نے غیبت کو یوں بیان کیا:
( إِنْ کَانَ فِیْہِ مَا تَقُولُ فَقَدِ اغْتَبْتَہُ ، وَإِنْ لَّمْ یَکُنْ فِیْہِ فَقَدْ بَہَتَّہُ )
صحیح مسلم: 2589
ترجمہ:
"اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرنا جو وہ ناپسند کرے۔ اگر وہ بات اس میں ہے تو غیبت ہے، اور اگر نہیں ہے تو بہتان ہے۔”
قرآن مجید فرماتا ہے:
﴿أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا…﴾ الحجرات 49 : 12
ترجمہ:
"کیا تم میں سے کوئی پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ تم اسے ناپسند کرتے ہو۔”
نبی ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ:
"جس نے دنیا میں اپنے بھائی کا گوشت کھایا (یعنی غیبت کی)، قیامت کے دن اسے مردہ گوشت کھانے کا حکم دیا جائے گا۔”
نبی ﷺ نے مزید فرمایا:
( یَا مَعْشَرَ مَنْ آمَنَ بِلِسَانِہٖ وَلَمْ یَدْخُلِ الْإِیْمَانُ قَلْبَہُ ! لَا تَغْتَابُوا الْمُسْلِمِیْنَ ، وَلَا تَتَّبِعُوْا عَوْرَاتِہِمْ ، فَإِنَّہُ مَنِ اتَّبَعَ عَوْرَاتِہِمْ یَتَّبَعِ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَوْرَتَہُ ،وَمَنْ یَّتَّبِعِ اللّٰہُ عَوْرَتَہُ یَفْضَحْہُ فِیْ بَیْتِہٖ )
سنن أبي داؤد: 4880
ترجمہ:
"اے وہ لوگو جو زبان سے ایمان لائے مگر ایمان دل میں داخل نہیں ہوا! مسلمانوں کی غیبت نہ کرو، اور ان کے عیب نہ تلاش کرو۔ جو مسلمانوں کے عیب تلاش کرتا ہے اللہ اس کے عیب ظاہر کر دیتا ہے، اور اسے گھر میں رسوا کر دیتا ہے۔”
ایک اور حدیث میں فرمایا:
ترجمہ:
"میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہرے اور سینے نوچ رہے تھے۔ جبریل نے بتایا: یہ وہ ہیں جو لوگوں کی غیبت کرتے تھے۔”
زبان کی بارہویں آفت
⑫ چغلی کرنا (نمّامی)
چغلی فساد، لڑائی اور نفرت کا سبب بنتی ہے۔
نبی ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے اور فرمایا:
(إِنَّہُمَا لَیُعَذَّبَانِ ، وَمَا یُعَذَّبَانِ فِیْ کَبِیْرٍ وَإِنَّہُ لَکَبِیْرٌ ، أَمَّا أَحَدُہُمَا فَکَانَ یَمْشِیْ بِالنَّمِیْمَۃِ ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَکَانَ لَا یَسْتَنْزِہُ مِنْ بَوْلِہٖ )
صحیح البخاری: 1378، صحیح مسلم: 292
ترجمہ:
"ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے۔ ایک چغلی کرتا تھا اور دوسرا پیشاب سے پاک نہیں رہتا تھا۔”
نبی ﷺ نے فرمایا:
( لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَتَّاتٌ )
صحیح مسلم: 105
ترجمہ:
"چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔”
زبان کی تیرہویں آفت
⑬ گالی گلوچ اور سبّ و شتم کرنا
اسلام میں مسلمان کو گالی دینا سخت حرام ہے۔ یہ زبان کی ایسی آفت ہے جو دلوں میں نفرت، کدورت اور دشمنی پیدا کرتی ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
( سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ ) صحیح البخاری: 48، صحیح مسلم: 64
ترجمہ:
"مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔”
ایک اور حدیث میں فرمایا:
( لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ، وَلَا اللَّعَّانِ، وَلَا الْفَاحِشِ، وَلَا الْبَذِيءِ ) جامع الترمذی: 1977، وصححہ الألبانی
ترجمہ:
"مومن نہ بہت زیادہ طعن کرنے والا ہوتا ہے، نہ لعنت کرنے والا، نہ بے حیائی کرنے والا، اور نہ فحش گوئی کرنے والا۔”
زبان کی چودہویں آفت
⑭ لعنت کرنا
لعنت یعنی اللہ کی رحمت سے دوری کی بددعا دینا۔ نبی ﷺ نے لعنت کو انتہائی سخت جرم قرار دیا۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
( وَمَنْ لَعَنَ مُؤْمِنًا فَهُوَ كَقَتْلِهِ… ) صحیح البخاری: 6047، صحیح مسلم: 110
ترجمہ:
"جس نے کسی مومن پر لعنت کی، وہ گویا اس کے قتل کے برابر ہے۔ اور جس نے مومن پر کفر کا الزام لگایا، وہ بھی اس کے قتل کے مانند ہے۔”
ایک اور حدیث میں فرمایا:
( إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا لَعَنَ شَیْئًا صَعِدَتِ اللَّعْنَۃُ إِلَی السَّمَائِ ، فَتُغْلَقُ أَبْوَابُ السَّمَائِ دُوْنَہَا ، ثُمَّ تَہْبِطُ إِلَی الْأرْضِ فَتُغْلَقُ أَبْوَابُہَا دُوْنَہَا ، ثُمَّ تَأْخُذُ یَمِیْنًا وَشِمَالًا ، فَإِذَا لَمْ تَجِدْ مَسَاغًا رَجَعَتْ إِلَی الَّذِیْ لُعِنَ ، فَإِنْ کَانَ لِذَلِکَ أَہْلًا وَإِلَّا رَجَعَتْ إِلٰی قَائِلِہَا )
سنن أبي داؤد: 4905، وحسنہ الألبانی
ترجمہ:
"جب بندہ کسی چیز پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی طرف اٹھتی ہے، مگر آسمان کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ پھر وہ زمین کی طرف آتی ہے مگر زمین کے دروازے بھی بند کر دیے جاتے ہیں۔ پھر وہ دائیں بائیں پھرتی ہے، اگر اسے کوئی راستہ نہ ملے تو جس پر لعنت کی گئی ہو اس کی طرف چلی جاتی ہے۔ اگر وہ اس کا اہل ہو تو ٹھیک، ورنہ لعنت کرنے والے کی طرف لوٹ آتی ہے۔”
والدین پر لعنت کرنا کبیرہ گناہ
نبی ﷺ نے فرمایا:
( یَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ فَیَسُبُّ أَبَاہُ ، وَیَسُبُّ أُمَّہُ فَیَسُبُّ أُمَّہُ )
صحیح البخاری: 5973، صحیح مسلم: 90
ترجمہ:
"سب سے بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت کرے۔”
پوچھا گیا: آدمی اپنے والدین پر کیسے لعنت کرتا ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ:
"وہ کسی کے باپ کو گالیاں دیتا ہے، تو جواب میں وہ اس کے باپ کو گالیاں دیتا ہے۔ وہ کسی کی ماں کو گالیاں دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالیاں دیتا ہے۔”
زبان کی پندرہویں آفت
⑮ بہتان تراشی
بغیر ثبوت کے کسی پر الزام لگانا بہتان کہلاتا ہے، اور یہ کبیرہ گناہ ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ…﴾ النور 24 : 23
ترجمہ:
"جو لوگ پاکدامن، بھولی بھالی مومنہ عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں، وہ دنیا و آخرت میں لعنت کیے گئے ہیں، اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔”
اسی طرح فرمایا:
﴿وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ…﴾ النور 24 : 4–5
ترجمہ:
"جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں اور چار گواہ نہ لائیں، انہیں 80 کوڑے مارو، ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو، اور وہ فاسق ہیں۔ ہاں جو بعد میں توبہ کر لیں اور اصلاح کر لیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔”
نتیجہ — زبان کی حفاظت کیوں ضروری ہے؟
نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی کہ اللہ ہمیں زبان کی آفتوں سے محفوظ رکھے۔ یہی ہماری بھی دعا ہے کہ اللہ ہمیں ان تمام لغزشوں سے بچائے جن کا ذکر آیات و احادیث میں آیا۔
دوسرا خطبہ — زبان کی حفاظت کے مزید احکامات
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
( مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ ) صحیح البخاری: 6018، صحیح مسلم: 47
ترجمہ:
"جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ خیر ہی کی بات کہے، ورنہ خاموش رہے۔”
ذکرِ الٰہی زبان کا بہترین استعمال
ایک صحابی نے عرض کیا کہ شریعت کے احکام میرے لیے بہت ہو گئے ہیں، کوئی ایسا عمل بتائیں جسے مضبوطی سے پکڑ سکوں۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
( لَا يَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا بِذِكْرِ اللّٰهِ ) جامع الترمذی: 3375
ترجمہ:
"تمہاری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہے۔”
نبی ﷺ نے فرمایا:
( مَنْ صَمَتَ نَجَا ) جامع الترمذی: 2501
ترجمہ:
"جو خاموش رہا وہ نجات پا گیا۔”
نیکیوں کا خزانہ اور زبان کی تباہ کاری
نبی ﷺ کو بتایا گیا کہ ایک عورت بہت نیکیاں کرتی ہے — تہجد، روزے، صدقات — مگر اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ:
"اس میں کوئی خیر نہیں، وہ جہنمی ہے۔”
جبکہ دوسری عورت کم نیکیاں کرتی تھی مگر کسی کو ایذاء نہیں دیتی تھی۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ:
"وہ جنت والوں میں سے ہے۔”
اسلام کا معیارِ کمال
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
( الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ ) صحیح البخاری: 10
ترجمہ:
"مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔”
زبان — جہنم میں گرانے والا سب سے بڑا سبب
حضرت معاذ بن جبلؓ کا مشہور واقعہ:
نبی ﷺ نے فرمایا:
( ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا مُعَاذُ! وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ؟ ) سنن ابن ماجہ: 3973، وصححہ الألبانی
ترجمہ:
"اے معاذ! تیری ماں تجھے روئے! لوگوں کو ان کے چہروں کے بل جہنم میں صرف ان کی زبانوں کی کمائی ہی تو گراتی ہے۔”
نبی ﷺ نے فرمایا:
( مَنْ وَقَاهُ اللّٰهُ شَرَّ مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ… ) جامع الترمذی: 2409
ترجمہ:
"جس شخص کو اللہ نے زبان اور شرمگاہ کے شر سے بچا لیا، وہ جنت میں داخل ہو گیا۔”
❀ نتیجہ
زبان خیر کا ذریعہ بھی ہے اور شر کا دروازہ بھی۔ بندہ اپنی زبان کے ذریعے جنت کا مستحق بھی بن سکتا ہے اور جہنم کا ایندھن بھی۔ اس لیے ضروری ہے کہ:
◈ انسان اپنی زبان کی حفاظت کرے
◈ سچی اور سیدھی بات کہے
◈ غیر ضروری گفتگو سے بچے
◈ غیبت، چغلی، جھوٹ، بہتان اور گالی گلوچ سے مکمل پرہیز کرے
◈ ہر اس لفظ سے بچے جو دلوں کو چیر دے یا کسی کی عزت کو مجروح کرے
◈ زبان سے صرف اللہ کی رضا والی بات کہے
نبی ﷺ کا فرمان ہے:
"جو شخص اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی ضمانت دے، میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔”
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی زبانوں کی حفاظت کرنے، ان کا صحیح استعمال کرنے، اور ان کی تمام آفات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔