سوال
ریڈیو پر کسی میچ یا کھیل کی کمنٹری سننے کا شریعت کی رو سے کیا حکم ہے؟
جواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
ریڈیو یا ٹی وی پر کھیلوں کی کمنٹری سننے یا میچ دیکھنے کے حوالے سے شرعی نقطہ نظر درج ذیل وجوہات کی بنا پر ناجائز قرار دیا گیا ہے:
کھیل دیکھنے یا سننے کی ممانعت کی وجوہات:
◈ فحاشی اور بے حیائی:
ان کھیلوں میں عموماً فحاشی اور بے حیائی پائی جاتی ہے۔
مرد و عورت ایک دوسرے کو بغیر کسی شرعی جواز یا عذر کے دیکھتے ہیں۔
اکثر اوقات ان میں عریانی بھی شامل ہوتی ہے۔
◈ گانے بجانے کا عنصر:
میچز کے دوران گانے بجانے (معازف) اور دیگر قابلِ مذمت اور ممنوع افعال پائے جاتے ہیں۔
◈ وقت کا ضیاع:
لوگ کھیل دیکھنے یا سننے میں اتنے مشغول ہو جاتے ہیں کہ نماز اور دینی ذمہ داریوں کی پروا نہیں کرتے۔
اخلاقی پستی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
◈ جوئے کا عنصر:
ان کھیلوں میں اکثر جوا بھی شامل ہوتا ہے، جو شریعت میں سختی سے ممنوع ہے۔
◈ لہو و لعب میں شمار:
یہ مشغلے شریعتِ اسلامیہ کی نظر میں لہو و لعب میں شمار ہوتے ہیں، جو جائز نہیں۔
◈ جذباتی انتہاپسندی:
کچھ لوگ کھیل میں جیت یا ہار کو اپنی زندگی و موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔
بعض اوقات پسندیدہ ٹیم کی شکست پر خودکشی تک کر بیٹھتے ہیں۔
ان تمام وجوہات کی روشنی میں کھیل دیکھنا یا اس کی کمنٹری سننا شرعاً ناجائز ہے۔
حدیثِ رسول ﷺ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«وَكُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ، إِلَّا رَمْيَهُ بِقَوْسِهِ، وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ، وَمُلَاعَبَتَهُ امْرَأَتَهُ، فَإِنَّهُنَّ مِنَ الْحَقِّ»
*“اور ہر وہ کھیل جس سے مسلمان (اللہ کی اطاعت سے) غافل ہو جائے باطل ہے، سوائے تیر اندازی، (جہاد کے لیے) گھوڑے کی تربیت، اور شوہر کا اپنی بیوی کے ساتھ محبت و پیار کے کھیل، یہ سب حق میں شمار ہوتے ہیں۔”*
(سنن ابن ماجہ: ۲۸۱۱، سنن الترمذی: ۱۶۳۷، وقال: حسن صحیح)
روایت کی درجہ بندی:
◈ یہ روایت حسن لذاتہ ہے۔
◈ یحییٰ بن ابی کثیر نے اس روایت کو مسند احمد (ج ۴، ص ۱۴۴) میں سماع کے ساتھ نقل کیا ہے۔
◈ راوی ازرق کو:
حافظ ابن حبان
امام حاکم (۲/۹۵)
امام ذہبی
ہیثمی (مجمع الزوائد ۴/۳۲۹)
اور دیگر محدثین نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے۔
نتیجہ:
مندرجہ بالا تمام دلائل اور احادیث کی روشنی میں ریڈیو پر میچ یا کھیل کی کمنٹری سننا بھی جائز نہیں ہے۔
ھذا ما عندی، واللہ أعلم بالصواب