روزے کی حالت میں کان، ناک یا آنکھ میں دوا ڈالنے کا حکم
سوال:
رمضان المبارک کے مہینے میں اگر کوئی روزہ دار شخص کان، ناک یا آنکھ میں دوا ڈالنے کی ضرورت محسوس کرے تو کیا وہ روزے کی حالت میں ایسا کر سکتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ دائمی مریض ہے اور دوا ڈالے بغیر چارہ نہیں تو کیا اسے روزہ چھوڑ دینا چاہیے؟ اسی طرح، انجکشن لگوانے سے متعلق بھی وضاحت درکار ہے کہ کس کو اس کی اجازت ہے اور کس کو نہیں؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
- چونکہ ناک، کان میں دوا ڈالنے یا ٹیکہ لگوانے کے ذریعے دوا انسان کے جسم میں داخل ہو جاتی ہے اور اس عمل میں مریض کی رضامندی بھی شامل ہوتی ہے، اس لیے روزے کی صحت مشکوک ہو جاتی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:
’’الافطار مما دخل ولیس مما خرج والوضوء مما خرج ولیس مما دخل۔‘‘
(الاوسط لابن المنذر ۱۸۵/۱ ث۸۱ و سندہ صحیح)
ترجمہ: "روزہ اس چیز سے ٹوٹتا ہے جو جسم کے اندر داخل ہو، نہ کہ اس چیز سے جو جسم سے خارج ہو۔ اور وضو اس چیز سے ٹوٹتا ہے جو جسم سے خارج ہو، نہ کہ اس چیز سے جو جسم میں داخل ہو۔”
یہاں داخل ہونے والی چیز سے مراد کھانا، پانی، دوا وغیرہ ہے۔
ایک اور روایت میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:
’’الصوم مما دخل ولیس مما خرج‘‘
(صحیح البخاری ج۱ ص۲۶۰ قبل ح۱۹۳۸)
ترجمہ: "روزہ ان چیزوں سے متاثر ہوتا ہے جو جسم کے اندر داخل ہوں، نہ کہ ان سے جو جسم سے خارج ہوں۔”
وضاحت:
- ان دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی رضامندی سے کھانے، پینے یا دوا جیسی کوئی چیز اپنے جسم میں داخل کرے یا کروائے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
- اس عمومی اصول سے ناک، کان میں دوا ڈالنے یا انجکشن لگوانے کے معاملات مستثنیٰ نہیں ہیں۔ لہٰذا، احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ:
- اگر کوئی شخص مریض ہو اور دوا استعمال کیے بغیر اس کی صحت متاثر ہونے کا خطرہ ہو،
- تو اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے،
- اور بعد میں قضا روزہ رکھ لے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب