سوال
آج کل بعض مساجد میں روئی بھرے گدے یا موٹے قالین بچھے ہوتے ہیں، کیا ان پر سجدہ کرنا اور نماز پڑھنا جائز ہے؟
(ایک سائل از سیالکوٹ)
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روئی کے گدے پر نماز پڑھنا افضل نہیں ہے، تاہم اس کی اجازت ہے۔ اس کی چند وجوہات درج ذیل ہیں:
➊ نبی اکرم ﷺ کا عمل
◈ رسول اللہ ﷺ سے روئی کی چٹائیوں، بستروں اور کھجور کے پتوں کی صفوں پر نماز پڑھنا ثابت ہے۔
◈ صحیح بخاری (باب الصلوٰۃ علی الحصیر، باب الصلوٰۃ علی الخمرۃ، باب الصلوۃ علی الفراش، ص۵۵ ج۱) میں اس کا ذکر موجود ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَدَّتَهُ مُلَيْكَةَ دَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَتْهُ لَهُ، فَأَكَلَ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ: «قُومُوا فَلِأُصَلِّ لَكُمْ» قَالَ أَنَسٌ: فَقُمْتُ إِلَى حَصِيرٍ لَنَا، قَدِ اسْوَدَّ مِنْ طُولِ مَا لُبِسَ، فَنَضَحْتُهُ بِمَاءٍ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفَفْتُ وَاليَتِيمَ وَرَاءَهُ، وَالعَجُوزُ مِنْ وَرَائِنَا، فَصَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفَ.
(صحیح مسلم: باب جواز الجماعة فی النافلة والصلوة علی حصیر وخمرة ص۲۳۴ ج۱، صحیح بخاری: ص۵۵ ج۱)
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ہماری چٹائی پر نماز پڑھائی۔
امام نوویؒ کی وضاحت
فِيهِ جَوَازُ الصَّلَاةِ عَلَى الْحَصِيرِ وَسَائِرِ مَا تُنْبِتُهُ الْأَرْضُ وَهَذَا مُجْمَعٌ عَلَيْهِ وَمَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ مِنْ خِلَافِ هَذَا مَحْمُولٌ عَلَى اسْتِحْبَابِ التَّوَاضُعِ بِمُبَاشَرَةِ نَفْسِ الْأَرْضِ۔
(نووی: ص۲۳۴ ج۱)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ زمین سے اگنے والی ہر چیز پر نماز جائز ہے۔
نتیجہ
گدا چونکہ روئی اور کپڑے کا مجموعہ ہے اور دونوں زمین کی پیداوار ہیں، اس لیے ان پر نماز جائز ہے۔
➋ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کی روایت
عَن عبداللہ بن شداد عَن میمونة قالت کان النبیﷺ یصلی علی الخمرة۔
(صحیح بخاری: ص۵۵ ج۱)
حافظ ابن حجر وضاحت کرتے ہیں کہ خمرہ کھجور کے پتوں کی چھوٹی چٹائی ہوتی تھی جو زمین کی گرمی یا سردی سے بچانے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ (تحفة الاحوذی: ص۲۷۲ ج۱، فتح الباری: ص۳۲۴ ج۱)
یہی علت آج مساجد میں گدے یا قالین بچھانے میں پائی جاتی ہے، یعنی سردی و گرمی سے بچاؤ۔
➌ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل
اگرچہ بعض حضرات (مثلاً عبداللہ بن مسعودؓ، ابراہیم نخعیؒ، امام اسودؒ) طنافس (روئی دار چٹائیوں) پر نماز کو مکروہ سمجھتے تھے، مگر دیگر صحابہ کرام سے کپڑوں، پگڑیوں اور ٹوپیوں پر سجدہ کرنا ثابت ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَضَعُ أَحَدُنَا طَرَفَ الثَّوْبِ مِنْ شِدَّة الحَرِّ فِي مَكَانِ السُّجُودِ»
(صحیح بخاری: ص۵۶ ج۱)
حافظ ابن حجر کے مطابق یہ جائز ہے، مگر اصل افضل یہی ہے کہ سجدہ براہِ راست زمین پر ہو۔ (فتح الباری: ص۴۱۴ ج۱، طبع جدید ص۶۵۰ ج۱)
حضرت ابو درداءؓ کا قول
وَعَنْ أَبِی الدَّرْدَاء قَالَ أُبَالِی لَوْ صَلَّیْتُ عَلَی خَمْسِ طَنَافِسَ۔
(نیل الاوطار: ص۱۴۴ ج۲)
اسی طرح حضرت ابن عباسؓ سے بھی طنافس پر نماز پڑھنا ثابت ہے۔
امام شوکانیؒ فرماتے ہیں: وَإِلَى جَوَازِ الصَّلَاةِ عَلَى الطَّنَافِسِ ذَهَبَ جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ وَالْفُقَهَاءُ۔ (نیل الاوطار: ص۱۴۴ ج۱)
➍ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا جواب
جامع ترمذی میں ہے:
فقال یَا أَفلحُ ترب وَجْھَکَ۔
(تحفة الاحوذی: ص۲۹۷ ج۱)
◈ اس روایت کے راوی ضعیف ہیں، جیسا کہ محدثین نے وضاحت کی۔
◈ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس کا مقصد یہ تھا کہ پیشانی کو زمین پر اچھی طرح ٹکایا جائے، نہ یہ کہ کسی چیز کو ہٹا کر صرف مٹی پر ہی سجدہ کیا جائے۔ (نیل الاوطار: ص۱۴۴ ج۲)
➎ خلاصہ
◈ تواضع و عاجزی کے لحاظ سے براہِ راست زمین پر سجدہ کرنا افضل ہے۔
◈ تاہم سردی سے بچنے کے لیے یا سہولت کی خاطر روئی کے ہلکے پھلکے گدے یا موٹے قالین پر نماز پڑھنا اور ان پر سجدہ کرنا جائز ہے۔