رمضان کے قضا روزوں اور تسلسل کا حکم
سوال:
ایک خاتون کے ذمہ رمضان کے کچھ روزے تھے۔ اگلے مہینے اس نے ان روزوں کی قضا کرنا شروع کی۔ ایک دن وہ روزہ رکھ کر رشتہ داروں کے گھر گئی، جہاں انھوں نے لاعلمی میں اس سے روزہ تڑوا دیا۔ اس طرح اس کا ایک فرض قضا روزہ ٹوٹ گیا۔ اب اس صورت میں اس عورت کے لیے کیا شرعی حکم ہے؟ کیا قضا روزے مسلسل رکھنے ضروری ہیں؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قضا روزوں کے لیے تسلسل کا شرعی حکم:
◈ راجح (مضبوط ترین) تحقیق یہی ہے کہ رمضان کے قضا روزوں کے لیے نہ تو تسلسل (یعنی لگاتار رکھنا) اور نہ ہی ترتیب شرط ہے، بشرطیکہ کسی شرعی عذر کی بنیاد پر یہ روزے بعد میں رکھے جا رہے ہوں۔
◈ اس حوالے سے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا قول مروی ہے:
"ان شئت فاقض رمضان متتابعا و ان شئت متفرقا”
(مصنف ابن ابی شیبہ، مرقمہ نسخہ ج1 ص 293 ح 9115، دوسرا نسخہ ج3 ص 32 و سندہ صحیح، السنن الکبریٰ للبیہقی ج4 ص 258)
ترجمہ:
"اگر تم چاہو تو رمضان کے روزے مسلسل رکھو، اور اگر چاہو تو بغیر تسلسل کے (یعنی الگ الگ دنوں میں) رکھو۔”
اس روایت کی سند صحیح ہے۔
◈ اسی طرح سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"احص العدة وصم کیف دشئت”
(مصنف ابن ابی شیبہ ح 9133، سنن دارقطنی ج2 ص 192 ح 2295، السنن الکبریٰ للبیہقی ج4 ص 258)
ترجمہ:
"تعداد پوری کرلو اور جیسے چاہو روزے رکھو۔”
اس کی سند حسن ہے۔
◈ اس مفہوم کے اقوال سیدنا معاذ بن جبل، عبداللہ بن عباس، ابو ہریرہ اور دیگر جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے بھی مروی ہیں۔
◈ قرآن مجید کا عمومی انداز بھی اسی موقف کی تائید کرتا ہے۔
تسلسل بہتر مگر لازم نہیں:
◈ اگرچہ قضا روزے مسلسل رکھنا بہتر ہے، تاہم یہ ضروری نہیں ہے۔
اس خاتون کے لیے حکم:
◈ چونکہ اس عورت کا ایک قضا کا فرض روزہ لاعلمی میں ٹوٹ گیا،
لہٰذا وہ کسی اور دن اس ایک قضا روزے کو دوبارہ رکھے گی۔
◈ اس پر کفارہ لازم نہیں ہے، کیونکہ یہ روزہ اس نے لاعلمی کی بنیاد پر توڑا تھا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب