سوال
روزے کا فدیہ کتنی مقدار میں دینا چاہیے؟
کیا فدیہ اسی ملک میں دینا واجب ہے جہاں مقیم ہیں یا اپنے آبائی وطن میں بھی دیا جا سکتا ہے؟
کیا صدقہ و خیرات ہمیشہ صرف ایک ہی بیوہ رشتہ دار کو دیا جا سکتا ہے؟
جواب از فضیلۃ الباحث: نعمان خلیق حفظہ اللہ
➊ فدیے کی مقدار کتنی ہونی چاہیے؟
فتویٰ اصحاب الحدیث کے مطابق:
"اپنے بھائی کے لیے وہ پسند کریں جو اپنے لیے کرتے ہیں، لہذا آپ کو لگتا ہو کہ آپ سحر و افطار اتنے میں کر سکتے ہیں، اتنی رقم فدیہ کر دیں۔”
یعنی فدیہ کی مقدار وہ ہونی چاہیے جو ایک روزے کے سحر و افطار پر خرچ ہو سکتی ہو۔ انسان اپنی ذاتی ضروریات کے حساب سے اندازہ لگا کر اتنی ہی رقم فدیہ میں دے سکتا ہے۔
➋ فدیہ کہاں دینا چاہیے؟ مقامی ملک یا آبائی وطن؟
جواب میں وضاحت کی گئی:
"زیادہ بہتر ہے کہ اپنے قرب و جوار میں دیں، اگر کہیں اور دینا چاہیں تو کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔”
یعنی فدیہ دینا مقامی مستحقین کو دینا زیادہ مناسب ہے، لیکن اگر کسی وجہ سے آبائی وطن یا کسی دوسرے مقام پر دینا چاہیں تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں۔
➌ صدقہ و خیرات ایک ہی بیوہ رشتہ دار کو دینا کیسا ہے؟
قرآن مجید کی ہدایت کی روشنی میں:
"مسکین کہا اللہ نے قرآن میں، جی، ایک ہی کو دیا جا سکتا ہے۔”
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ بیوہ واقعی مستحق اور مسکین ہے تو اسے بار بار دینا جائز ہے، بشرطیکہ نیت خالص ہو اور واقعی وہ ضرورت مند ہو۔
نتیجہ:
◈ فدیے کی رقم کا تعین اپنی روزمرہ کی سحر و افطار کی استطاعت سے کریں۔
◈ مقامی طور پر دینا افضل ہے، مگر دوسرے مقامات پر دینا بھی جائز ہے۔
◈ اگر بیوہ رشتہ دار حقیقی مستحق ہے تو صدقہ وغیرہ صرف اسی کو بارہا دیا جا سکتا ہے۔
ھذا ما عندی