رمضان میں شیاطین کی قید: قرآن و حدیث میں تطبیق
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ، توضیح الاحکام، جلد 2، صفحہ 137

رمضان میں سرکش شیاطین کا باندھا جانا: قرآن و حدیث میں تطبیق

سوال:

رمضان المبارک کے متعلق ایک حدیث میں ذکر آتا ہے کہ اس ماہ میں شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے، لیکن قرآن مجید کی سورۃ الانفال (آیت 48) سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوۂ بدر (جو رمضان میں ہوا) کے دوران شیطان مشرکین مکہ کے ساتھ ان کا مددگار بن کر آیا، اور بعد میں فرار ہوگیا۔

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن اور حدیث میں اس مسئلے پر کیا تطبیق (مطابقت) ممکن ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

علماء نے اس مسئلے کی وضاحت درج ذیل انداز میں کی ہے:

شیاطین کی اقسام:

شیاطین کو تین بنیادی اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے:

بڑا شیطان (ابلیس):

یہی وہ شیطان ہے جس نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا۔

مردۃ الشیاطین (سرکش شیاطین):

یہ وہ شیاطین ہیں جو حد درجہ سرکش اور دیگر شیطانوں کے سردار ہوتے ہیں۔

عام شیاطین:

عام درجے کے شیطان جو انسانی وسوسوں اور گناہوں میں مبتلا کرتے ہیں۔

ابلیس کے بارے میں:

  • ابلیس کو رمضان میں باندھا نہیں جاتا، کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ سے قیامت تک کی مہلت طلب کی تھی اور یہ مہلت اسے دے دی گئی جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

قال أنظرني إلىٰ يوم يبعثون۔ قال إنك من المنظرين
اور رمضان کے مہینے میں مردۃ الشیاطین کو باندھا جاتا ہے۔
(سورۃ الأعراف: 14-18)

حدیث کی روشنی میں:

  • ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

وتغل فیه مردۃ الشیاطین
(یعنی: رمضان کے مہینے میں مردۃ الشیاطین کو باندھ دیا جاتا ہے)
(سنن نسائی 4/129، حدیث: 2108، سند: ضعیف)
(مسند احمد جلد 2، صفحہ 230، 385، 425)

  • اگرچہ اس روایت کے تمام راوی ثقہ (قابلِ اعتماد) ہیں، لیکن تابعی ابو قلابہ رحمہ اللہ کا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔

(حوالہ: الترغیب و الترہیب، جلد 2، صفحہ 98)

دیگر شواہد:

  • حدیثِ عتبۃ بن فرقد میں بھی یہ مفہوم بیان ہوا:

ویصفد فیه کل شیطان مرید
(یعنی: رمضان میں ہر سرکش شیطان کو باندھ دیا جاتا ہے)
(سنن النسائی: 2110، مسند احمد: جلد 4، صفحہ 311، 312)
اس کی سند حسن ہے۔

محدثین و مفسرین کی تحقیق:

  • ان احادیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ رمضان میں صرف مردۃ الشیاطین (یعنی سرکش شیطانوں) کو قید کیا جاتا ہے۔
  • امام ابن خزیمہ نے بھی یہی تحقیق بیان کی ہے:

(صحیح ابن خزیمہ، جلد 3، صفحہ 188، قبل حدیث 1883)

اصولِ تفسیر کی روشنی میں:

  • یہ ایک مسلم اصول ہے کہ:
    خاص، عام پر اور مقید، مطلق پر مقدم ہوتا ہے۔

عام شیاطین کے بارے میں:

  • عام شیاطین کے رمضان میں باندھے جانے کے متعلق کوئی واضح (صریح) دلیل موجود نہیں۔

نتیجہ:

  • ان تمام تفصیلات کی روشنی میں قرآن اور حدیث میں کوئی تعارض (تصادم) نہیں ہے۔
  • قرآن مجید کی آیت
    (سورۃ الانفال: 48)
    میں جس شیطان کا ذکر ہے، وہ ابلیس تھا جسے قیامت تک مہلت ملی ہوئی ہے، اور اسے رمضان میں قید نہیں کیا جاتا۔
  • لہٰذا رمضان میں قید ہونے والے شیاطین صرف مردۃ الشیاطین (سرکش شیاطین) ہوتے ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1