روزے کی حالت میں سینگی (پچھنے) لگوانے کا حکم
سوال:
روزے کی حالت میں سینگی لگوانا کیسا ہے؟ ایک حدیث میں آیا ہے کہ "سینگی لگانے والا اور لگوانے والا دونوں افطار کر لیتے ہیں”، جبکہ دوسری طرف خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کی حالت میں سینگی لگوائی۔ اس حوالے سے وضاحت فرمائیں۔
(نوید شوکت، ڈربی، برطانیہ)
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روزے کی حالت میں سینگی لگوانا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"أن النبي صلى الله عليه وسلم احتجم وهو محرم، واحتجم وهو صائم”
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں بھی سینگی لگوائی اور روزے کی حالت میں بھی سینگی لگوائی۔”
(صحیح بخاری: 5694)
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ روزے کی حالت میں سینگی لگوانا جائز ہے۔
سینگی (پچھنے لگوانا)
اس کا مطلب یہ ہے کہ جسم سے خون نکالنے کا عمل کسی بیماری یا علاج کی غرض سے کیا جاتا ہے۔
وہ حدیث جس میں روزہ ٹوٹنے کا ذکر ہے
حضرت ثَوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ”
"سینگی لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔”
(سنن ابی داؤد: 2367، سند صحیح؛ ابن خزیمہ: 1962، 1963؛ ابن حبان: 899؛ الحاکم علی شرط الشیخین: 1/427؛ ووافقہ الذہبی)
یہ حدیث اس وقت کی ہے جب ابتدائی طور پر سینگی لگوانے کو روزے کے منافی سمجھا گیا۔
بعد میں سینگی لگوانے کی اجازت
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"عن أنس بن مالك قال : أول ما كرهت الحجامة للصائم أن جعفر بن أبي طالب رضي الله عنه احتجم وهو صائم ، فمر به النبي صلى الله عليه وسلم فقال : أفطر هذان ، ثم رخص النبي صلى الله عليه وسلم بعد في الحجامة للصائم ، وكان أنس يحتجم وهو صائم”
"میں نے سب سے پہلے روزے دار کے لیے سینگی لگوانا اس وقت ناپسند کیا تھا جب جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روزے کی حالت میں سینگی لگوائی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا تو آپ نے فرمایا: ‘ان دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔’ بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے دار کو سینگی لگوانے کی اجازت دے دی۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزے کی حالت میں سینگی لگواتے تھے۔”
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے فرمایا:
اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں اور اس میں کوئی علت نہیں۔
(سنن الکبری للبیہقی: 4/268)
سند کے راویوں کی توثیق
➊ عبداللہ بن المثنیٰ بن انس: جمہور کے نزدیک موثق اور حسن الحدیث راوی ہیں۔ (تحقیقی مقالات: 5/207)
➋ خالد بن مخلد: جمہور علماء کے نزدیک موثق اور حسن الحدیث ہیں۔
لہٰذا اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے اور بعض محدثین کی اس پر جرح معتبر نہیں۔
واللہ اعلم
صحابہ و تابعین کا عمل اور اقوال
➊ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
"روزے دار کے لیے سینگی لگوانے میں کوئی حرج نہیں”
(صحیح ابن خزیمہ: 1981، سند حسن)
➋ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول:
"الفطر مما دخل ، و ليس مما خرج…..”
"روزہ ان چیزوں سے ٹوٹتا ہے جو جسم کے اندر داخل ہوں، نہ کہ ان سے جو جسم سے خارج ہوں۔”
(الاوسط لابن المنذر: 1/195 ت81، سند صحیح)
➌ عکرمہ رحمہ اللہ:
"روزے دار کے لیے سینگی لگوانے میں کوئی حرج نہیں۔”
(ابن ابی شیبہ: 3/53، ح9333، ملخصاً، سند صحیح)
➍ عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ:
وہ روزے کی حالت میں سینگی لگواتے تھے۔
(ابن ابی شیبہ: 3/53، ح9334، سند صحیح)
خلاصہ تحقیق
تمام احادیث و آثار کو مدنظر رکھتے ہوئے تحقیق کا خلاصہ یہ ہے:
➊ سینگی لگوانے سے روزہ ٹوٹنے والی حدیث منسوخ ہے۔
➋ امام شافعی رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ کرام کا بھی یہی مسلک ہے کہ روزے کی حالت میں سینگی لگوانا جائز ہے۔
(الاعتبار فی بیان الناسخ والمنسوخ من الآثار، ص141)
فائدہ
➊ روزے کی حالت میں علاج کے لیے خون نکالنے یا خون دینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
➋ البتہ اگر کمزوری کا خدشہ ہو تو روزے کی حالت میں خون دینے سے اجتناب بہتر ہے۔
(6 اگست 2013ء، بمطابق 27 رمضان 1334ھ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب