رکوع میں آ کر ملنے والے کی رکعت سے متعلق فریقین کے دلائل اور ان کا تحقیقی جائزہ
تالیف: ابو عدنان محمد منیر قمر نواب الدین، ترجمان سپریم کورٹ، الخبر، سعودی عرب

ِِ

مدرک رکوع کی رکعت :

اس بات میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنی چاہئیے یا نہیں؟ قائلین فاتحہ اپنی تائید میں بکثرت احادیث پیش کرتے ہیں جو سورہ فاتحہ پڑھنے کا پتہ دیتی ہیں جب کہ فریق ثانی کی طرف سے یہ اشکال یا اعتراض کیا گیا ہے کہ ان احادیث کے عموم پر عمل کیا جائے تو اسکا معنی یہ ہوگا کہ رکوع میں جماعت سے ملنے والے کی وہ رکعت نہیں ہوگی ۔ حالانکہ جمہور اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص رکوع کی حالت میں امام کے ساتھ نماز میں شریک ہو تو اسکی وہ رکعت ہو جائیگی، خواہ اس نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی ہوا ۔
حسن الکلام 2/ 39 – 40 ملخصا وتوضیح الکلام مولانا ارشاد الحق اثری 141/1
جبکہ قائلین وجوب فاتحہ کی طرف سے اسکا حل اور جواب یہ پیش کیا گیا ہے کہ مقتدی کے رکوع میں آکر امام کے ساتھ مل جانے سے اسکی وہ رکعت ہو جائیگی یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے اگرچہ جمہور اس بات کے قائل ہیں کہ ہو جائیگی۔

مانعین رکعت اور ان کے دلائل :

مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی ایک جماعت اور بعض محدثین و محققین جن میں امام بخاری رحمہ اللہ بھی شامل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس کی وہ رکعت نہیں ہوگی اور اپنی کتاب جزء القراءۃ میں انہوں نے اس موضوع پر بحث بھی کی ہے ۔
جزء القراءة امام بخاری مع اردو، صفحه 90،82،30، 111،101
اور یہ واضح بات ہے کہ جمہور کوئی شرعی حجت نہیں ہیں ۔
للتفضيل المحلى 246/6/3
اور کبھی جمہور کے برعکس دوسرے صحابہ و علماء کے یہاں دلائل قویہ ہوتے ہیں اور انہیں کا پلڑا بھاری ہوتا ہے۔
اس موضوع کی تفصیل تو علامہ بشیر احمد سہسوانی رحمہ اللہ نے علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ کی امام الکلام اور غیث لغمام کے جواب میں ” البرہان العجاب“ لکھ کر بیان کر دی ہے ۔
لبرهان العجاب فی فرضیۃ ام الکتاب، صفحہ 129-158 نیز دیکھئے تحقیق الکلام مولانا عبدالرحمن مبارکپوری /54-53، توضیح الکلام 141/1-150 نماز میں سورۂ فاتحہ، مولا نا کرم الدین سلفی صفحه 5 18-209
مختصر یہ کہ رکوع میں آکر ملنے والے سے دو اہم اجزاء نماز چھوٹ جاتے ہیں، ایک قیام جو کہ بالا تفاق نماز کا رکن ہے، دوسرا سورۃ فاتحہ جو اس نے امام سے سنی اور نہ خود ہی پڑھی ، اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ کسی رکن کے چھوٹ جانے سے نماز نہیں ہوتی ۔ رکوع میں ملنے والے کارکن قیام چھوٹنے کے ساتھ ساتھ ہی سورۃ فاتحہ قراءت وسماعت ہر دو طرح سے چھوٹ گئی لہذا اسکی وہ رکعت کیسے شمار کی جائیگی ؟ خصوصاً جبکہ صحیح بخاری ومسلم، جزء القراءة امام بخاری اور دیگر کتب حدیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ما ادركتم فصلو او ما فاتكم فا تموا
جس قدر نماز امام کے ساتھ پالو وہ پڑھ لو، اور نماز کا جو حصہ رہ جائے وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد پورا کرلو۔
جزءالقراءة، صفر 94 مع اردو ترجمہ، بخاری مع الفتح 116/2-390،117 نماز میں سورہ فاتحہ، صفحہ 185

① مشکوۃ کی شرح المرعاة :

علامہ عبید اللہ رحمانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ”اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ رکوع میں ملنے والا اس رکعت کو شمار نہ کرے، کیونکہ اسے فوت شدہ نماز کے پورا کرنے کا حکم ہے، اس سے قیام اور قراءت دوا ہم امور فوت ہو گئے ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور ایک جماعت کا یہی قول ہے، بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بات کو ہر اس شخص کا قول بتایا ہے جو امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کو واجب جانتا ہے. محدثین شافعیہ میں سے امام ابن خزیمہ اور امام ابوبکر ضبعی رحمہ اللہ نے اسے ہی اختیار کیا ہے اور علامہ تقی الدین سیکی نے اسے ہی قوی قرار دیا ہے ۔
لمرعاة شرح المشكوة 449/1

② جزء القراءة:

میں امام بخاری رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
فمن قاله فرض القراءة والقيام فعليه الما مه كما امر النبى صلى الله عليه وسلم
جس سے فریضئہ قراءت وقیام فوت ہو جائیں ، اسکے لئے انکا مکمل کرنا ضروری ہے جیسا کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے۔
جزء القراءة بخارى وكتاب القراءة بيبقى
اور تھوڑا آگے جا کر امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک حدیث بھی روایت کی ہے جس میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
صل ما أدركت واقض ما فاتک
جو حصہ امام کے ساتھ مل جائے وہ پڑھ لو اور جو حصہ رہ جائے وہ بعد میں پورا کرلو۔
جزء القراءة صفحه 98
اور کافی آگے جا کر جز ءالقراءۃ میں ایک جگہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی وہ رشاد نبوی صلى الله عليه وسلم بھی روایت کیا ہے جس میں ہے:
فليصل ما أدرک وليقض ما سبقه
جو امام کے ساتھ مل جائے وہ پڑھ لے اور جو چھوٹ گیا ہو اسے بعد میں اٹھ کر پورا کر لے۔
جزء القراءة صفحه 93
اور ایک جگہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا وہ اثر بیان کیا ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں:
لايجزنک إلا ان تدرك الإمام قائما قبل أن ير كع
امام کو اگر رکوع جانے سے پہلے کھڑے نہ پا لوتو تمہاری وہ رکعت نہ ہوگی۔
جزء القراءة صفحہ 76
اور دوسرا اثر یوں ہے:
إذا أد ركت القوم ركوعا لم تعتد تلك الركعة
اگر لوگوں کو رکوع کی حالت میں پاؤاور ساتھ ملو تو اس رکعت کو شمار نہ کرو۔
جزء القراءة صفحه 78 ، نیل الاوطار
اور ایک جگہ ہے کہ حضرت ابوسعید رحمہ اللہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے:
لا يركع أحد كم حتى يقرأ بأم لقرآن
سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر کوئی شخص رکوع نہ کرے۔
جزء القراءة صفحه 29-77
اور جز ءالقراءۃ میں ہی امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کی روایت بھی بیان کی ہے، جس میں وہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے صبح کی نماز پڑھاتے وقت لمبے لمبے سانسوں اور ہانپنے کی آواز سنی آپ صلى الله عليه وسلم نے نماز مکمل کرنے کے بعد حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا تم ہانپ رہے تھے؟
انھوں نے عرض کیا جی ہاں میری جان آپ صلى الله عليه وسلم پر فدا ہو۔
آپ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ ایک رکعت رہ جانے کا خطرہ تھا اسلیئے میں جلدی جلدی چل کر ملا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
زادك الله حرصا ولا تعد صل ما أدركت واقض ما سبقك
الله تمهاري حرص ميں اضافه فرمائے ، آئنده ايسا نہ کرو، جو پا لو، وہ پڑھ لو اور جو نکل گئی ہو، وہ بعد میں پوری کرلو۔
جزء القراءة صفحه 100-101
اس حدیث میں وارد ہونے والے لفظ ”تعد“ کوکئی طرح سے پڑھا جا سکتا ہے اور زیر، زبر تبدیل کرنے سے معنی بھی بدل جاتا ہے، مثلاً :
وَلَا دُ دوبارہ ایسا نہ کرو
وَلَا تُعِدُ نماز کو دہراؤ نہیں
وَلَاتَعُدً اس رکعت کو شمار نہیں کرو
وَلَا تَعُدُ بھاگ کر نہ آؤ

③ شرح زرقانی

موطا مالک کی اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے علامہ زرقانی نے لکھا ہے:
”اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ رکوع میں ملنے والے کی یہ رکعت نہیں ہوگی کیونکہ اسے فوت شدہ حصے کو پورا کرنے کا حکم ہے اور اس کا قیام اور قراءت دونوں فوت ہو گئے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور بعض دوسرے شافعی محدثین نے بھی اسے ہی اختیار کیا ہے اور علامہ سبکی نے بھی اسے ہی قومی کہا ہے ۔“
الزرقانی 1/ 41 1 عون المعبود 146/2 نیل الاوطار 57/3/2 نماز میں سورہ فاتحہ، صفحہ 187

④ نیل الاوطار:

امام شوکانی نے لکھا ہے کہ بعض اہل ظاہر ، امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اور امام ابو بکر ضبعی رحم اللہ کا یہی مسلک ہے کہ رکوع میں ملنے سے رکعت نہیں ہوتی اور علامہ عراقی نے شرح ترمذی میں اپنے شیخ علامہ سیکی کا بھی یہی اختیار بتانے کے بعد لکھا ہے کہ جب تک سورۃ فاتحہ نہ پڑھ لے اس وقت تک رکعت شمار نہ کرے، ان کے الفاظ یہ ہیں:
لا يعتد بالركعة من لا يدرك الفاتحة
جو فاتحہ نہ پڑھ سکے، وہ اس رکعت کو شمار نہ کرے اورا گلے ہی صفحہ پر لکھا ہے کہ زید بن وہب سے بھی یہی مروی ہے کہ رکوع میں آکر ملنے والا اپنی رکعت کی قضاء کرے ۔ النیل 57/3/2
النيل 85/3/2 و لمحلی 245/3/2

⑤ كتاب القراءة :

امام بیہقی نے لکھا ہے کہ میں نے حافظ ابوعبداللہ سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ میں نے شیخ ابو بکر احمد بن اسحاق ضبعی کوفتوی دیتے سنا ہے:
انه لا يصير مدركا للركعة بإدراک الركوع
مدرک رکوع ، مدرک رکعت نہیں ہوسکتا
کتاب القراءة بیہقی صفحہ 157 مترجم اردو

⑥ المحلی :

علامہ ابن حزم نے لکھا ہے کہ ما أدركتم فصلوا وما فاتكم فالموا کے حکم مشتمل حدیث کی رُو سے رکعت شمار کرنے کیلئے قیام اور قراءت کا پاناضروری ہے۔ کسی رکعت اور رکن اور ذکر مفروض کے فوت ہو جانے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک فرض ہے، جسکے بغیر نماز نہیں ہوتی ، رکوع میں ملنے والے کو حکم ہے کہ امام جو کچھ اس سے پہلے ادا کر چکا ہو، وہ اسے اسکے سلام پھیرنے کے بعد پورا کرے۔ اور ان میں سے کسی امر کی تخصیص کسی نص شرعی کے غیر جائز نہیں۔ اور ایسی کوئی نص موجود نہیں۔ نمازی امام کے ساتھ رکوع چلا جائے اور اس رکعت کو شمار نہ کرے، کیونکہ اسے قیام اور قراءت نہیں ملی۔ لیکن جب امام سلام پھیر لے تو وہ نمازی اس رکعت کو قضاء کرے۔
لمحلی 243/2/2-244 و نیل الاوطار 57/3/2-58، نماز میں سورۂ فاتحہ صفحہ 188

⑦ امام شوکانی کا رجوع :

امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار (52/3/2-58) میں یہی مسلک ختیار کیا ہے کہ رکوع میں جاکر ملنے سے وہ رکعت نہیں ہوتی اور علامہ نواب صدیق حسن خان نے اپنی کتاب المقالة الفصيحة فی الوصیۃ والنصیحۃ (ص 78 ) میں لکھا ہے کہ اہل علم کی جماعت نے بہت سے مسائل میں اپنے اقوال سابقہ سے رجوع کیا ہے، اور لوگوں کو اپنے رجوع سے آگاہ بھی کیا ہے۔ ورامام شوکانی بھی انہیں میں سے ہیں۔ یہ بھی پہلے ضلع کو طلاق ہی سمجھتے رہے۔ پھر دلائل پر فکر ونظر کے بعد قائل ہو گئے کہ ضلع طلاق نہیں بلکہ فسخ نکاح ہے۔ اسی طرح پہلے وہ رکوع میں ملنے والے کی رکعت کے قائل تھے اور پھر اس وقت اُس سے رجوع کر لیا جب تحقیق کرنے سے ظاہر ہو گیا کہ رکوع میں ملنے سے رکعت نہیں ہوتی ۔
بحوالہ نماز میں سورۃ ، فاتحہ صفحہ 190-191

⑧ علامه مقبلی :

علامہ صالح بن على المقبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقد بحدت هذه المسئلة واحطتها فى جميع بحنى فقها وحدينا فلم احصل منها على غير ما ذكرت يعني من عدم الاعتداد بإدراک الركوع
میں نے فقہ وحدیث کے تمام دلائل کی رو سے بحث و تحقیق کی اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں جو میں نے ذکر کر دیا ہے کہ رکوع میں ملنے سے رکعت نہیں ہوتی۔
بحوالہ نیل الاوطار 57/3/2

⑨ علامہ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ :

علامہ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ والی ریاست بھوپال نے اپنی ایک کتاب دلیل الطالب علی ارجح المطالب (ص 345) میں لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی معروف کتاب جزء القراءۃ میں فرمایا ہے کہ رکوع میں ملنے سے رکعت نہیں ہوتی ہے۔ اور یہ ہر اس شخص کا مذہب ہے جو قراءت فاتحہ خلف الامام کو واجب سمجھتا ہے۔ اور جمہور اہل علم چونکہ قراءۃ فاتحہ خلف الامام کے قائل ہیں، اس اعتبار سے رکوع میں ملنے والے کی رکعت کا نہ ہونا جمہور کا مسلک ہوا۔
فتح الباری 2/ 119، جزء القراءة – ودليل الطالب صفحہ 345 ونماز میں سورہ فاتحہ،صفحہ 191

⑩ شيخ الكل علامه سيد نذير حسين محدث دهلوي:

برصغیر کے ایک بڑے عالم جنہیں پچاس سے زیادہ مرتبہ صحیح بخاری پڑھانے کا شرف حاصل ہے اور استاذ الاساتذہ ہی نہیں ، شیخ الکل کے لقب سے پہچانے جاتے ہیں، وہ علامہ سید نذیر حسین محدث دہلوی ہیں ،فتاویٰ نذیریہ میں اس موضوع سے متعلق ان کا ایک مختصر سا فتویٰ ہے، جسمیں وہ بیان فرماتے ہیں کہ مدرک رکوع کی رکعت نہیں ہوتی ہے، اس لئے کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا فرض ہے۔
فتاوی نذیر یہ 286/2 ، فتاوی علماء حدیث 170/3-174
اور انکے قابل فخر شاگرد علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ عون المعبود شرح ابوداؤد میں فرماتے ہیں:
وهذا أى بعدم اعتدا دهو قول شيخنا اعتدادهو العلامة السيد محمد نذير حسين الدهلوى
ہمارے استاد گرامی علامه سید محمد نذیرحسین دہلوی کا یہی قول ہے کہ رکوع پانے والا اس رکعت کو شمار نہ کرے۔
عون المعبود شرح ابوداؤد، جلد 2 صفحه 145

⑪ علامہ شمس الحق عظیم آبادی:

شارع ابودا در علامہ شمس الحق عظیم آبادی خود بھی رکوع پانے والے کی رکعت کو شمار کرنے کے قائلین میں سے نہیں تھے ۔
عون المعبود 2/ 145-161

⑫ علامہ عبدالرحمن مبارکپوری :

شارح ترندی علامہ عبدالرحمن مبارکپوری نے بھی تحفہ لاحوذی میں لکھا ہے:
القول الراجح عندى قول من قال أن من أدرك الإمام راكعا لم تحتسب له تلك الركعه
میرے نزدیک انہیں کا قول راجح ہے جو کہتے ہیں کہ جو شخص امام کو رکوع میں پائے وہ اس رکعت کو شمار نہ کرے۔
تحفۃ الاحوذی شرح ترندی

دیگر کبار علماء :

ایسے ہی دیگر کتنے ہی کبار علماء وفقہاء کرام بھی رکوع میں ملنے والے کی اس رکعت کو شمار کرنے کے قائل نہیں تھے، اگر ان کے فتاویٰ سے اقتباسات ذکر کئے جائیں تو یہ باعث طوالت ہوگا ۔ لہذا انکے اسماء گرامی کے تذکرہ پر ہی اکتفاء کرتے ہیں، چنانچہ ان میں سے ⑬ شیخ الاسلام حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ المعروف فاتح قادیان، ⑭ مولانا ابوسعید شرف الدین دہلویؒ، ⑮ مولانا محمد یونس صاحب دہلوی رحمہ اللہ ، ⑯ حضرت علامہ شیخ الحدیث حافظ محمد محدث گوندلوی، ⑰ علامہ محمد یوسف کلکتوی، ⑱ مولانا عبدالجبار جہلمی ، ⑲ مولانا ابو مسعود قمر بنارسی، ⑳ مولانا عبد السلام صاحب بستوی، (21) مولانا محمد داؤد دہلوی ،محدث کبیر ، (22) علامه محمد شیر سہسوانی، (23) مولانا خلیل الرحمن، (24) مولاناسید محمدعبدالحفیظ ،(25) مولاناسیدابوالحسن، (26) مولانا سید عبدالسلام، (27) مولانا ابومحمد عبد الستار عمر پوری، (28) مولانا محمد عبدالجبار عمر پوری، (29) مولانا ابوالبشار، (30) امیر احمد سہارنپوری، اور (31) محدث شہیر حضرت العلام حافظ حمد عبد اللہ غازی پوری کے اسماء گرامی خاص طور پر قابل ذکر ہیں، جو کہ صاحب مسند وفتوئی تھے ۔
التفصيل : فتاوی علماء حدیث 170/3-174، نماز میں سورۃ فاتحہ صفحہ 185-204، عون المعبود 2/ 145-161، نیل الاوطار 52/3/2-58

قائلین رکعت کے دلائل :

یہاں تک تو دلائل واقوال تھے ان آئمہ ومحد ثین اور اہلِ علم کے جو رکوع میں آ کر ملنے والے کی رکعت کو شمار کرنے کے قائل نہیں ہیں ۔ اور مناسب ہوگا کہ جمہور قائلین رکعت کے دلائل بھی ذکر کر دیے جائیں، تا کہ جانبین یا فریقین کے دلائل کا موازنہ کرنے میں آسانی رہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں قائلین رکعت نے اپنے دلائل کے طور پر جو احادیث لی ہیں، ان میں سے معروف احادیث چار ہیں۔ اور ان چار میں سے بھی تین احادیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں اور ایک حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے ۔ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی تینوں احادیث کی حیثیت کا اندازہ تو اس امر سے ہی ہو جاتا ہے کہ وہ خود رکوع میں ملنے والے کی رکعت کے قائل نہیں تھے بلکہ انکا فتویٰ یہ رہا ہے کہ رکوع میں ملنے والے کی وہ رکعت نہیں ہوتی ۔ اسے وہ رکعت امام کے سلام پھیرنے کے بعد اٹھ کر پڑھنی چاہئے ۔

پہلی دلیل:

ان کی پہلی دلیل وہ حدیث ہے جو سنن دار قطنی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جسمیں ہے:
من أدرك من الركعة الآخرة فى يوم الجمعة فليضف إليها الركعة
جو شخص نماز جمعہ کی آخری رکعت پالے، وہ (بعد میں اٹھ کر) ایک رکعت اور پڑھ لے۔
مشکوۃ 1/ 445 شیخ البانی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، دار قطنی 10/1/1-13 تحفۃ الاحوذی 62/3
لیکن یہ حدیث ضعیف ہونے کی وجہ سے نا قابل استدلال ہے۔ چنانچہ امام شوکانی نیل الاوطار میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مختلف الفاظ سے وارد ہوئی ہے لیکن اسکی سند کے طرق میں سے کوئی بھی کلام (نقد و جرح) سے خالی نہیں ہے، بلکہ امام ابو حاتم سے انکے بیٹے نے العلل میں نقل کیا ہے کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے۔ یعنی یہ بے سرو پایا ہے اصل روایت ہے۔
نیل الاوطار 56/3/2-57
التعلیق المغنی علی سنن الدارقطنی میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔
علامہ عبید اللہ الرحمانی نے المرعاۃ شرح مشکوۃ میں لکھا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ اس کی سند میں ایک راوی سلیمان بن ابو داؤد الحرانی ہے، جسے امام ابو حاتم نے ضعیف کہا ہے۔ امام بخاری نے اسے منکر الحدیث قرار دیا ہے اور امام ابن حبان کہتے ہیں کہ اس کی بیان کردہ روایت قابل حجت نہیں ہے۔ لتعلیق المغنى 10/1/1-13
لمرعاۃ 317/3 فتاوی ستار یه 56/1
یہ تو ہوئی اس روایت کی استنادی حیثیت ، جبکہ متن میں بھی دلیل نہیں پائی جاتی ، کیونکہ اس میں تو نماز جمعہ کا ذکر ہے، لہذا یہ جمعہ کے ساتھ خاص ہوگی۔ دوسرے یہ کہ اسمیں ایک رکعت پالینے کا ذکر ہے، نہ کہ رکوع پالینے کا۔ اور اس روایت کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا عمل وفتویٰ ذکر کیا جا چکا ہے کہ وہ رکوع میں ملنے والے کی رکعت شمار نہیں کیا کرتے تھے ۔

دوسری دلیل :

اس سلسلہ میں دوسری دلیل کے طور پر جوحدیث پیش کی جاتی ہے، وہ بھی حضرت بو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے جسمیں ہے:
من أدرک ركعة مع الإمام قبل أن يقيم سلبه فقد أدركها
جس نے امام کے ساتھ رکعت کو پالیا قبل اسکے اس کہ وہ اپنی کمر سیدھی کرے ( رکوع سے کھڑا ہو ) اس نے اسے پالیا۔
اس حدیث سے استدلال بھی کئی وجوہات کی بناء پر میچ نہیں ہے، کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی بھی بن حمید ہے، جس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے جزء القراءۃ میں کہا ہے کہ یہ مجہول ہے۔ اسکی بیان کردہ حدیث پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اور مرفوعاً اسکی حدیث صحیح نہیں ۔ اور یہ راوی اہلِ علم کے نزدیک قابل حجت نہیں ہے۔ نیل الاوطار 56/2/2
جزء القراءة صفحه 102 – 107 وسنن دار قطنی 347/1/1
اور اگلے ہی صفحہ پر امام بخاری نے لکھا ہے کہ یہ روایت تو علماء حجاز وغیرہ کے یہاں مستفیض ہے۔ جبکہ اس میں قبل أن يقيم صلبه کے الفاظ کا کوئی معنی ہی نہیں ، اور نہ ہی اس اضافہ کی کوئی وجہ ہے۔
جزء القراءة ، صفحہ 107
اور علامہ عبید اللہ الرحمانی نے بھی المرعاۃ میں لکھا ہے کہ اس روایت کے آخری الفاظ جن میں امام کے کمر سیدھی کرنے کا ذکر ہے ”قبل أن يقيم صلبه“ یہ الفاظ صرف یہی راوی یحی بن حمید نقل کرتا ہے، اس کے ساتھیوں میں سے کسی نے یہ الفاظ نقل نہیں کیئے ۔ چنانچہ عقیلی کہتے ہیں کہ امام زہری کے صحاب میں سے امام مالک اور بعض دوسرے حفا ظ حدیث نے بھی یہ روایت بیان کی ہے۔ لیکن ان میں سے کسی نے بھی یہ اضافہ نقل نہیں کیا ۔
جزء القراءة ،صفحہ 107-108،المرعاۃ 3/ 98 تحفۃ الاحوذی62/3
اور جب اس اضافے کو نقل کرنے والا ضعیف ہے، تو مقصود حاصل نہ ہوا۔ اور پھر اس روایت کی سند میں ہی ایک دوسرا راوی قرة بن عبد الرحمن بھی ہے جو کہ ضعیف ہے۔ جوز جانی نے کہا ہے کہ میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ یہ قرة بن عبدالرحمن سخت منکر الحدیث ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ ضعیف الحدیث ہے اور امام ابو حاتم کا کہنا ہے کہ یہ قوی نہیں ہے۔
میزان الاعتدال 346/3، بحوالہ نماز میں سورۂ فاتحہ، صفحہ 208

تیسری دلیل :

رکوع میں ملنے والے کی رکعت کے قائلین کی تیسری دلیل ابوداؤد اور دارقطنی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی وہ حدیث ہے جسمیں ہے۔
إذا جئتم إلى الصلاة ونحن سجود فاسجدوا ولا تعتدوا بها، ومن أدرک الركعة فقد أدرك الصلاة
ابوداؤ د مع العون، دار قطنی 1/1/ 347 ضعیف ابی داؤد، حدیث (793)
جب تم نماز کے لئے آؤ اور ہم حالت سجدہ میں ہوں، تو تم بھی سجدہ کرو اور اسے کچھ شمارمت کرو۔ (اور جس نے رکوع کو پالیا اس نے نماز پالی)
اس روایت سے استدلال بھی کئی وجوہ کی بناء پر مخدوش ہے:
① کیونکہ اسکی سند ضعیف و نا قابل حجت ہے۔ اس کی سند میں ایک راوی تکی بن ابوسلیمان ہے، جسے امام بخاری نے منکر الحدیث کہا ہے۔ اور ابو حاتم کا کہنا ہے کہ اسکی حدیث لکھی جائیگی لیکن وہ قومی نہیں ۔ اور اس حدیث کے ضعف کو بعض قائلین رکعت نے بھی تسلیم کیا ہے، جیسا کے فتاویٰ ستاریہ میں ہے۔ (55/1)۔
② دوسری بات یہ کہ یحی نے یہ روایت زید اور ابن المقبری سے نہیں سنی ۔ لہذا یہ منقطع ہونے کی وجہ سے بھی ضعیف ہے۔
جزء القراءة ، امام بخاری صفحه 108 بعون المعبود
③ تیسری بات یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جو کہ اس روایت کو بیان کرنے والے ہیں، خودا نکافتویٰ اس روایت کے خلاف ہے۔ وہ رکوع میں ملنے والے کی رکعت کے قائل نہیں، جیسا کہ پہلی روایت کے ضمن میں بھی کہا گیا ہے۔
نیز دیکھیئے جزء القراءة صفحه 70 دنیل الاوطار 57/3/2
⑤ چوتھی بات یہ کہ اس روایت میں رکعت کا لفظ ہے، نہ کہ رکوع کا۔ اور رکعت کا اطلاق شرعاً قیام، رکوع سجدتین اور ارکان واذکار پر ہوتا ہے۔ اور یہی رکعت کی شرعی حقیقت ہے۔ اور رکوع کو رکعت کے معنوں میں لینا مجاز ہے۔ اور حقیقت شرعیہ کے ہوتے ہوئے مجاز مراد لینا تمام علماء اصول کے نزدیک غلط ہے۔ اور پھر یہاں کوئی قرینہ صارفہ بھی نہیں، جیسا کہ عون المعبود میں تفصیل مذکور ہے۔
عون المعبود
⑤ پانچویں چیز یہ کہ اس روایت کے الفاظ من أدرك الركعة فقد أدرك الصلواة کا معنی جمہور اہلِ علم نے یہ بیان کیا ہے کہ اگر کسی کو نماز کا صرف اتنا ہی وقت ملا کہ اسمیں وہ صرف ایک ی رکعت پڑھ سکتا ہے تو وہ بعد میں نماز مکمل کر لے، اس نے نماز کو بر وقت پالیا۔ اور بعض نے کہا ہے کہ جس نے ایک رکعت جماعت سے پالی، اس نے نماز با جماعت کا ثواب پالیا۔
المرعاة 21/2
⑥ اور پھر نسائی میں ایک وہ حدیث ہے، جسے پیش نظر رکھیں تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ زیر بحث عد بیث سے کیا مراد ہے؟ چنانچہ اس میں ہے:
من أدرک الركعة فقد ادرك الصلواة
جس نے نماز کی ایک رکعت پالی، اس نے پوری ہی نماز پالی۔ (البتہ جو رہ گئی اسے پورا کر لے )
المرعاة ايضاً
اور رکوع میں ملنے والے کا قیام وقراءت رہ جاتے ہیں ۔ لہذا وہ اسے بعد میں پورے کرنے ہونگے ، جن کے لئے وہ رکعت پڑھنی پڑے گی۔

چوتھی دلیل :

جبکہ اس سلسلہ میں ان کا استدلال ایک چوتھی حدیث سے بھی ہے، جو بلاشبہ صحیح تو ہے لیکن اس مسئلہ میں صریح و واضح نہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری، ابوداؤد، نسائی ،مسنداحمد ، ابن حبان ، بیہقی اور دیگر کتب میں حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کا معروف واقعہ ہے،جسمیں وہ بیان فرماتے ہیں:
أنه انتهى إلى النبى صلى الله عليه وسلم وهو راكع، فركع قبل أن يصل إلى الصف، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: زادك الله حرصا، ولا تعد.
وہ اس وقت نبی صلى الله عليه وسلم کے پاس پہنچے جبکہ آپ صلى الله عليه وسلم رکوع میں تھے، تو انہوں نے صف میں پہنچنے سے پہلے ہی رکوع کر لیا۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کی گئی تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اللہ تمہارے شوق و حرص کو زیادہ کرے، آئیندہ ایسا نہ کرنا۔
بخاری مع الفتح 2/ 267 مع عمد القاری 54/6/3 التلخیص احبیر 284/1/1 صحیح ابی داود 122/1، ابوداود مع المون 2/ 378-379 مشكوة مع المرعاة 97/2
قائلین رکعت اس حدیث سے یوں استدلال کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ اگر رکوع میں ملنے والے کی اس رکعت کو شمار کرنے والے نہ ہوتے تو پھر انہیں ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی ، اور گر قراءت فاتحہ مقتدی پر بھی واجب ہوتی تو نبی صلى الله عليه وسلم حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو وہ رکعت لوٹانے کا حکم ضرور فرماتے۔ اور تیسری وجہ استدلال یہ بتائی گئی ہے کہ اس حدیث کے آخری الفاظ وَلَا تَعُدُ نہیں بلکہ وَلَا تُعِدُ ہیں ، جن کا معنی یہ بنتا ہے کہ اللہ تمہاری حرص کو زیادہ کرے تم اس رکعت کو نہ دہراؤ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تحقیق و استدلال کی رو سے یہ باتیں صحیح نہیں ،جسکی کچھ تفصیل یہ ہے کہ فتح الباری میں حافظ ابن حجر نے ابن المنیر سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے ایک فعل یعنی حصول جماعت کی حرص و کوشش کو درست قرار دیا، اور یہ عام جہت ہے، جبکہ دوسری خاص جہت سے غیر درست بھی فرمایا اور اس سے روکا۔
فتح الباری 2/ 268

ممانعت کس بات کی؟

اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کونسی غیر درست بات ہو گئی تھی ، جس سے آپ صلى الله عليه وسلم نے انہیں روکا تھا۔
(1) اس سلسلہ میں پہلی بات الفاظ حدیث سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ دوڑ کر آئے اور نماز میں شامل ہوئے تھے اور صحیح ابن السکن میں دوڑنے کے واضح الفاظ بھی ہیں، جن میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا فرماتے ہیں:
انطلقت اسعى حتى دخلت فى الصف
میں دوڑتا ہوا صف میں داخل ہوا۔
بحوالہ التلخیص والمرعاة 97/3
اور یہ دوڑ کر آنا غلط کام ہے، کیونکہ صیح بخاری ومسلم اور جز ءالقراءۃ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
إذا سمعتم الإقامة فامشوا إلى الصلوة وعليكم السكينة والوقارولا تسرعوا فما ادركتم فصلوا وما فاتكم فأتموا
جب اقامت کی آواز سنو تو نماز کی طرف چل دو، اور سکون دوقار سے چلو، بھاگم بھاگ نہ آؤ، جو پالو، وہ پڑھ لو اور جو چھوٹ جائے ، وہ اٹھ کر مکمل کر لو ۔
بلوغ المرام مع السبل 33/2/1، بخاری 116/2-117 جزء القراء صفحه 94
اس حدیث کی رو سے نماز کی طرف انکا دوڑ کر آنا منع تھا۔ لہذا آپ صلى الله عليه وسلم نے اس سے روکتے ہوئے فرمایا:
وَلَا تَعُدُ دوبارہ ایسا مت کرو ۔
(2) صحیح بخاری میں اس حدیث کے الفاظ ہیں: فركع قبل أن يصل إلى الصف كہ وه عرف میں پہنچنے سے پہلے ہی رکوع میں چلے گئے ۔ اور ابوداؤد میں ہے:
فركع دون الصت ثم مشىٰ إلى الصف
انہوں نے صف تک پہنچنے سے پہلے ہی رکوع کر لیا اور پھر اسی حالت میں چل کر صف تک پہنچے تھے۔
بخاری مع الفتح
اور مصنف حماد بن سلمہ میں ہے:
فركع ثم دخل الصف وهوراكع
انہوں نے صف تک پہنچنے سے پہلے ہی رکوع کیا اور بحالت رکوع ہی صف میں داخل ہوئے۔
المرعاة ايضاً
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ عمل بھی صحیح نہیں تھا، کیونکہ معانی الآثار طحاوی میں حسن درجہ کی سند سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے:
إذ أتى أحدكم الصلوة فلا يركع دون لصت حتى يا خذ مكانه من الصف
تم میں سے جب کوئی نماز کو آئے تو صف میں پہنچنے سے پہلے رکوع نہ کرے۔
بحواله المرعاة ايضاً
اس سے معلوم ہوا کہ لَاتَعُدُ میں وارد ممانعت اس بات کی ممکن ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے انہیں فرمایا ہو کہ دوبارہ ایسا نہ کرنا۔ شارحین حدیث نے اس کا یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر نے تلحیص الحبیر میں لکھا ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے انہیں جن باتوں سے روکا تھا، ان میں سے پہلی بات بقول کے یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں صف سے باہر تکبیر تحریمہ کہنے سے منع فرمایا، اور امام ابن حبان کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہیں نماز با جماعت کی طرف تاخیر سے آنے سے منع فرمایا گیا تھا۔ ابن القطان اور مہاب کی طرف سے تیسری بات یہ کہی گئی ہے کہ انہیں رکوع کی حالت میں چلتے ہوئے صف میں آنے سے روکا تھا کیونکہ یہ جانوروں کی سی چال ہے۔ اور چوتھا قول یہ بھی ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے انہیں نماز کی طرف دوڑ کر آنے سے منع فرمایا۔
التلخیص 1/1/ 285 والمرعاة 97/3
امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اس کا یہی معنی جزء القراءۃ میں کیا ہے، اور کہا ہے کہ کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ نبی صلى الله عليه وسلم کے منع کردہ کام کو دوبارہ کرے ۔
جزءالقراءة ،صفحہ 78 وفتح الباری 269/2

لَاتَعُدُ کا ضبط اور اعراب:

اس حدیث کے آخر میں وارد ہونے والے دو لفظوں میں سے پہلا تو ”لا“ ہے جو نہی و ممانعت کے لئے آتا ہے۔ جبکہ دوسر الفظ تین حروف سے مل کر بنا ہے اور وہ تین حروف ہیں ”ت“ اور ”ع“ اور ”د“ ان تینوں حروف کے مجموعہ کو زیر زبر اور پیش یعنی اعراب کی تبدیلی سے چار طریقوں سے پڑھا جا سکتا ہے۔ اور ان سے چار الگ الگ لفظ بن جاتے ہیں ، جن کا الگ الگ ہی مفہوم بھی ہے۔
اس لفظ کے ضبط اور اعراب کے سلسلہ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اور علامہ عینی نے عمدة القاری میں لکھا ہے کہ یہ لفظ تمام روایات میں تاء کے زبر اور عین کی پیش کے ساتھ ( تَعُدُ ) ہے۔ جو عَوُد سے بنا ہے۔ اسطرح اس حدیث کا معنی یہ بنتا ہے کہ دوبارہ ایسا مت کر ۔
فتح الباری 269/2 عمدۃ القاری 55/6/2
یعنی نہ تیز دوڑ کر نماز کی طرف آ نہ صف سے باہر تکبیر تحریمہ کہ ،اور نہ صف سے باہر رکوع کر ، اور نہ ہی اس طرح صف میں داخل ہو، اور نہ ہی جماعت کی طرف تاخیر سے آ۔
علامہ جزری نے بھی کہا ہے کہ لَاتَعُدُ میں تَعُدُ تاء کے زبر اور عین کی پیش کے ساتھ اور دال کے سکون کے ساتھ ہے۔ جسکا اصل مادہ عود ہے۔ یعنی ایسا فعل (رکوع میں چلنا ) آئندہ نہ کرنا۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ اکیلے اقتداء کرنے سے منع فرمایا ہو۔ اور یہ بھی امکان ہے کہ صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرنے سے منع فرمایا ہو۔ اور بظاہر آپ صلى الله عليه وسلم نے ان سب امور سے ہی منع فرمایا تھا۔
بحواله المرعاة 3/ 98
اور آگے امام جزری فرماتے ہیں کہ جس نے اس لفظ کو تا ء کی پیش اور عین کی زیر کے ساتھ لَا تُعِدُ پڑھا ہے اور اسے اعادہ کرنے یاد ہرانے سے مانا ہے، اس نے بہت بعید کی بات کی ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے اسے فرمایا ہو کہ تم اپنی نمازمت دہراؤ۔ اور اس سے بھی بعید تر بات اسکی ہے جس نے اسے عد وسے تاء کے زبر عین کی سکون یا جزم اور دال کی پیش کے ساتھ لَا تَعُدُ مانا ہے، جس کا معنی یہ بنتا ہے کہ دوڑ کر مت آؤ۔ اور ان آخری دونوں کے بارے میں کوئی روایت نہیں ہے۔
المرعاة ايضاً
امیر صنعانی نے سبل السلام میں کہا ہے کہ روایت میں عَود سے لَا تَعُدُ ہی سب سے صحیح تر اعراب ولفظ ہے۔
سبل السلام 33/2/17
اورا سے ہی حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ترجیح دی ہے ۔
فتح الباری 2/ 269

ارہ رکعت ہوئی یا نہیں ؟ :

قائلین رکعت کے انداز اور وجہ استدلال ہے پتہ چلتا ہے کہ حضرت بو بکرہ رضی اللہ عنہ نے وہ رکعت شمار کی تھی۔ جبکہ مانعین رکعت کا کہنا ہے کہ صحیح بخاری شریف کے وہ الفاظ جو بڑے شدومد سے پیش کیئے گئے ہیں، ان میں قطعا اس بات کا ذکر حتی کہ احتمال تک بھی نہیں پایا جا تا کہ انکی وہ رکعت ہوگئی ہو، اور انہوں نے اسے شمار کر لیا ہو۔ چنانچہ امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فليس فيه ما يدل على ما ذهبوا إليه، لأنه كما لم يأمره بالإعادة، لم ينقل إلينا أنه اعتد بها، والدعاء له بالحرص لا يستلزم الاعتداد بها، والاحتجاج بشيء قد نهي عنه لا يصح.
اس میں ان کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے، کیونکہ جیسے رکعت کے لوٹانے کا حکم نہیں دیا تو یہاں اس رکعت کو شمار کرنے کا بھی تو کوئی اشار نقل نہیں ہوا۔ انکے لئے دعاء حرص رکعت کو شمار کرنے کو لازم نہیں کرتی اور جس سے منع کیا گیا ہو، اس سے حجت و دلیل لینا صحیح نہیں ہے۔
النیل 57/3/2
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی اس سے ملتی جلتی بات اٹلی میں کہی ہے، چنا نچہ انھوں نے جلد سوم- جز ششم (ص 243) پر اس حدیث حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ پر مسئلہ نمبر 362 کا عنوان یوں قائم کیا ہے:
فإن جاء والإمام راكع فليركع معه، فإنه يعتد بتلك الركعة، لأنه أدرك الركوع، ولكن لم يدرك القيام ولا القراءة، فيقضيها بعد أن يسلم الإمام. فإن خاف أن يفوته الركوع جاهلا، فليكبر حينئذ، ثم يركع قبل أن يرفع الإمام رأسه من الركوع يكبر حينعز
اگر کوئی آئے اور امام رکوع میں ہو تو وہ رکوع کرلے، اور اس رکعت کو شمار نہ کرے۔ کیونکہ اسکو قیام وقراءت نہیں ملے لیکن جب امام سلام پھیر لے، تو یہ اس رکعت کو اٹھ کر پڑھ لے۔ اور اگر کسی بے علم کا خدشہ ہو کہ گلے پڑ جائے گا، تو تھوڑا سا آرام سے چلے حتی کے امام رکوع سے اٹھ جائے ،تب جا کر تکبیر تحریمہ کہے۔
اور اگلے صفحہ پر جا کر ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
حتی 243/6/3
أما حديث أبى بكرة فلا حجة لهم فيه أصلا، لأنه ليس فيه أنه اجتزأ بتلك الركعة وأنه لم يقضها، فسقط تعلقهم به جملة، ولله الحمد ۔
رہی حدیث حضرت ابی بکرہ رضی اللہ عنہ ، تو اس میں قائلین رکعت کیلئے اصلا کوئی دلیل نہیں ہے ۔ کیونکہ اس میں یہ کہاں ذکر ہے کہ انہوں نے اس رکعت کو شمار کر لیا تھا ؟ اور نہ یہ کہ انہوں نے اسے اٹھ کر نہیں پڑھا تھا ۔ لہذا اس حدیث سے ان کا تعلق ہی ختم ہو گیا۔ وَلِلَّهِ الْحَمُدُ
المحلی 244/6/3 وفتح الباری والمرعاة
اس سلسلہ میں ایک حدیث بڑی فیصلہ کن ہے، جسے حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اور علامہ عبید اللہ رحمانی نے المرعاۃ شرح مشکوۃ میں نقل کیا ہے۔ چنانچہ طبرانی کبیر اور جزء القراءۃ میں حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے اس واقعہ پر مشتمل جو حدیث ہے۔ اسکے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو نبی صلى الله عليه وسلم نے یہ حکم بھی فرمایا تھا:
صل ما أدركت وا قض ما سبقک
جو نماز مل گئی وہ پڑھ لو، اور جورہ گئی وہ بعد میں پوری کرلو ۔
فتح البارى والمرعاة ايضاً
اس روایت کے الفاظ نے فیصلہ کر دیا کہ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کی رکوع میں ملنے والی رکعت نہیں ہوئی تھی بلکہ انہوں نے بعد میں پڑھی تھی۔

الغرض :

مدرک رکوع کی رکعت والا شبہ یا اشکال و اعتراض بھی ختم ہوا اور طے پایا کہ حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ عنہ والی بخاری و مسلم سنن اربعہ اور دیگر کتب کی حدیث میں لا صلواة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب کا مفہوم اپنے عموم کے اعتبار سے ہر نمازی کو شامل ہے ۔ وہ امام ہو یا منفرد اور چاہے وہ مقتدی ہی کیوں نہ ہو، قراءت فاتحہ کا حکم سب کو شامل ہے۔ وَاللهُ الْمُوَفِّقُ

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے