روزے کے دوران حیض کا شک اور استحاضہ کی صورت میں شرعی حکم
ماخوذ: قرآن کی روشنی میں احکام ومسائل جلد 01

سوال

ایک عورت جس کے ایامِ حیض کبھی ایک ماہ، کبھی ڈیڑھ یا دو ماہ کے وقفے سے آتے ہیں۔ گزشتہ تاریخ کے مطابق، اس کے ایامِ حیض ماہِ رمضان کے دوران درمیان میں آنے تھے، لیکن حیض ظاہر نہیں ہوا۔
اسی دوران، رات کو اس نے اپنے شوہر سے مباشرت کی۔ سحری سے قبل تک کوئی داغ یا علامت ظاہر نہ ہوئی، لہٰذا اس نے روزہ رکھ لیا۔
کچھ دیر بعد، جب وہ وضو کے لیے واش روم گئی تو استنجا کے دوران خون کا ایک داغ دیکھا۔ اسے گمان ہوا کہ یہ حیض ہے، مگر بعد میں واضح ہوا کہ یہ حیض نہیں بلکہ صرف ایک داغ تھا، جسے شرعی اصطلاح میں غالباً استحاضہ کہا جاتا ہے۔
اس عورت نے دن گیارہ بجے کے قریب غسل کیا اور اپنا روزہ جاری رکھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کا یہ عمل درست تھا؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے، مذکورہ عورت نے روزہ مکمل کر کے صحیح عمل کیا۔ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

✿ خواتین اپنی جسمانی روٹین اور ایام کو بہتر طور پر جانتی ہیں۔
✿ بعد کے دنوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ آیا وہ خون حیض کا تھا یا صرف مباشرت یا استحاضہ کی وجہ سے آیا تھا۔
✿ اگر وہ خون حیض کا ہوتا تو اس کے بعد بھی مسلسل جاری رہتا۔
✿ اس کا جاری نہ رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خون حیض نہیں تھا۔

والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1