سوال:
روزوں کی قضا کب دی جائے گی؟
جواب:
جس کے رمضان کے روزے رہ جائیں، اس کے لیے لگاتار روزوں کی قضا دینا بہتر ہے، البتہ اگر وقفے وقفے سے اگلے رمضان تک قضا مکمل کر لے، تو بھی جائز ہے۔ اگر کوئی شخص رمضان کے روزوں کی قضا دینے سے پہلے شوال کے چھ روزے رکھ لے، تو بھی کوئی حرج نہیں۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ
(البقرة: 185)
دوسرے دنوں میں (رمضان کے روزوں کی) گنتی پوری کر لیں۔
❀ علامہ عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ (1414ھ) اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
إنه أمر بالقضاء مطلقا عن وقت معين فلا يجوز تقييده ببعض الأوقات إلا بدليل
روزوں کی قضا کا بغیر کسی وقت معین کے مطلق حکم دیا گیا ہے، لہذا اسے بغیر دلیل کے کسی وقت کے ساتھ خاص کرنا جائز نہیں۔
(مرعاة المفاتيح: 7/23)
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:
كان يكون علي الصوم من رمضان، فما أستطيع أن أقضي إلا في شعبان
مجھ پر رمضان کے روزوں کی قضا ہوتی، میں انہیں شعبان سے پہلے نہ رکھ سکتی تھی۔
(صحیح البخاری: 1950، صحیح مسلم: 1146)
❀ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (463ھ) فرماتے ہیں:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا رمضان کے روزوں کی قضا تاخیر سے دینا اس بات کی دلیل ہے کہ قضا میں وسعت ہے اور اس میں تاخیر جائز ہے، نیز یہ روایت دلیل ہے کہ اس بارے میں تاخیر کی انتہا ماہ شعبان ہے۔
(التمهيد لما في المؤطأ من المعاني والأسانيد: 23/149)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ) لکھتے ہیں:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان کی قضا کو مطلق طور پر مؤخر کرنا جائز ہے، خواہ عذر کی وجہ سے یا بغیر عذر کے۔
(فتح الباری: 4/190)
❀ نیز فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ کے ظاہری صنیع سے لگتا ہے کہ آپ رحمہ اللہ روزوں کی قضا (تاخیر) میں وسعت اور وقفہ کو جائز سمجھتے تھے، کیونکہ آپ رحمہ اللہ نے اپنے منہج کے مطابق ترجمۃ الباب میں آثار ذکر کیے ہیں، یہی جمہور کا موقف ہے۔
(فتح الباری: 4/189)