رمضان میں فجر سے پہلے کھانے سے رکنے کی احتیاط بدعت ہے؟
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

سوال

ماہِ رمضان سے متعلق بعض کیلنڈروں میں ایک خانہ احتیاط کے طور پر رکھا جاتا ہے، جس میں فجر سے دس یا پندرہ منٹ پہلے کھانے پینے سے رک جانے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ کیا یہ احتیاط سنت سے ثابت ہے یا بدعت شمار ہوتی ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ طریقہ بدعت ہے، کیونکہ سنتِ نبوی ﷺ اور قرآن مجید کی روشنی میں اس کی کوئی اصل موجود نہیں۔ بلکہ سنت تو اس کے برعکس رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

قرآنِ مجید کی واضح ہدایت:

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَكُلوا وَاشرَبوا حَتّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الخَيطُ الأَبيَضُ مِنَ الخَيطِ الأَسوَدِ مِنَ الفَجرِ﴾ (سورة البقرة: ۱۸۷)
"اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی سیاہ دھاری سے الگ ظاہر ہو جائے۔”

یہ آیتِ مبارکہ صاف بتاتی ہے کہ کھانے پینے کا وقت فجر کے طلوع ہونے تک ہی ہے، نہ کہ فجر سے پہلے کسی من گھڑت ‘احتیاط’ کے تحت رک جانا ضروری ہے۔

سنتِ نبوی ﷺ کی روشنی:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ فَکُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی تسمعواأذانَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ – فَإِنَّهُ لَا يُؤَذِّنُ حَتَّی يَطْلُعَ الْفَجْرُ»
(صحيح البخاري، الصوم، باب قول النبی: لا يمنعنکم من سحورکم اذان بلال، ح: ۱۹۱۸، وصحيح مسلم، الصيام، باب بيان ان الدخول الصوم يحصل بطلوع الفجر، ح: ۱۰۹۲)

"بے شک بلال رات کو اذان دیتے ہیں، لہٰذا تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن اُمِّ مکتوم کی اذان سن لو۔”
ایک اور روایت میں ہے: "وہ فجر کے طلوع ہونے تک اذان نہیں دیتے تھے۔”

یہ حدیث واضح طور پر اس بات کی نفی کرتی ہے کہ فجر سے پہلے از راہِ احتیاط کھانے پینے کو بند کرنا کوئی دینی عمل ہو سکتا ہے۔

شریعت میں زیادتی اور تشدد کی مذمت:

یہ قسم کی "احتیاط” درحقیقت اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ فرض میں اپنی طرف سے اضافہ کرنا ہے، جو کہ ناجائز ہے اور دین میں غیر ضروری سختی اور تشدد کے مترادف ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«هَلَکَ الْمُتَنَطِّعُوْنَ، هَلَکَ الْمُتَنَطِّعُوْنَ، هَلَکَ الْمُتَنَطِّعُوْنَ»
(صحيح مسلم، العلم، باب هلک المتنطعون، ح: ۲۶۷۰)

"(دین میں) تشدد کرنے والے ہلاک ہوگئے، تشدد کرنے والے ہلاک ہوگئے، تشدد کرنے والے ہلاک ہوگئے۔”

یہ حدیث صریح طور پر اس بات کی مذمت کرتی ہے کہ دین میں ضرورت سے زائد سختی یا خود ساختہ احتیاطیں اختیار کی جائیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1