رکعات تراویح :
➊ عہد فاروقی میں اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کسی زمانہ میں بھی بیس رکعات تراویح پر امت اسلامیہ کا اجماع نہیں ہوا۔
➋ جماعت کے ساتھ بیس رکعات تراویح پڑھنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھنا یکسر باطل اور بالکل بے اصل و بے بنیاد ہے۔ اور بے جماعت بیس رکعت پڑھنے کی جو مرفوع روایت پیش کی جاتی ہے اس کے بنیادی راوی ( ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان) کو کسی ناقدفن محدث نے ثقہ اور معتبر راوی نہیں کہا ہے بلکہ بالاتفاق سب نے اس کو مجروح اور ضعیف ہی قرار دیا ہے۔ امام شعبہ رحمہ اللہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ کا ذب ہے اور امام سیوطی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس سے روایت لینا حلال نہیں ہے۔
➌ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی اور تقریری سنتوں سے تراویح کی گیارہ رکعتیں وتر کے ساتھ اور آٹھ رکعتیں بلا وتر صحیح اور مقبول حدیثوں سے بلاشبہ ثابت ہیں۔
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے لے کر اب سے کچھ پہلے تک کسی نے بھی گیارہ رکعت تراویح کے سنت نبویہ ہونے سے انکار نہیں کیا ہے حتی کہ منصف مزاج علمائے احناف کو بھی اس کا اقرار و اعتراف ہے، اس کے بعد یہ تلاش کرنا کہ اس سنت نبویہ پر لوگوں نے عمل کیا یا نہیں، اصولاً غلط ہے۔ اور سنت صحیحہ ثابتہ کی اتباع سے جان چھڑانے کا ایک مقلدانہ حیلہ ہے۔
➎ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم یا ان کی رضامندی سے بیس رکعات کا پڑھنا جمہور محدثین کے مسلمہ قواعد کی رو سے ہرگز ثابت نہیں ہے اور ا گر بالفرض ثابت بھی ہو تو اس کی بنیاد فہم و فراست اور اجتہاد و رائے پر ہے۔ کسی صحیح مرفوع حدیث پر نہیں۔ اس کے برخلاف گیارہ رکعت کی بابت حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا فرمان بالکل صحیح روایت سے ثابت ہے اسی لئے اس فرمان فاروقی کی نسبت اکابر علمائے امت کو تسلیم ہے کہ اس کا ماخذ سنت نبویہ ہی ہے۔ [انوار مصابيح علامه نذير احمد رحماني املوي ص348 و 349 ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ رکعت سے زیادہ تراویح نہیں پڑھی ہے :
جب یہ ثابت ہو گیا کہ صلاۃ تراویح میں جماعت مشروع و مستحب ہے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جماعت سے پڑھتے ہوئے دیکھا اور انہیں اس پر باقی رکھا اور خود لوگوں کو جماعت کے ساتھ تراویح پڑھائی اور زبان حق ترجمان سے اس کی فضیلت بیان فرمائی، تو اب ہم بیان کرنا چاہتے ہیں کہ جن راتوں میں آپ نے لوگوں کو صلاۃ تراویح باجماعت پڑھائی ان میں کتنی رکعتیں تھیں؟ اس سلسلہ میں ہمارے پاس درج ذیل دو حدیثیں ہیں :
➊ عن أبى سلمة بن عبدالرحمن، أنه سأل عائشة رضي الله عنها كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فى رمضان؟ فقالت : ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد فى رمضان ولا فى غيره على إحدي عشرة ركعة، (1) يصلي أربعا، (2) فلا تسأل عن حسنهن و طولهن، ثم يصلي أربعا، فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا .
اس کو امام بخاری (3؍25، 4؍205) اور امام مسلم (2؍166) اور ابوعوانہ (2؍327) اور ابوداؤد (1؍210) اور ترمذی (2؍302۔ 303 طبع احمد شاکر) اور نسائی (1؍248) اور مالک (1؍134) اور ان سے بیہقی (2؍495۔ 496) اور احمد (6؍36، 73، 104) نے روایت کیا ہے۔
’’ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے رمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاۃ (تراویح) کی کیفیت دریافت کی، تو انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعت سے زیادہ نہ تو رمضان میں پڑھتے تھے اور نہ غیر رمضان میں۔ چار رکعتیں پڑھتے تھے، بس مت پوچھو، کتنی اچھی اور لمبی ہوتی تھیں؟ پھر چار رکعتیں پڑھتے تھے، بس مت پوچھو کہ وہ کتنی اچھی اور لمبی ہوتی تھیں؟ پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے۔ “
➋ عن جابر بن عبدالله رضى الله عنه قال : صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فى شهر رمضان ثمان ركعات، وأوتر، فلما كانت القابلة اجتمعنا فى المسجد و رجونا أن يخرج، فلم نزل فيه حتي أصبحنا، ثم دخلنا، فقلنا : يا رسول الله صلى الله عليه وسلم ! اجتمعنا البارحة فى المسجد، ورجونا أن تصلي بنا، فقال : إني خشيت أن يكتب عليكم .
اسے ابن نصر نے (ص90) اور الطبرانی نے ’’المعجم الصغیر“ (ص108) میں روایت کیا ہے اور اس کی سند ماقبل کے ساتھ مل کر حسن ہے اور حافظ نے ’’الفتح“ (3؍10) میں اور ’’التلخیص“ (ص 119) میں اس کی تقویت کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسے ’’صحیح ابن خزیمہ“ اور صحیح ابن حبان کی طرف منسوب کیا ہے۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان میں ہمیں آٹھ رکعتیں اور صلاۃ وتر پڑھائی، دوسری رات پھر ہم مسجد میں جمع ہوئے، ہمیں توقع تھی کہ آپ تشریف لائیں گے (مگر آپ نہیں نکلے ) صبح تک ہم آپ کا انتظار کرتے رہ گئے۔ پھر آپ کے پاس حاضر ہو کر ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! گزشتہ رات ہم مسجد میں جمع ہوئے تھے اور پُرامید تھے کہ آپ ہمیں صلاۃ تراویح پڑھائیں گے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ تم پر فرض نہ ہو جائے۔
بیس رکعت والی حدیث سخت ضعیف ہے، اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہے :
حافظ نے ’’الفتح“ (4؍205۔ 206) میں پہلی حدیث (حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا) کی شرح کے ضمن میں فرمایا ہے :
’’رہا ابن ابی شیبہ کا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے یہ ٹکڑا روایت کرنا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعتیں پڑھتے تھے۔ “ تو اس کی سند ضعیف ہے اور حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا جو صحیحین میں ہے کے معارض او رمخالف ہے، اور وہ دوسروں کے مقابل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رات کے حالات و معمولات سے زیادہ واقف کار تھیں۔ “
حافظ سے پہلے حافظ زیلعی نے ’’نصب الرایۃ“ (2؍153) میں اس معنی کو بیان کیا ہے۔
میں کہتا ہوں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث بالکل ضعیف ہے۔ جیسا کہ امام سیوطی نے ’’الحاوی للفتاوی“ (2؍73) میں کہا ہے، اس کے ضعیف ہونے کی علت یہ ہے کہ اس میں ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان ہیں۔ حافظ نے ’’التقریب“ میں انہیں ’’متروک الحدیث“ کہا: ہے اور میں نے اس حدیث کی تمام سندوں کو چھان ڈالا مگر کوئی سند ابراہیم کے سوا دوسرے شخص سے نہیں ملی۔ چنانچہ اس کی تخریج ابن ابی شیبہ نے ’’المصنف“ (2؍90؍2) میں اور عبد بن حمید نے ”المنتخب من المسند“ (43؍1۔ 2) میں اور طبرانی نے ’’المعجم الکبیر“ (3؍148؍2) میں اور ’’الأوسط“ میں کی ہے۔ جیسا کہ ذہبی نے ’’المنتقی من الأوسط“ (3؍2) میں اور ان کے علاوہ کی ’’الجمع بین الأوسط و بین الصغیر“ (119؍1) میں اور ابن عدی نے ’’الکامل“ میں (1؍2) اور خطیب نے ’’الموضح“ (1؍219) میں اور بیہقی نے اپنی ’’سنن“ (2؍496) میں ان ہی ابراہیم کے واسطہ سے کی ہے، جسے وہ حکم سے روایت کرتے ہیں، وہ مقسم سے اور وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں اور امام طبرانی نے کہا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صرف اسی سند سے مروی ہے اور امام بیہقی نے کہا: ہے کہ ’’ابوشیبہ اس میں منفرد ہیں اور وہ ضعیف ہیں۔ “ اسی طرح ہیثمی نے ’’المجمع“ (3؍172) میں کہا: ہے کہ وہ ضعیف ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث بہت ہی ضعیف ہے جیسا کہ حافظ کے سابقہ قول ’’متروک الحدیث“ سے ثابت ہوتا ہے، اس کے سلسلہ میں متروک ماننا ہی راجح اور درست ہے، چنانچہ ابن معین نے کہا: ہے : ’’یہ ثقہ نہیں ہے “ اور جوزجانی نے ’’ساقط“ قرار دیا ہے اور شعبہ نے ایک قصہ کے بیان میں اس کی تکذیب کی ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے ’’لوگوں نے اس کے بارے میں سکوت اختیار کیا ہے “ اور ابن کثیر رحمہ اللہ نے ’’اختصار علوم الحدیث“ (ص 118) میں ذکر کیا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا کسی کے بارے میں سكتوا عنه فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ادنی اور نہایت گھٹیا درجہ کا ہے۔ اس لیے میں اس کی حدیث کو موضوع کے درجہ میں سمجھتا ہوں۔ کیوں کہ یہ عائشہ اور جابر رضی اللہ عنہما کی حدیث کے معارض ہے جیسا کہ حافظ زیلعی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رحمہما اللہ کا قول اوپر نقل ہو چکا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ابراہیم کی اس حدیث کو اس کے ’’مناکیر“ میں سے شمار کیا ہے اور فقیہ ابن حجر ہیتمی نے ’’الفتاوی الکبریٰ“ (1؍195) میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے :
’’یہ حدیث سخت ضعیف ہے، ائمۂ کرام نے اس حدیث کے ایک راوی پر بڑی سخت جرح کر کے اس کی مذمت کی ہے، منجملہ اس جرح و مذمت کے یہ ہے کہ وہ موضوع روایتیں بیان کرتا ہے مثلاً حدیث ما هلكت أمة إلا فى آذار اور لا تقوم الساعة إلا فى آذار اور صلاۃ تراویح کے بارے میں اس کی یہ حدیث اس کے مناکیر میں سے ہے۔ اور سبکی نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ حدیث ضعیف پر عمل کی شرط یہ ہے کہ ا س کا ضعف شدید نہ ہو۔ “ امام ذہبی نے کہا: ’’شعبہ جیسے ماہر فن جس کی تکذیب کر دیں اس کی حدیث ناقابل التفات ہے۔ “
میں کہتا ہوں کہ امام ہیتمی نے سبکی کا جو قول نقل کیا ہے اس میں اس بات کا لطیف اشارہ ہے کہ وہ بیس رکعت تراویح پر عمل کے قائل نہیں ہیں۔
پھر سیوطی نے ابن حبان کی روایت سے جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کر کے کہا ہے :
’’حاصل کلام یہ ہے کہ بیس رکعت کا ثبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے نہیں ہے اور جہاں تک معاملہ صحیح ابن حبان کی روایت کا ہے تو وہ صحیح بخاری میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہماری دلیل کے ہم معنی ہے، جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ پڑھتے تھے نہ غیر رمضان میں۔ ان کا یہ بیان جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے موافق ہے، اس لیے کہ اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح آٹھ رکعت پڑھی، پھر تین رکعت وتر پڑھی، جس کا مجموعہ گیارہ رکعت ہوا۔ اس بات پر یہ چیز بھی دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی عمل خیر کرتے تو اس پر ہمیشگی کرتے تھے، جیسا کہ آپ نے ان دو رکعتوں پر مداومت کی جنہیں عصر کے بعد قضا کیا تھا، حالانکہ اس وقت صلاۃ نفل پڑھنے کی ممانعت ہے، اور اگر آپ نے ایک بار بھی بیس رکعت پڑھی ہوتی تو اس کو کبھی نہ چھوڑتے، اور اگر ایسا ہوا ہوتا تو عائشہ رضی اللہ عنہا سے مخفی نہ رہتا جن کا واضح بیان گزر چکا ہے۔ “
میں کہتا ہوں کہ ان کے (سیوطی) کلام میں اس بات کی طرف قوی اشارہ ہے کہ ان کے نزدیک مختار اور پسندیدہ گیارہ رکعت ہی ہے او ربیس رکعت جو ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں وارد ہے وہ متروک ہے۔ کیو ں کہ وہ سخت ضعیف ہے۔ اس پر اچھی طرح غور کر لیجئے۔ [صلاة التراويح امام الباني ص 36۔ 42 مطبوعه مجمع البحوث العلمية الاسلاميه، نئي دهلي]
گیارہ یا تیرہ رکعات تراویح ہی سنت سے ثابت ہے :
جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں غور و فکر کرے گا اسے یقین ہو جائے گا کہ ان سب صورتوں میں افضل گیارہ یا تیرہ رکعتیں ہیں، خواہ رمضان کا مہینہ ہو یا غیر رمضان کا۔ کیونکہ عام حالات میں آپ کا معمول یہی تھا۔ نیز مصلیوں کے لئے اس میں سہولت اور آسانی ہے اور یہ خشوع و خضوع اور اطمینا ن و سکون سے قریب تر ہے۔
قیام رمضان میں امام کے ساتھ پڑھنے والے کے لئے افضل یہ ہے کہ وہ امام کے ساتھ ہی قیام ختم کرے۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
إن الرجل إذا قام مع الإمام حتي ينصرف كتب الله له قيام ليلة [صحيح : صحيح سنن أبى داؤ د، أبوا ب شهر رمضان 319 رقم 227۔ 1375 بروايت ابوذر رضى الله عنه، صحيح سنن الترمذي، الصوم باب قيام شهر رمضان 80 رقم 646۔ 810، صحيح سنن النسائي، السهو 13 باب ثواب من صلى مع الإمام حتي ينصرف 103 رقم 1292، صحيح سنن ابن ماجه، إقامة الصلاة 5 باب ماجا ء فى قيام شهر رمضان 173 رقم 1092۔ 1327، صحيح الجامع، رقم 1615، إرواء الغليل رقم 447]
’’ بے شک آدمی جب امام کے ساتھ قیام کرتا ہے اور فراغت تک اس کے ساتھ شامل رہتا ہے تو اس کے لئے پوری رات کا قیام لکھا جاتا ہے “۔
ماہِ رمضان عبادتوں کا موسم بہار ہے :
اس ماہِ رمضان میں تمام مسلمانوں کو مختلف قسم کی عبادتوں کی بجا آوری کی بھر پور کوشش کر نی چاہیے۔ مثلاً نفلی صلاۃ کی ادائیگی، غور و فکر کے ساتھ تلاوت قرآن کرنا، زیادہ سے زیادہ سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ کہنا، استغفار کرنا اور کتاب و سنت سے ثابت دعائیں کرنا، بھلائی کا حکم دینا، برائی سے روکنا، اللہ عز و جل کے دین کی دعوت دینا، فقراء و مساکین کی خبرگیری کرنا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بھر پور جدوجہد کر نا، صلہ رحمی کرنا، پڑوسی کا خیال رکھنا، بیمار کی بیمار پرسی کرنا، گنجائش ہو تو عمرہ کرنا وغیرہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث صحیح میں فرمایا ہے :
عمرة فى رمضان تعدل حجة أو قال معي [صحيح : صحيح بخاري، العمرة 26 باب عمرة فى رمضان 4 رقم 1782 بروايت ابن عبا س رضي الله عنهما، وجزاء الصيد 28 باب حج النساء 26 رقم1863، صحيح مسلم، الحج 15 باب فضل العمرة فى رمضان 36 رقم 222۔ 1256]
’’ رمضان میں ایک عمرہ ایک حج کے برابر ہوتا ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ میرے ساتھ حج کے برابر ہوتا ہے “۔
اس ماہِ مبارک میں مختلف قسم کی عبادتوں اور نیکیوں میں سبقت کرنے اور جذبۂ تنافس کو ابھارنے کے سلسلہ میں حدیثیں اور آثار بہت ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو اپنی مرضی کے تمام کاموں کو کرنے کی توفیق دے، ہمارے صیام و قیام کو قبول فرمائے، ہمارے حالات درست فرما دے، اور ہم سب کو گمراہ کن فتنوں سے مامون و محفوظ رکھے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے یہ بھی دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کے قائدین کی اصلاح فرمائے اور حق پر انہیں اکٹھا کر دے۔ وہی اس کا والی اور اس پر قادر ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(علامہ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن باز۔ رحمہ اللہ)