آل دیوبند کے مجروح راوی
مولانا عبدالرحمن شاہین حفظہ اللہ ( مشہور اہل حدیث عالم ) نے امام حاکم رحمہ اللہ اور ثقه تابعی امام ابو قلابہ رحمہ اللہ کی بیان کردہ احادیث سے استدلال کیا تو امین اوکاڑوی دیوبندی نے امام حاکم رحمہ اللہ کو شیعہ قرار دیا۔
دیکھئے تجلیات صفدر (489/2)
اما اور ابو قلابہ رحمہ اللہ کو ناصبی قرار دے کر لکھا ہے :
’’آپ رفع یدین کے لئے کبھی کسی شیعہ کی چوکھٹ پر سجدہ کرتے ہیں کبھی کسی ناصبی کے پاؤں چاہتے ہیں‘‘
(تجلیات صفدر 493/2)
لیکن آل دیو بند بلکہ خود امین اوکاڑوی نے بھی ان مذکورہ دونوں ائمہ کی احادیث اپنی کتابوں میں لکھیں اور ان سے استدلال کیا، لہذا اوکاڑ وی اصول کے مطابق امین اوکاڑوی اور دیگر آل دیو بند نے کبھی تو شیعہ کی چوکھٹ کو سجدے کئے اور کبھی ناصبی کے پاؤں چائے۔ ذیل میں راقم الحروف ان شاء اللہ ایسے تیسں (30) سے زیادہ راویوں کی نشاندہی کرے گا، جن کی بیان کردہ روایات اگر آل دیوبند کی طبیعت کے مطابق ہوں تو قبول کر لیتے ہیں اور اگر طبیعت کے خلاف ہوں تو انھی راویوں پر جرح کر کے ان کی روایات رد کر دیتے ہیں۔ میں بطور نمونہ چند راویوں کا تفصیل سے ذکر کروں گا ، پھر اختصار کے پیش نظر جہاں آل دیوبند نے روایت قبول کی ہوگی یا تعریف کی ہوگی وہاں حوالہ لکھ دوں گا اور جہاں روایت رد کی ہو گی ، وہاں ’’حوالہ‘‘ لکھ دوں گا۔ باذوق حضرات اصل حوالوں کی خود ہی مراجعت کر لیں۔
محمد بن جابر یمامی:
اس کی روایت سے آل دیو بند مسئلہ ترک رفع یدین میں استدلال کرتے ہیں۔ دیکھئے حدیث اور اہلحدیث (ص403 بحوالہ بیہقی، دارقطنی ) تجلیات مندر (306/2) آٹھ مسائل ( ص 4241) تجلیات صفدر (136/4) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز (ص182، از جمیل احمد نذیری)
تنبیه:
جمیل احمد نذیری نے دو بڑے جرم کئے ہیں:
◈محمد بن جابر کی روایت بحوالہ دار قطنی ، بیہقی و ہیثمی نقل کی ہے لیکن تینوں علماء نے اس راوی پر جو جرح کی اسے چھپالیا ہے۔
◈نذیری نے یہ لکھا ہے کہ ’’محمد بن جابر یمامی رحمہ اللہ کی یہ روایت ان کے نابینا ہونے سے پہلے کی ہے۔ لہذا ہر قسم کے اختلاط سے محفوظ ہے‘‘
حالانکہ نذیری کی بات بالکل بے دلیل اور کالا جھوٹ ہے۔
یادر ہے کہ محمد بن جابر جمہور محدثین کے نزدیک مجروح راوی ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھئے نور العینین (ص152)
لیکن اسی راوی نے جب کہا کہ ابو حنیفہ نے اس کی کتابیں چوری کر لی تھیں تو عبدالقدوس قارن دیوبندی نے اس پر یوں جرح نقل کی :’’پھر اس روایت میں محمد بن جابر الیمامی الاٹمی ہے جس کے بارہ میں امام احمد نے کہا کہ اس سے صرف وہی آدمی حدیث بیان کرے گا جو اس سے بھی زیادہ شریر ہوگا اور ابن معین اور نسائی نے اس کو ضعیف کہا۔‘‘
(ابوحنیفہ کا عادلانہ دفاع ص 281)
سرفراز خان صفدر دیوبندی نے کہا ہے:
’’اور حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه کی روایت ضعیف ہے۔ کیونکہ اس کی سند میں محمد بن جابر اور ایوب بن عتبہ ہیں۔ علامہ الحازمی کتاب الاعتبار ص 44 میں لکھتے ہیں ضعیفان عند اهل العلم بالحدیث اور امام بیہقی رحمہ اللہ سنن الکبریٰ ج ۱ص۲۱۳ میں لکھتے ہیں کہ محمد بن جابر متروک ہے تو ایسی ضعیف روایت سے صحیح روایت کی نسخخ کا کیا معنی ؟‘‘
(خزائن السنن ص 173)
زیلعی حنفی نے بھی محمد بن جابر کو ضعیف کہا۔
(نصب الرايہ1/ 61)
خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی نے بھی محمد بن جابر کو ضعیف کہا۔
(دیکھئے بذل المحمود / 111، دوسرا نسخه ج2ص 93 تحت ح 183)
ابو یوسف محمد ولی درویش دیوبندی نے مس ذکر سے وضوٹو ٹنے والی حدیث کی وجہ سے محمد بن جابر پر جرح کی ۔
(پیغمبر خدائی صلی اللہ علیہ وسلم مونح ص ۵۲ ، یہ کتاب پشتو میں ہے)
اور اسی کتاب میں ترک رفع یدین کے مسئلے میں محمد بن جابر کی توثیق نقل کی ۔ (ص294)
یہ دوغلی پالیسی کی انتہا ہے۔
سلیمان شاذ کونی:
آل دیو بند مسئلہ ترک رفع یدین میں امام ابوحنیفہ اور امام اوزاعی کے درمیان ایک مناظرے کا ذکر کرتے ہوئے سلیمان بن داود شاذ کونی کی طرف منسوب ایک روایت سے استدلال کرتے ہیں۔
دیکھئے تجلیات صفدر (423/20302/2) درس ترمذی (44/2)
سرفراز صفدر دیوبندی نے لکھا ہے:
’’حضرات محدثین عظام رحمہ اللہ کے ضابطہ پر تو مؤلف خیر الکلام مطمئن نہیں ہیں اور سلیمان شاذ کونی کی لاتوں کا سہارا تلاش کرتے ہیں اور یہ بتانے کی زحمت ہی گوارانہیں کرتے کہ وہ کون ہے؟ امام بخاری فرماتے ہیں کہ فیہ نظر ابن معین رحمہ اللہ نے اس کو حدیث میں جھوٹا کہا۔ ابو حاتم اس کومتروک الحدیث اور نسائی رحمہ اللہ لیس بثقہ کہتے ہیں اور صالح جزرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کان یکذب فی الحدیث کہ حدیث میں جھوٹ کہتا تھا اور امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ شراب پیتا اور بیہودہ حرکتوں میں آلودہ تھا اور نیز فرمایا کہ درب دمیک میں شاذ کونی سے بڑا جھوٹا اور کوئی داخل نہیں ہوا بغوی فرماتے ہیں کہ رماہ الائمہ بالکذب آئمہ حدیث نے اس کو جھوٹ سے متہم کیا ہے اور امام یحیی بن معین فرماتے ہیں کان یضع الحدیث کہ وہ جعلی روایتیں بنایا کرتا تھا۔ امام ابو احمد الحاکم رحمہ اللہ اس کو متروک الحدیث اور امام ابن مہدی اس کو خائب اور نا مراد کہتے تھے ۔ امام عبد الرزاق رحمہ اللہ نے اس کو عدو اللہ کذاب اور خبیث کہا اور صالح جزرہ کہتے ہیں کہ آناً فاناً سندیں گھڑ لیتا تھا اور صالح بن محمد نے یہ بھی فرمایا کہ وہ کذاب اور لونڈے بازی سے متہم تھا۔ (محصله لسان المیزان جلد 3ص 84 تا 87)‘‘
(احسن الکلام 204/1 ، دوسرانسخه 284/1)
محمد بن سائب کلبی اور محمد بن مروان السدی:
سرفراز صفدر صاحب دیوبندی نے لکھا ہے :
’’کلبی کا نام محمد بن السائب بن بشر ابو النضر ہے۔ امام ابن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ لیس بشی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں امام بیچی اور ابن مہدی نے اس کی روایت بالکل ترک کر دی تھی ابو جزء اور یزید بن زریع فرماتے ہیں کہ کلبی کا فر ہے کیونکہ وہ کہتا ہے کہ حضرت جبرئیل غلطی سے بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت علی پر وحی نازل کر گئے تھے (معاذ اللہ ) امام نسائی فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ نہیں ۔ امام علی بن الجنید ، ابواحمد الحاکم اور دار قطنی فرماتے ہیں کہ وہ متروک الحدیث ہے جو ز جائی کہتے ہیں کہ وہ کذاب اور ساقط الاعتبار ہے ، ابن حبان کہتے ہیں کہ اس کی روایات میں جھوٹ بالکل ظاہر ہے، ساجی کہتے ہیں کہ متروک الحدیث نہایت کمزور اور غالی شیعہ ہے، امام ابو عبد اللہ الحاکم فرماتے ہیں کہ ابو صالح سے اس نے جھوٹی روائتیں بیان کی ہیں، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ تمام ثقہ اہل نقل اس کی مذمت پر متفق ہیں اور اس پر اجماع ہے کہ احکام اور فروع میں اس کی کوئی روایت قابل قبول نہیں ہے (تہذیب التہذیب ج9ص 178 تا 181) امام احمد فرماتے ہیں کہ کلبی کی تفسیر اول سے آخر تک سب جھوٹ ہے، اس کا پڑھنا جائز نہیں (تذکرۃ الموضوعات ص82)‘‘
(تنقید متین ص 167۔168، نیز دیکھئے ازالته الریب ص 314)
تنبیہ:
کلبی کی طرف منسوب تفسیر (تنویر المقباس) کلبی تک بھی باسند صحیح ہر گز ثابت نہیں بلکہ نیچے والی سند میں کئی راوی مجروح یا مجہول ہیں۔ مثلاً : محمد بن مروان السدی کذاب، عمار بن عبدالمجید الہروی، ابو عبید الله محمود بن محمد الرازی ابوعبد الله ، المأمور الہروی، عبد اللہ بن الماً مور۔
(دیکھئے تنویر المقباس ص2)
محمد بن مروان سدی:
سرفراز صفدر دیوبندی نے سُدی کی روایت پیش کرنے والے ایک بریلوی کے خلاف لکھا ہے: ’’آپ نے خازن کے حوالے سے سدی کذاب کے گھر میں پناہ لی ہے جو آپ کی علمی رسوائی کے لئے بالکل کافی ہے اور یہ داغ ہمیشہ آپ کی پیشانی پر چمکتا رہے گا ۔‘‘
(اتمام البرہان ص 458، مزید جرح کے لئے دیکھئے تفریح الخواطر ص 77، ازالته الریب ص 316)
لیکن ترک رفع یدین کے مسئلہ میں سید نا ابن عباس رضی الله عنه کی طرف منسوب تفسیر ابن عباس رضی الله عنه کی ایک روایت سے جس کی سند میں یہ دونوں یعنی کلبی اور محمد بن مروان سدی موجود ہیں، امین اوکاڑوی دیوبندی نے استدلال کیا۔
دیکھئے تجلیات صفدر (350/2)
عبد الغنی طارق لدھیانوی دیوبندی نے بھی استدلال کیا۔
دیکھئے شادی کی پہلی دس راتیں (ص 8)
آل دیوبند کے ’’شیخ الحدیث‘‘ فیض احمد ملتانی نے بھی استدلال کیا۔
دیکھئے نماز مدلل (ص 128)
آل دیوبند کے ’’مفتی‘‘ احمد ممتاز نے بھی استدلال کیا۔
(دیکھئے آٹھ مسائل ص 18)
امجد سعید دیوبندی نے بھی استدلال کیا۔
(دیکھئے سیف حنفی ص 57)
الیاس گھمن دیوبندی نے بھی استدلال کیا۔
(گھمن کی نماز اہل السنۃ والجماعۃ ص 67)
یہ من گھڑت تفسیر سید نا ابن عباس رضی الله عنه کی طرف منسوب کی گئی ہے، اس کا اعتراف احمد رضا بریلوی اور تقی عثمانی دیوبندی نے بھی کیا ہے۔
دیکھئے فتاویٰ رضویہ (29/396) فتاوی عثمانی (215/1) اور ماہنامہ الحدیث حضرو ( شماره: 89 ص 10 تا 11)
تنبیه:
تنویر المقباس نامی جعلی تفسیر محمد بن مروان السد ی سے بھی باسند صحیح ہر گز ثابت نہیں بلکہ اس سے نیچے والی سند میں مجروح و مجہول راوی ہیں ۔
محمد بن حمید الرازی:
مسئلہ تراویح کے متعلق سیدنا جابر رضی الله عنه کی طرف منسوب ایک روایت کا راوی ہے۔
◈انوار خورشید دیوبندی نے مسئلہ تراویح میں اس کی روایت سے استدلال کیا۔
دیکھئے حدیث اور اہلحدیث (ص 635) بحواله تاریخ جرجان (ص275)
◈امین اوکاڑوی نے بھی اس مسئلہ میں استدلال کیا۔
(دیکھئے تجلیات صفدر 287/3 سطرے)
◈الیاس گھمن دیوبندی نے بھی اسی مسئلہ میں اس کی روایت سے استدلال کیا۔
دیکھئے قافلہ حق (جلد نمبر 4 شماره 3ص 62 سطر نمبر 10)
امین اوکاڑوی نے مسئلہ طلاق میں بھی اس کی روایت سے استدلال کیا۔
دیکھئے تجلیات صفدر (601/4 سطر 8)
نیز مسئله طلاق میں ہی اسماعیل جھنگوی نے تحفہ اہل حدیث (ص90۔89 ) میں اور سرفراز صفدر نے عمدۃ الاثاث (ص69) میں اس کی روایت سے استدلال کیا ہے۔
لیکن اسی راوی کی روایت اپنے خلاف ہونے کی صورت میں امین اوکاڑوی نے اس پر شدید جرح کی۔
دیکھئے تجلیات صفدر (224/3، 493/7)
آل دیو بند کے ’’مفتی‘‘ جمیل نذیری نے بھی شدید جرح کی ۔ دیکھئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز (ص 301)
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے الحدیث حضر و (76 ص 34-35)
سرفراز صفدر نے بھی اسے کذاب تسلیم کیا۔
(تسکین الصدور ص 358)
جباره بن مغلس:
امین اوکاڑوی نے رفع یدین کو بدعت ثابت کرنے کے لئے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی الله عنه کی طرف منسوب روایت بحوالہ ابن عدی نقل کی ہے۔
(دیکھئے تجلیات صفدر 273/2 سطر20)
انوار خورشید نے حدیث اور اہلحدیث (ص 588) میں بھی اس کی روایت اپنی تائید میں نقل کی ہے، لیکن دوسری طرف سرفراز صفدر کی جرح کے لئے دیکھئے احسن الکلام (2 /57، دوسرا نسخه 63/2)
یزید بن ابی زیاد:
آل دیو بند مسئله ترک رفع یدین میں اس کی روایت سے اس استدلال کرتے ہیں۔ دیکھئے حدیث اور اہلحدیث (397/3)
سیدنا براء بن عازب علی ان کی طرف منسوب روایت میں ، نیز دیگر بھی بہت سے دیو بندیوں نے اس کی روایت اپنی کتابوں میں بطور دلیل پیش کی ہے۔ مثلا تقی عثمانی نے درس ترمذی (31/2) فیض احمد ملتانی نے نماز مدلل (ص130۔131 حوالہ 297) جمیل احمد نذیری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز (ص 183) اور عبد الحمید سواتی نے نماز مسنون (ص 347) میں اس کی روایت سے استدلال کیا ہے لیکن اشرف علی تھانوی نے یزید بن ابی زیاد پر جرح کی ہے۔ (دیکھئے نشر الطیب . ص 244)
’’نماز پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے مصنف الیاس فیصل دیو بندی نے لکھا ہے:
’’زیلعی فرماتے ہیں اس کی سند میں یزید بن ابی زیاد ہے اور وہ ضعیف ہے۔‘‘ (ص 85)
کیونکہ روایت جرابوں پر مسح سے متعلق تھی جو د یو بندی مسلک کے خلاف تھی۔
امین اوکاڑوی نے بھی یزید بن ابی زیاد کی روایت کو رد کرنے کے لئے لکھا ہے: ’’طبرانی کی سند میں یزید بن ابی زیاد ہے اس نے وھما یہاں جور بین کا لفظ ذکر کیا ہے‘‘
(تجلیات صفدر 186/2)
الیاس گھمن کے چہیتے عبد اللہ معتصم نے یزید بن ابی زیاد کی روایت کو رد کرتے ہوئےلکھا ہے: ’’یہ حدیث بھی بطور حجت پیش نہیں کی جاسکی اس لئے کہ امام زیلعی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں یزید بن ابی زیاد ہے اور وہ ضعیف ہے۔‘‘
(نصب الرايہ للز یلعی ج اص 186-185)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں یزید ضعیف تھا۔ آخری عمر میں اس کی حالت بدل گئی تھی اور وہ شیعہ تھا (تقریب ج ۲ ص ۳۶۵)
(قافله… جلد 6 شماره1ص25)
عینی حنفی نے لکھا ہے: ’’قلت : يزيد بن أبي زياد ضعیف‘‘ میں نے کہا: یزید بن ابی زیاد ضعیف ہے۔
(نخب الافکار فی تنقیح مبانی الاخبار فی شرح معانی الآثار 4/ 377)
علی بن محمد حقانی سندھی دیوبندی نے جرابوں پر مسح کے سلسلے میں یزید بن ابی زیاد کو ضعیف کہا۔
(نبوی نماز مدلل سندھی ص 169، یہ کتاب سندھی زبان میں ہے)
اور اسی کتاب میں ترک رفع یدین کی بحث میں اسی یزید بن ابی زیاد کو ثقہ اور سچا قرار دیا۔ (ص 355)
دوغلی پالیسی اور دورخی کی یہ انتہا ہے۔
عمر بن ہارون:
انوار خورشید دیوبندی نے مسئلہ تراویح میں اس کی روایت سے استدلال کیا۔
(حدیث اور اہلحدیث ص635 بحواله تاریخ جرجان ص 275)
اوکاڑوی نے بھی اس مسئلہ میں اس کی روایت سے استدلال کیا۔
(تجلیات صفدر 3/ 287 سطر7)
الیاس گھمن دیوبندی نے بھی اسی مسئلہ میں استدلال کیا۔
(قافله… جلد 4شماره 3 ص 62 سطر 10)
لیکن دوسری طرف چونکہ اس کی روایت مخالف تھی تو امین اوکاڑوی نے اس روایت کو انتہائی ضعیف قرار دیا اور یوں جرح نقل کی : ’’علامہ ذہبی اس حدیث کے راوی عمر بن ہارون کے بارے میں فرماتے ہیں اجمعوا علی ضعفہ وقال النسائی متروک (تلخیص مستدرک ج 1ص 232)‘‘
(تجلیات صفدر ۴۳۴/۴)
مزید جرح کے لئے دیکھئے (نصب الرایہ 1/ 273/4, 355, 351)
محمد بن عبد الرحمن ابن ابی لیلیٰ:
انوار خورشید دیوبندی نے مسئلہ ترک رفع یدین میں استدلال کیا۔
(حدیث اور اہلحدیث 397/7)
تقی عثمانی نے ضعیف قرار دیا۔
(درس ترمذی 32/2)
مزید جرح کے لئے دیکھئے ادلہ کاملہ (ص42) تجلیات صفدر (453/4 147/3)
انورشاہ کشمیری دیوبندی نے بھی محمد ابن ابی لیلیٰ کو جمہور کے نزدیک ضعیف قرار دیا۔
دیکھئے فیض الباری (۳/ ۱۶۸)
امین اوکاڑوی نے بھی ضعیف کہا۔(مجموعہ رسائل 2/164 نمبر 39، تجلیات صفدر 4/260) یادر ہے کہ کتابت کی غلطی سے لیلیٰ یعلیٰ بن گیا ہے۔
طحاوی نے بھی کہا : ’’مضطرب الحفظ جدًا‘‘ (مشكل الآثار 3/ 226)
ام یحیی ام یحیی کی ایک روایت سے انوار خورشید دیوبندی نے استدلال کیا۔
(حدیث اور اہلحدیث ص ۴۷۹ عورت و مرد کی نماز میں فرق)
اوکاڑوی نے بھی اس مسئلہ میں استدلال کیا۔
(تجلیات صفدر 350/3، مجموعه رسائل 322/1)
امجد سعید دیوبندی نے بھی اسی مسئلہ میں استدلال کیا۔
(سیف حنفی ص214)
لیکن دوسرے مقام پر ام بیچی کی روایت کو رد کرنے کے لئے اوکاڑوی نے ’’مجہولہ‘‘ قرار دیا۔
(تجلیات صفدر 226/2، مجموعه رسائل 346/1)
سرفراز صفدر نے بھی ’’مجہولہ‘‘ کہا۔
(خزائن السنن ص 338)
عبدالرحمن بن زید بن اسلم:
انوار خورشید دیوبندی نے مسئلہ ترک قراءت خلف الامام میں استدلال کیا۔
(حدیث اور اہلحدیث ص 328)
لیکن سرفراز صفدر نے اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کا اتفاق نقل کیا۔
(تفریح الخواطرص 35)
مزید جرح کے لئے دیکھئے آثار السنن (ص187) اور نصب الرایہ (130/4)
عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی :
انوار خورشید دیوبندی نے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے مسئلہ میں سیدنا علی رضی الله عنه اور سیدنا ابو ہرہرہ رضی الله عنه ان کی طرف منسوب روایت سے استدلال کیا۔
(حدیث اور اہلحدیث ص 288)
اس پر آل دیو بند اور ان کے اکابر کی جرح کے لئے دیکھئے السعایہ (156/2) آثار و السنن (ص 77، دوسرا نسخه 91)، بذل المجهود (23/2)، فتح الملهم (40/2)، معارف السنن (444/2)، درس ترمذی (24/2)، توضیح السنن (556/1) اور ادلہ کاملہ (ص 55)
انورشاہ کا شمیری نے کہا:
’’ان الواسطي ضعيف متفق علی ضعفه‘‘
بےشک واسطی ضعیف ہے، اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔
(العرف الشذی ج 1ص76سطر نمبر 28)
لیث بن ابی سلیم:
نماز وتر کی رفع یدین ثابت کرنے کے لئے سیدنا ابن مسعود رضی الله عنه کی طرف منسوب روایت کا غلط ترجمہ کر کے (دیکھئے جزء رفع یدین مترجم از حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ100) آل دیو بند استدلال کرتے ہیں۔ انوار خورشید نے حدیث اور اہلحدیث (ص 581) میں استدلال کیا۔ سرفراز صفدر نے خزائن السنن (ص 416) میں استدلال کیا اور روایت کو صحیح بھی کہا۔
آل دیوبند کے ’’شیخ الحدیث‘‘ فیض احمد ملتانی نے بھی اسی مسئلہ میں استدلال کیا اور روایت کو صحیح کہا۔
(نماز دلیل ص180)
لیکن جب اس کی روایت دیو بندی مسلک کے خلاف دیکھی تو سرفراز صفدر دیوبندی نے شدید جرح کر کے ضعیف ثابت کیا۔
(احسن الکلام 128/1، دوسرا نسخه 2/ 140)
تقی عثمانی نے درس ترمذی (233/1) میں، امین اوکاڑوی نے تجلیات صفدر (5/ 59) میں اور فقیر اللہ نے خاتمہ الکلام (ص 101) میں ضعیف قرار دیا۔
نیز دیکھئے نصب الرایہ (96/3 سطر آخری)
کثیر بن عبد اللہ بن عمر والعوفی:
انوار خورشید نے ترک رفع یدین کے مسئلے میں استدلال کیا۔
(حدیث اور اہلحدیث 11/ 397)
سرفراز صفدر نے بھی استدلال کیا۔
(راہِ سنت ص 12 اسطر 11 تا 12)
لیکن آل دیو بند کے پی مشتاق نے نہایت ضعیف قرار دے کر جرح نقل کی ہے۔
(ترجمان احناف ص ۹۷)
سرفراز صفدر نے بھی جرح کی۔
(خزائن السنن ص 431)
عبدالرحمن بن زیاد بن النعم افریقی:
آل دیو بند کے پیر مشتاق علی شاہ کی کتاب میں لکھا ہوا ہے:
اعتراض تشہد کے بعد اگر جان بوجھ کر گوز مارے یا بات چیت کرے تو اس کی نماز پوری ہو جائے گی۔
جواب تمہارا یہ اعتراض ہدایہ پر نہیں۔ امام اعظم پر نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے کیونکہ اس مسئلہ کی سند حدیث میں موجود ہے۔“ فقہ حنفی پر اعتراضات کے جوابات (۲۶) اس کے بعد مشتاق علی شاہ دیوبندی نے ص۲۶۲ پر ایک روایت پیش کی ہے جس کی سند میں عبد الرحمن بن زیاد بن النعم افریقی راوی ہے۔
سرفراز صفدر نے (خزائن السنن ص 61) میں اور تقی عثمانی دیوبندی نے (درس ترمذی 260/1) پر ضعیف قرار دیا۔
ابراهیم بن عثمان واسطی:
آل دیو بند مسئلہ تراویح میں اس کی روایت سے استدلال کرتے ہیں۔
(حدیث اور اہلحدیث ص 635)
اسی مسئلہ میں الیاس گھمن دیوبندی نے بھی استدلال کیا۔
(قافلہ حق جلد4 شماره ۳ ص 63)
لیکن نماز جنازہ میں سورت پڑھنے کی ایک روایت میں بھی یہی راوی ہے، لہذا محمد تقی عثمانی دیوبندی نے کہا: ’’یہ ابراہیم بن عثمان کی وجہ سے ضعیف ہے۔‘‘
(درس ترمذی 304/3)
اس راوی پر مزید جرح کے لئے دیکھئے الحدیث حضرو (شمارہ نمبر 76ص35تا 38)
یحیی بن یعلیٰ السلمی اور ابوفر وہ یزید بن سنان :
نماز جنازہ کی تکبیرات میں ترک رفع یدین کے مسئلہ میں سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه کی طرف منسوب ایک روایت سے انوار خورشید دیوبندی نے استدلال کیا ہے اور اس سند میں یہ دونوں راوی موجود ہیں ۔
(حدیث اور اہلحدیث 857)
لیکن تقی عثمانی دیوبندی صاحب نے ان دونوں راویوں کو ضعیف تسلیم کیا۔
دیکھئے درس ترمذی (341/3)
فضل بن السکن:
انوار خورشید نے نماز جنازہ کی تکبیرات میں ترک رفع یدین کے مسئلہ میں سیدنا ابن عباس رضی الله عنه کی طرف منسوب ، اس راوی کی روایت سے استدلال کیا۔
(حدیث اور اہلحدیث ص 857)
تقی عثمانی دیوبندی نے اس راوی کو مجہول قرار دیا۔
(درس ترمذی 332/3)
حجاج بن ارطاة:
دہری اقامت کے مسئلہ میں انوار خورشید دیوبندی نے اس کی روایت سے استدلال کیا۔
(حدیث اور اہلحدیث ص 265روایت نمبر 16)
اور اسی راوی کے بارے میں عبد القدوس دیوبندی نے اپنے علامہ کوثری کا کلام یوں نقل کیا ہے : ’’لوگوں کے سامنے ڈھینگیں مارنے والا تھا‘‘
(ابوحنیفہ کاعالان دفاع ص363)
حبیب اللہ ڈیروی دیوبندی نے اپنی کتاب نور الصباح میں حجاج بن ارطاۃ کو ضعیف، مدلس، کثیر الخطاء اور متروک الحدیث قرار دیا۔ (ص224)
اور اسی کتاب میں اسی حجاج بن ارطاۃ کی روایت پیش کر کے اسے صحیح حدیث قرار دیا۔
(نور الصباح ص 167 168)
ابن لہیعہ:
ان کی روایت سے انوار خورشید دیوبندی نے میمون مکی کی روایت میں مسئلہ ترک رفع یدین میں استدلال کیا۔
(حدیث اور اہلحدیث 410)
منیر احمد منور نے نماز عیدین کی تکبیرات میں رفع یدین کے مسئلہ میں استدلال کیا۔
(نماز عیدین کا نفی تحقیقی جائز و ص 33)
امین اوکاڑوی نے مسئلہ تقلید میں ایک روایت کا غلط ترجمہ کر کے استدلال کیا۔
(فتوحات صفدر 265/1)
لیکن جب ان کی روایت نماز عیدین میں بارہ (۱۲) تکبیرات کے مسئلہ میں یعنی دیوبندی مذہب کے مخالف تھی تو منیر احمد منور نے اپنی مذکور کتاب میں ہی انھیں ضعیف قرار دیا۔
(نماز عیدین کا نفی تحقیقی جائزہ ص 23)
تقی عثمانی نے (درس ترمذی 314/2) میں محمود عالم اوکاڑوی نے (فتوحات صفدر 265/1 حاشیہ) میں اور امین اوکاڑوی نے جز ء رفع یدین (مترجم ص 352) میں ضعیف قرار دیا۔
قارئین کی دلچسپی کے لئے امین اوکاڑوی کے متضاد اقوال نقل کئے دیتا ہوں:
امین اوکاڑوی نے ایک جگہ لکھا ہے : ’’یہ سند بالکل ضعیف ہے کیونکہ عبد اللہ بن لہیعہ راوی ضعیف ہے‘‘
(جز و رفع یدین مترجم اوکاڑوی ص305)
امین اوکاڑوی نے دوسری جگہ لکھا ہے :
’’اور ابن لہیعہ حسن الحدیث ہیں‘‘
(تجلیات صفدر 140/4)
محمد بن اسحاق بن سیار:
جمہور کے نزدیک ثقہ راوی ہیں۔
دیکھئے الحدیث حضرو (نمبر اے ص 18)
محمد بن اسحاق کی روایات سے استدلال یا تعدیل کے لئے دیکھئے درس ترمذی (3/432، 274/1) حدیث اور اہلحدیث (861) معارف الحدیث (153/3) تقلید کی شرعی حیثیت (ص 145) فضائل اعمال (ص 503) تجلیات صفدر (329/5) سیف حنفی از امجد سعید (ص 314) نماز مد لل (ص 78) نماز پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم (ص 105)
محمد بن اسحاق کی روایات کے ردیا جرح کے لئے دیکھئے فتوحات صفدر (۲۲۳/۳) احسن الکلام (۷۷/۲) اور سیف حنفی (ص ۱۵۷، از امجد سعید)
ابو اسحاق السبیعی:
انوار خورشید دیوبندی نے مسئلہ ترک قراءۃ خلف الامام میں استدلال کیا۔
(حدیث اور اہل حدیث ص 322)
یہ روایت سیدنا ابن عباس رضی الله عنه کی طرف منسوب ہے۔ سرفراز صفدر نے بھی اسی مسئلہ میں استدلال کیا۔
(احسن الکلام 244/1، دوسرا نسخه 303/1 ، دسویں حدیث)
لیکن ان کی ایک روایت کسی بریلوی نے ’’یا محمد‘‘ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جواز پر پیش کی تو نور محمد تونسوی دیوبندی نے تدلیس کی جرح کر کے اس روایت کو رد کر دیا۔
دیکھئے حقیقی نظریات صحابہ رضی الله عنه (ص 35-39)
امین اوکاڑوی نے بھی جرح کی ہے۔
دیکھئے تجلیات صفدر (143/3)
نیز محمود عالم (ننھے اوکاڑوی) نے بھی جرح کی ہے۔
دیکھئے فتوحات صفدر (1/ 358، دوسرا نسخه ج ا ص321 حاشیه)
سفیان ثوری رحمہ اللہ کی معنعن روایت سے استدلال:
آل دیو بند نے مسئلہ ترک رفع یدین میں سفیان کی مدنس (معنعن) روایت سے استدلال کیا۔
(حدیث اور اہل حدیث ص394)
دوسری طرف اس کی روایت مخالف ہونے کی صورت میں مدلس ہونے کا ذکر کیا۔
دیکھئے درس ترمذی(521/1) خزائن السنن (327) مجموعه رسائل (331/3) تجلیات صفدر (470/5) تجلیات صفدر (114/4، طبع فیصل آباد) اور الجوہر النقی (362/8، 262/4)
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے نورالعینین ص 228
مکحول الشامی رحمہ اللہ:
کئی آل دیو بند نے امام مکحول کی روایت سے استدلال کیا یا ان کی تعریف کی ۔ (دیکھیے درس ترمذی 314/2، تجلیات صفدر 115/6، 102/5، 565/3، حنفی تحقیقی جائزہ ص 12، حدیث اور اہل حدیث ص 844) لیکن دوسری طرف الیاس گھمن کے چہیتے آصف لاہوری کے معاون مناظر نے مکحول رحمہ اللہ کی روایت بھی رد کر دی اور گندی گالی بھی دی۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے الحدیث حضر و79 ص 49) معاون مناظر کا نام ’’ثناء اللہ‘‘ دیوبندی ہے۔ (صح)
اسامه بن زیدلیثی:
اسامہ بن زید لیثی جمہور کے نزدیک ثقہ راوی ہیں اور اسامہ بن زید العدوی ضعیف ہے۔ امین اوکاڑوی نے اپنے ایک مخالف کے خلاف لکھا ہے: ’’ایک حدیث کا انکار کرنے کے لئے اسامہ بن زید اللیثی کو اسامہ بن زید العدوی قرار دے دیا۔ احادیث نبویہ کے انکار کا یہ طریقہ ابھی تک منکرین حدیث کو بھی نہیں سوجھا کہ جہاں عن عبد اللہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ آ جائے وہاں عبد اللہ بن مسعودؓ کی بجائے رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی قرار دے کر حدیث کو ماننے سے انکار کر دیں۔‘‘
(تجلیات صفدر 391/3)
اوکاڑوی نے دوسری جگہ لکھا ہے: ’’ایک حدیث کا انکار کرنے کے شوق میں اسامہ بن زید اللیثی کو اسامہ بن زید العدوی بنایا، یہ محض سینہ زوری ہے۔ کاش ! احناف کی ضد میں مد رسول دشمنی سے احتراز کرتے ۔‘‘
(تجلیات صفدر 502/3)
سرفراز صفدر نے بھی اسامہ بن زید لیثی کی روایت کو صحیح کہا۔
(حکم الذکر بالجہر ص 44)
سرفراز صفدر نے اسامہ بن زیدلیثی کے بارے میں کہا:
’’اس کی حدیث حسن درجہ سے کم نہیں ہوتی‘‘
(اخفاء الذکر ص 26)
لیکن اسی راوی کی روایت جب دیوبندی مسلک کے خلاف تھی تو سرفراز صفدر نے رد کرنے کے لئے اس پر جرح نقل کی ہے۔
(دیکھیے احسن الکلام 2/149–150، دوسرا نسخہ 163/2، مسئلہ قربانی ص 36)
اب آل دیو بند کو چاہئے جرح کرنے والے دیوبندیوں پر بھی اوکاڑوی کے فتوے چسپاں کریں۔
ابو جعفر الرازی:
مسئلہ تراویح میں انوار خورشید دیوبندی نے استدلال کیا۔
(حدیث اور اہل حدیث ص 637–638 روایت نمبر 9)
الیاس گھمن نے مسئلہ تراویح میں استدلال کیا۔
(قافله.. جلد نمبر4 شمارہ نمبر س ص 63)
لیکن زکریا دیوبندی تبلیغی جماعت والے نے ضعیف کہا۔
(اوجز المسالک 123/2)
سرفراز صفدر دیوبندی نے بھی ضعیف کہا۔
(احسن الکلام 142/2، دوسرا نسخہ 155/2)
مزید جرح کے لئے دیکھئے آل دیو بند اور ان کے اکابر کے اقوال۔
(الحدیث حضر و 76 ص4039)
امام ابن جریج رحمہ اللہ:
ان کے بارے میں بھی آل دیو بند کی پالیسی دوغلی ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے الحدیث حضرو (نمبر 85 ص ۳۶ تا 38)
نیز سرفراز صفدر صاحب نے بھی ابن جریج رحمہ اللہ کی بیان کردہ حدیث کو صحیح کہا۔
(سماع موتی ص294، حدیث سنن الترمذی: 1055)
حبیب اللہ ڈیروی دیوبندی نے نور الصباح کے مقدمے میں ابن جریج پر سخت جرح کی۔
(طبع دوم ص 18)
اور دوسری جگہ اسی ابن جریج کی روایت کو بطور حجت پیش کیا۔ (ص22)
بلکہ لکھا: ’’ثقہ ہے مگر سخت قسم کا مدلس ہے.‘‘
(نور الصباح ص 222)
یہ دوغلی پالیسی کی انتہا ہے۔
امام حاکم رحمہ اللہ:
سرفراز صفدر نے انہیں ثقہ ثابت کیا۔
(احسن الکلام 104/1، دوسرا نسخہ /134)
ان کی ایک روایت مخالف ہونے کی صورت میں امین اوکاڑوی نے ان کے بارے میں لکھا ہے : ’’حاکم غالی شیعہ ہے‘‘
(تجلیات صفدر 416/1)
دوسری جگہ امام حاکم رحمہ اللہ کی کنیت کا حوالہ دے کر لکھا ہے: ’’دوسرا راوی ابو عبد الله الحافظ رافضی خبیث ہے‘‘
(تجلیات صفدر 1/ 417)
لیکن خود امین اوکاڑوی نے امام حاکم رحمہ اللہ کی روایات اپنی کتابوں میں لکھی ہیں۔
دیکھئے تجلیات صفدر (356/3–37/3، 587/2، 139/5، 357)
سرفراز خان صفدر دیوبندی نے بریلویوں کے خلاف اپنی کتاب ’’راہ سنت‘‘ میں امام حاکم رحمہ اللہ کی روایات سے استدلال کیا ان کے حوالے پیش خدمت ہیں:
راه سنت (ص 24، 15، 301، 299، 159، 156، 143، 141، 115، 73، 42، 41، 40، 33، 25)
نیز دیکھئے مجذوبانہ واویلا (ص183)
قاضی شریک الکوفی:
امین اوکاڑوی نے ترک رفع یدین کے مسئلہ میں سیدنا وائل بن حجر رضی الله عنه کی طرف منسوب روایت جس کی سند میں قاضی شریک ہیں، سے استدلال کیا۔
(تجلیات صفدر 292/2)
فیض احمد ملتانی دیوبندی نے ’’سجدہ میں جاتے وقت پہلے گھٹنے پھر ہاتھ رکھے‘‘ کے مسئلہ میں استدلال کیا۔
(نماز مدلل ص142)
جمیل احمد دیوبندی نے اسی مسئلہ میں استدلال کیا۔
(رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز 224)
صوفی عبدالحمید صواتی نے اسی مسئلہ میں استدلال کیا۔
(نماز مسنون ص 360)
انوار خورشید دیوبندی نے اس کی روایت پیش کی ۔
(حدیث اور اہلحدیث451روایت نمبر 2)
مسئلہ ترک رفع یدین میں آل دیوبند کے ’’مفتی‘‘ احمد ممتاز نے استدلال کیا۔
(آٹھ مسائل ص 39 روایت نمبر 9)
لیکن دوسری طرف سرفراز صفدر نے ان کی روایت دیوبندی مسلک کے خلاف ہونے کی وجہ سے شدید جرح کی ہے۔
(احسن الکلام 2/ 128 ، دوسرانسخہ2/ 140)
امجد سعید دیوبندی نے قاضی شریک کی روایت دیوبندی مسلک کے خلاف ہونے کی وجہ سےلکھا ہے : ’’قاضی شریک صرف متکلم فیہ نہیں بلکہ مردود اور غیر مقبول بھی ہے‘‘
(سیف حنفی ص 116)
امام ابو قلابہ رحمہ اللہ:
سرفراز صفدر نے نماز کسوف کے مسئلہ میں امام ابو حنیفہ کی دلیل کے طور پر سب سے پہلے ابو قلابہ رحمہ اللہ کی روایت پیش کی۔ دیکھئے خزائن السنن (ص ۴۴۴) اور الکلام المفید (ص ۹۵) میں بھی ان کی تعریف کی ہے۔
انوار خورشید دیوبندی نے مسئلہ ترک قراءة خلف الامام میں امام ابو قلابہ رحمہ اللہ کی روایت پیش کی ہے۔
(حدیث اور اہل حدیث ص318 روایت نمبر 41)
نیز سجدہ سہو کے مسئلہ میں بھی روایت پیش کی ہے۔
(حدیث اور اہل حدیث ص702روایت نمبر 5)
بلکہ خود اوکاڑوی نے ان کی روایات پیش کی ہیں۔
(تجلیات صفدر 72/3 چوتھی حدیث، فتوحات صفدر 310، 297/1)
امام ابو قلابہ کی بات جب اوکاڑوی کی خواہش نفس کے مطابق تھی تو اوکاڑوی نے لکھا: ’’حضرت ابو قلا به‘‘
(تجلیات صفدر 371/6)
ابوبکر غازیپوری نے لکھا ہے: ’’ابو قلابہ محدث بصره .. مشہور محدث بڑے زاہد‘‘
(ارمغان 246/1)
قارئین کرام شروع میں بحوالہ نقل کر دیا گیا ہے کہ امین اوکاڑوی دیوبندی نے امام حاکم رحمہ اللہ اور امام ابو قلابہ رحمہ اللہ کی روایات پیش کرنے کی وجہ سے اہل حدیث کو شیعہ کی چوکھٹ پر سجدہ کرنے والا اور ناصبیوں کے پاؤں چاٹنے والے کہا تھا، لیکن خود یہ ان دونوں ائمہ کرام کی احادیث پیش کرتے ہیں اور بہت سے محدثین کے ساتھ ان کا یہی رویہ ہے جیسا کہ آپ باحوالہ ملاحظہ فرما چکے ہیں لیکن اس کے باوجود امین اوکاڑوی نے لکھا ہے:
’’یہی حال ان نام نہاد اہلحدیثوں کا ہے، کوئی حدیث ان کی خواہش نفس کے مطابق ہو تو بہت خوش ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی حدیث ان کی خواہش نفس کے خلاف ہو تو اس حدیث کو جھٹلانے میں یہود کو بھی مات کر دیتے ہیں ۔‘‘
(تجلیات صفدر 2 / 237)
مذکورہ حوالوں سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی ہے کہ اوکاڑوی کے تبصرے کے مصداق آل دیو بند اور خود اوکاڑوی ہے۔
اوکاڑوی کے مذکورہ تبصرے پر تبصرے کے لئے دیکھئے الحدیث حضرو (نمبر 57ص35)
راویوں کے بارے میں آل دیو بند کے یہ (۳۰) تمہیں متضاد اقوال مشتے از خروارے پیش کئے گئے ہیں ورنہ آل دیوبند کے اس طرح کے متضاد اقوال کی فہرست بہت طویل ہے، مثلاً :عمرو بن شعیب کی روایت سے استدلال آل دیو بند کے مولانا منیر احمد منور نے ’’داڑھی کا وجوب اور مسنون مقدار‘‘ کے مسئلہ میں سب سے پہلے عمرو بن شعیب رحمہ اللہ کی روایت پیش کی ہے۔
(داڑھی کا وجوب اور مسنون مقدارص 12)
سرفراز صفدر نے بھی عمرو بن شعیب رحمہ اللہ کی روایات کو صحیح تسلیم کیا اور استدلال کیا ہے۔
(دیکھئے خزائن السنن حاشیہ ص 111،ص177، سطر نمبر 1جامع المسانید کی روایت )
امین اوکاڑوی نے اپنے ہی کسی دیوبندی کو سمجھاتے ہوئے لکھا ہے:
’’ر ہے عمرو بن شعیب رحمہ اللہ تو ان سے امام صاحب رحمہ اللہ نے مسند میں حدیث لی ہے پھر آپ کو اعتراض زیب نہیں دیتا ۔‘‘
(تجلیات صفدر 460/4، تعویزات کی ایک کتاب پر تبصرہ)
لیکن بقول اوکاڑوی جب ان کی روایت سرفراز صفدر کی خواہش نفس کے خلاف تھی تو انہوں نے بعض محدثین کے اقوال کی بنیاد پر ان کو ضعیف اور ان کی روایت کو مرسل قرار دیا۔
دیکھئے احسن الکلام (169/1–170، دوسرا نسخہ 211/1–212)
حبیب اللہ ڈیروی دیو بندی نے اپنی کتاب اظہار التحسین میں ابراہیم بن ابی اللیث (ایک راوی) کو کذاب اور وضاع قرار دیا۔ (ص۱۴۴)
اور اسی کتاب میں دوسری جگہ اسے بڑے ثقہ راویوں میں بھی شمار کیا۔
(اظہار التحسین ص۱۵۰، دیکھئے القول المتین فی الجہر بالتا مین ص 65)
میں اپنے مضمون کو اس بات پر ختم کرتا ہوں کہ بعض اوقات آل دیو بند ثقہ راویوں پر غیر ثابت جرح اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ اپنے بھی بزرگوں کو ( جنھیں یہ لوگ حضرت حضرت کہتے ہوئے نہیں تھکتے ) نادان دوست کا کردار ادا کرتے ہوئے دنیا کے سامنے شرمندہ اور رسوا کر دیتے ہیں ۔ مثلاً: امین اوکاڑوی دیوبندی نے رفع یدین کی بحث میں جمہور کے نزدیک ثقہ و صدوق راوی مشرح بن ھامان پر جرح کرتے ہوئے لکھا ہے: کہ وہ (مشرح) حجاج کے اس لشکر میں تھا جس نے خانہ کعبہ شریف کا محاصرہ کر کے حضرت عبد اللہ بن زبیرہ رضی الله عنه پر منحنبیق سے پتھر پھینکے بلکہ آتشیں گولوں سے خانہ کعبہ شریف کے پردوں کو بھی جلا دیا .
(تہذیب ص 155، ج 1)
اس لئے غیر مقلد صحابہ کرام کے دشمنوں اور کعبہ پاک کے دشمنوں کی روایات لیتے ہیں۔
(تجلیات صفدر ج 4 ص 131–132)
مشرح کے خلاف یہ واقعہ جعلی اور بے اصل ہے۔
(دیکھئے نور العینین ص183 مطبع جدید)
لیکن مسئلہ ختم نبوت میں مشرح بن ھاعان کی ایک منفرد روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب (رضی الله عنه) نہ ہوتے۔
(سنن ترمذی: 3686 وقال حسن غریب)
مذکور حدیث کو آل دیو بند کئے ’’محدث کبیر‘‘ بدر عالم میرٹھی نے اپنی دلیل کے طور پر نقل کیا۔
(دیکھئے ختم نبوت ص 55)
آل دیو بند کے ’’مفتی‘‘ اور ’’شہید‘‘ محمد یوسف لدھیانوی نے بھی اپنی دلیل کے طور پر نقل کیا۔
(دیکھیے عقیدہ ختمِ نبوت مندرجہ تحفہ قادیانیت ص 29 ج 1)
لہذا اوکاڑوی کے نزدیک یہ دونوں (میر تھی اور لدھیانوی) صحابہ کرام کے دشمن ثابت ہوگئے ۔!