بغیر عذر رمضان کا روزہ چھوڑنے کا گناہ
روزے کی فرضیت: کتاب و سنت اور اجماع امت سے ثبوت
رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنا اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے، جس کی فرضیت قرآن، سنت اور امت کے اجماع سے ثابت ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ (البقرۃ 183)
’’اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔‘‘
فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ (البقرۃ 185)
’’جو تم میں سے (رمضان کے) مہینہ کو پائے وہ اس کے روزے رکھے۔‘‘
حدیث سے وضاحت:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ان سے سوال کیا کہ آپ ہر سال حج اور عمرہ کرتے ہیں، لیکن اللہ کے راستے میں جہاد کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے جواب دیا:
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: لا الہٰ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور خانہ کعبہ کا حج کرنا‘‘
(بخاری، التفسیر، باب وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ4514، مسلم، الایمان، بیان ارکان الاسلام و دعائمہ الفطام 16)
رمضان چھوڑنے والوں کے لیے وعید:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اس کی ناک خاک آلود ہو جس کے پاس میرا ذکر ہوا اور اس نے مجھ پر درود نہ پڑھا۔
اور اس کی ناک خاک آلود ہو جس نے رمضان پایا اور اپنی بخشش نہ کروائی۔
اور اس کی ناک خاک آلود ہو جس نے اپنے والدین کا بڑھاپا پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا۔‘‘
(ترمذی، الدعوات، باب: قول رسول اللہ رغم انف رجل۔3545)
استطاعت کے باوجود حج نہ کرنا
قرآن سے حج کی فرضیت:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ (آل عمران 97)
’’اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راہ پا سکتے ہیں اس گھر کا حج فرض کر دیا ہے۔ اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالیٰ (اس سے بلکہ) تمام دنیا سے بے پرواہ ہے۔‘‘
حج کے فضائل:
◈ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’پے در پے حج اور عمرے کا اہتمام کیا کرو کیونکہ یہ دونوں کام گناہوں اور غربت کو اس طرح ختم کر دیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کی میل کچیل کو ختم کر دیتی ہے۔
اور مقبول حج کا ثواب جنت کے علاوہ کچھ نہیں‘‘
(ترمذی، الحج باب ما جاء فی ثواب الحج والعمرہ 810)
◈ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت:
’’جس نے حج کیا اور حج کے دوران جنسی باتوں سے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے اجتناب کیا، وہ اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہو گیا جس دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا‘‘
(بخاری 1819، مسلم، الحج، باب فی فضل الحج والعمرہ 1350)
کسی مومن کو ناحق قتل کرنا
نبی کریم ﷺ کا خطبہ:
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:
"تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزت تم پر آپس میں اس طرح حرام ہے جس طرح تمہارے لیے اس دن (۹ ذوالحجہ) کی اور اس شہر (مکہ) کی اور اس مبارک مہینے (ذوالحجہ) کی حرمت ہے”
(بخاری، الحج، باب الخطبہ ایام منیٰ۔1739)
احادیث کی روشنی میں قتل کا انجام:
◈ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما:
’’جو شخص ہم پر ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘
(بخاری 6874، مسلم، الایمان، باب قول النبی من حمل علینا السلاح فلیس منا 98)
قرآن کی وعید:
وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (النساء 93)
’’اور جو کوئی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر ڈالے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا (المائدہ 32)
’’جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا۔‘‘
◈ ابو بکرہ رضی اللہ عنہ:
’’جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں سونت کر ایک دوسرے کو (مارنے کی نیت سے) ملتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں‘‘
(بخاری 7083، مسلم 2888)
◈ عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما:
’’میرے بعد کافر مت ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو‘‘
(بخاری: 1742، مسلم 65)
◈ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ:
’’ایک مسلمان کے قتل کے مقابلے میں پوری دنیا کا تباہ و برباد ہو جانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ معمولی بات ہے‘‘
(ترمذی 1395)
◈ ابو سعید خدری و ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما:
’’اگر زمین و آسمان کے رہنے والے کسی ایک مومن کے قتل میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ لازماََ ان سب کو جہنم میں اوندھے منہ پھینک دے گا۔‘‘
(ترمذی 1398)
توبہ کی شرط:
◈ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ:
’’جس نے کسی مومن کو قتل کیا اور اپنے اس فعل پر خوش ہوا، اللہ تعالیٰ اس کے نہ فرض قبول کرے گا اور نہ کوئی نفل‘‘
(ابو داود 4270)
◈ ابو دردا رضی اللہ عنہ:
’’ہر گناہ کی توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا، سوا ئے اس آدمی کے جو حالت شرک میں مر جائے یا جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دے‘‘
(ابو داود 4270)
◈ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ:
’’قیامت کے دن لوگوں میں سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا‘‘
(بخاری 6533، مسلم 1678)
قتل کی سزا صرف حکومت کا اختیار:
قصاص، حدود اور تعزیرات کے تحت قتل کا فیصلہ صرف مسلمان حاکم یا اس کا نائب کر سکتا ہے، کوئی انفرادی شخص نہیں۔
غیر مسلم معاہد کا قتل
◈ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ:
’’جس نے کسی غیر مسلم کو جو سلطنت اسلامیہ میں عہد و پیمان کے ساتھ رہ رہا ہو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکتا جب کہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت کی دوری سے سونگھی جا سکتی ہے‘‘
(بخاری 6914)
◈ ابو بکرہ رضی اللہ عنہ:
’’جس نے کسی معاہد کو اس کے معاہدہ ختم ہونے سے پہلے قتل کیا اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے‘‘
(ابو داود 2760)
اولاد کا قتل
قرآن کریم میں مذمت:
وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ ۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا (بنی اسرائیل 31)
’’اپنی اولاد کو افلاس کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ درحقیقت ان کا قتل ایک بڑی خطا ہے‘‘
قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلَادَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ (الانعام 140)
’’یقینا خسارے میں پڑ گئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو حماقت اور نادانی کی بنا پر قتل کیا‘‘۔
احادیث کی روشنی میں:
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا:
’’کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا۔ عرض کیا اس کے بعد کونسا گناہ؟ فرمایا: اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ وہ تیرے ساتھ کھانا کھائے گی۔ عرض کیا پھر کونسا؟ فرمایا: یہ کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے‘‘
(بخاری 4477، مسلم 86)