روزے کی حالت میں خون ٹیسٹ کا حکم اور اس کے اثرات
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

روزہ دار کے خون کے ٹیسٹ کے متعلق شرعی حکم

سوال:

روزہ دار اگر خون کا ٹیسٹ کروائے تو کیا اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روزے کی حالت میں خون ٹیسٹ کے لیے نکالنے سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔ اس کی وضاحت درج ذیل نکات میں کی جاتی ہے:

خون کا تھوڑا سا نکالنا اور روزہ

روزہ دار کے جسم سے تھوڑی مقدار میں خون لینے کا مقصد اکثر و بیشتر طبی تشخیص ہوتا ہے۔
✿ چونکہ یہ مقدار بہت قلیل ہوتی ہے، اس لیے اس کا اثر سینگی (حجامہ) کی طرح جسم پر نہیں پڑتا۔
✿ اس بنیاد پر اس طرح خون نکالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

اصولی بات

✿ روزہ اصلاً برقرار رہتا ہے، جب تک کوئی شرعی دلیل موجود نہ ہو جو اسے باطل قرار دے۔
✿ خون نکالنے کے اس معاملے میں ایسی کوئی واضح شرعی دلیل نہیں ہے جو یہ ثابت کرے کہ تھوڑی مقدار میں خون نکالنے سے روزہ ٹوٹ جائے۔

کثیر مقدار میں خون نکالنے کا حکم

✿ اگر زیادہ مقدار میں خون نکالا جائے، جیسا کہ کسی دوسرے ضرورت مند کو خون عطیہ کرنا ہو، تو یہ سینگی جیسا اثر رکھتا ہے اور اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
لہٰذا واجب روزے کی حالت میں کسی کو خون عطیہ نہ دیا جائے، الاّ یہ کہ:
◈ جسے خون دینا مقصود ہو، وہ کسی خطرناک حالت میں ہو۔
غروب آفتاب تک انتظار ممکن نہ ہو۔
◈ ماہر اطباء کی رائے میں خون دینا اس کی زندگی بچانے یا بیماری کے علاج کے لیے ضروری ہو۔

روزہ ٹوٹنے کی صورت میں کیا کرے؟

✿ اگر کسی مجبوری کی بنا پر روزہ دار کو خون دینا پڑ جائے، اور اس سے روزہ باطل ہو جائے:
◈ تو اسے کھا پی لینا چاہیے تاکہ جسمانی قوت بحال ہو۔
◈ اور اس دن کے روزے کی قضا ادا کرنا واجب ہوگی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1