زبانی طلاق کا شرعی حکم: تین طلاقوں سے نکاح ختم ہونے کا فتویٰ
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، ج 1، ص 801

سوال

سائل محمد صادق ولد فقیر محمد قوم چنگڑ ساکن وارڈ نمبر 8 شاہ کوٹ تحصیل جڑانوالہ ضلع فیصل آباد نے علمائے دین سے مندرجہ ذیل شرعی مسئلہ دریافت کیا:

میری بیٹی مسمات زہراں بی بی کا نکاح تقریباً 3 سال 2 ماہ قبل محمد عارف ولد جان محمد قوم چنگڑ محلہ سلطان آباد، شاہ روڑ، گجرات سے کیا گیا تھا۔ نکاح کے بعد میری بیٹی ایک ماہ کے وقفے وقفے سے اپنے شوہر کے گھر رہی۔
تاہم، دورانِ ازدواج گھریلو اختلافات پیدا ہوگئے جس کے نتیجے میں شوہر نے غصے میں تین بار زبانی طور پر "طلاق، طلاق، طلاق” کہا۔ اس واقعہ کو تقریباً 3 سال 1 ماہ ہو چکا ہے، اور شوہر نے اب تک رجوع نہیں کیا۔ میری بیٹی اس وقت سے میرے گھر پر رہ رہی ہے۔

اب میرا سوال یہ ہے کہ:
کیا شرعاً اس کے شوہر کی طرف سے دی گئی تین زبانی طلاقیں واقع ہو چکی ہیں یا نہیں؟
براہِ کرم شرعی دلائل کے ساتھ جواب مرحمت فرمائیں تاکہ اطمینان حاصل ہو۔
اگر بیان میں کوئی غلط بیانی ہوئی تو اس کا ذمہ دار میں خود ہوں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرطِ صحتِ سوال اور بشرطِ صدقِ گواہان، مذکورہ صورت میں طلاق مؤثر ہو کر نکاح ختم ہو چکا ہے۔
کیونکہ طلاق خواہ زبانی دی جائے یا تحریری، جب وہ شرعی اصولوں کے مطابق ہو تو واقع ہو جاتی ہے۔
یہ بات مندرجہ ذیل احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے:

(1) صحیح البخاری

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ».
(صحیح البخاری، ج 2، ص 794، باب الاغلاف فی الطلاق والکرہ والنسیان)

(2) صحیح مسلم

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ يَتَكَلَّمُوا أَوْ يَعْمَلُوا بِهِ».
(صحیح مسلم، ج 1، ص 78، باب ما تجاوز اللہ عن حدیث النفس)

ترجمہ:

اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دل کے خیالات اور وسوسوں کو معاف رکھا ہے، جب تک وہ ان پر عمل نہ کرے یا زبان سے بیان نہ کرے۔

یہ دونوں احادیث واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ زبان سے ادا کی گئی بات (جیسے لفظِ طلاق) مؤثر اور معتبر ہوتی ہے، جبکہ دل میں سوچنے سے کوئی اثر واقع نہیں ہوتا۔
حدیث کے الفاظ "أو تتكلم” اور "ما لم يتكلموا” اس حقیقت کی صریح دلیل ہیں کہ زبانی طلاق شرعاً واقع ہوتی ہے۔

(3) امام ترمذی کی وضاحت

"وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا حَدَّثَ نَفْسَهُ بِالطَّلَاقِ لَمْ يَكُنْ شَيْءٌ حَتَّى يَتَكَلَّمَ بِهِ.”
(تحفة الاحوذی، شرح ترمذی: ج 2، ص 215)

یعنی اہلِ علم کے نزدیک یہی بات مسلم ہے کہ جب تک شوہر لفظِ طلاق زبان سے ادا نہ کرے، طلاق واقع نہیں ہوتی۔
اور جب بول کر ادا کر دے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

(4) امام ابن رشد قرطبی کا قول

"أجمع المسلمون على أن الطلاق يقع إذا كان بنية ولفظ صريح…”
(بدایة المجتہد، ج 2، ص 55-56)

تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ نیت اور صریح لفظ کے ساتھ جب طلاق دی جائے تو وہ واقع ہو جاتی ہے۔

(5) امام ابن قدامہ کا قول

"وجملة ذلك أن الطلاق لا يقع إلا بلفظ، فلو نواه بقلبه من غير لفظ لم يقع في قول عامة أهل العلم…”
(المغنی لابن قدامہ، ج 7، ص 294)

طلاق زبان سے ادا کرنے پر واقع ہوتی ہے، دل میں نیت کرنے سے نہیں۔
یہی موقف امام شافعی، امام اسحاق، امام قاسم، امام سالم، امام حسن بصری، امام عامر شعبی اور دیگر جلیل القدر فقہاء کا ہے۔
(فتاویٰ نذیریہ، ج 3، ص 73)

(6) محدثین کا فتویٰ

شیخ الکل السید نذیر حسین دہلوی اور عبدالحق محدث ملتانی کا بھی یہی مذہب ہے کہ زبانی طلاق معتبر ہے۔

(7) سید محمد سابق مصری فرماتے ہیں:

"يقع الطلاق بكل ما يدل على إنهاء العلاقة الزوجية سواء كان ذلك بلفظ أو بالكتابة إلى الزوجة أو بإشارة الأخرس أو بإرسال رسول.”
(فقه السنة، ج 2، ص 216)

یعنی طلاق ہر اس عمل یا قول سے واقع ہو جاتی ہے جو ازدواجی تعلق ختم کرنے کی نشاندہی کرے — چاہے وہ لفظِ طلاق ہو، تحریر کے ذریعے ہو، گونگے کے اشارے سے ہو، یا قاصد کے ذریعے۔

(8) خلاصہ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند

مولانا محمد شفیع دیوبندی بھی زبانی طلاق کے وقوع کے قائل ہیں۔
(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، ج 2، ص 658)

نتیجہ و خلاصہ

مندرجہ بالا احادیثِ صحیحہ، ائمہ و فقہاء امت اور سلف صالحین کے اجماع کے مطابق،
سوال میں بیان کردہ صورت میں طلاق بالفعل واقع ہو چکی ہے اور نکاح ختم ہو چکا ہے۔

کیونکہ شوہر نے تین بار زبانی طلاق دی اور تین سال کا عرصہ گزر چکا ہے،
لہٰذا اب سائل کی بیٹی اپنے شوہر کے نکاح سے آزاد ہے۔

مفتی کسی قانونی یا عدالتی پیچیدگی کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے