سوال : جناب حافظ زبیر علی زئی صاحب بندہ آپ کے”الحدیث“کا مطالعہ کرتا ہے الحمد للہ آپ خوب محنت شاقہ سے اس کا اصدار کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ اس کو قائم و دائم رکھے ۔ آمین
پچھلے دنوں ہمارے ایک محسن ڈاکٹر طاہر حسین صاحب جو ہمارے قریب ہی ٹیکسٹائل یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں ، انہوں نے بتایا کہ طاہر القادری کی کتاب انٹرنیٹ پر انہوں نے دی ہے ۔ جس کانام منہاج السوی انہوں نے رکھا ہے اور اس کے اندر رفع یدین کی احادیث کو صحیحین اور دوسری کتب میں توڑمروڑ کر ذکر کیا ہے تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ ان کا جواب مطلو ب ہے تو الحمد للہ کوشش کرنے کے بعد آپ کی کتاب نور العینین مل گئی جس میں مطلو بہ جواب بھی حاصل ہو گئے مگر ایک دلیل جو انہوں نے ۱۱۴ نمبر پر ذکر کی ہے جس کا متن یہ ہے :
عن ابن عباس رضي الله عنهما أنه قول : إن العشرة الذين بشر لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بالجنة ماكانوا يرفعون أيديهم إلا لإفتتاح الصلاة ، قال السَّمر قندي : وخلاف هٰؤلاء الصحابة قبيح
اس کی تخریج انہوں نے کی ہے ۔
اخرجه السمر قندي فى تحفة الفقهاء [۱/۱۳۲ ، ۱۳۳] ، والكاساني فى بدائع الصنائع [۱/۲۰۷] ، والعيني فى عمدة القاري شرح صحيح البخاري [۵/۲۷۲]
تو نور العینین میں تلاش کرنے سے اس کا جواب نہیں مل سکا لہٰذا معذرت سے آپ کو تکلیف دی جاتی ہے کہ اس اثر کی پوری تحقیق کر کے بندہ کو ارسال کر دیں ۔ جوابی لفافہ ساتھ ہے اور اگر پہلے یہ آپ کی نظر سے نہیں گزری تو الحدیث میں بھی اس کو تحریر کریں تاکہ باقی قارئین الحدیث بھی اس سے فائدہ اٹھائیں ۔ جزاکم اللہ خیرًا فی الدنیا و الآخرۃ ۔ (سید عبدالحلیم چک نمبر ۲۰۳ ر ۔ ب مانانوالہ فیصل آباد)
الجواب :
الحمد لله رب العالمين و الصلوة والسلام عليٰ رسوله الأمين ، أما بعد :
مشہور ثقہ امام عبداللہ بن المبارک المروزی رحمہ الله نے فرمایا :
الإسناد من الدين ولولا الإسناد لقال من شاء ما شاء
” اسناد دین میں سے ہیں (اور) اگر سند نہ ہوتی تو جس کے دل میں جو آتاکہتا ۔“
[ صحيح مسلم ، ترقيم دارالسلام : ۳۲ ، ماهنامه منهاج القرآن لاهور ج ۲۰ شماره : ۱۱ ، نومبر ۲۰۰۶ء ص ۲۲]
اس سنہری قول سے معلوم ہوا کہ بے سند بات مردود ہوتی ہے ۔ ادارہ منہاج القرآن کے بانی محمد طاہر القاری صاحب اس کی تشریح میں فرماتے ہیں :
”پس روایت حدیث ، علم حدیث ، علم تفسیر اور مکمل دین کا مدار اسناد پر ہے ۔ سند کے بغیر کوئی چیز قبول نہ کی جاتی تھی“
[ماهنامه منهاج القرآن ج ۲۰ شماره : ۱۱ ص ۲۳]
اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ علاء الدین محمد بن احمد بن ابی احمد السمرقندی نے تحفۃ الفقہاء نامی کتاب میں لکھا ہے :
والصحيح مذهبنا لما روي عن ابن عباس أنه قول : إن العشرة الذين بشر لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بالجنة ما كانوا يرفعون أيديهم إلا لإفتتاح الصلوٰة .
قال السمر قندي : وخلاف هٰؤلاء الصحابة قبيح
اور صحیح ہمارا (حنفی) مذہب ہے ، اس وجہ سے کہ جو ابن عباس(رضی اللہ عنہ)سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : بے شک عشرہ مبشرہ جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی خو شخبری دی ، وہ شروع نماز کے سوا رفع یدین نہیں کرتے تھے ، سمر قندی نے کہا: اور ان صحابہ کی مخالفت بُری (حرکت) ہے ۔
[ج۱ص ۱۳۲ ، ۱۳۳ ، دوسرانسخه ص ۶۶ ، ۶۷]
سمرقندی کے بعد تقریباًً یہی عبارت علاء الدین ابوبکر بن مسعود الکاسانی (متوفی ۵۸۷ھ) نے بحوالہ بدائع الصنائع اپنی کتاب عمدۃ القاری (ج۵ ص ۲۷۲) میں نقل کر رکھی ہے ۔ ملا کاسانی نے بدائع الصنائع کے شروع میں یہ اشارہ کر دیا ہے کہ انہوں نے اپنے استاد محمد بن احمد بن ابی احمد السمرقندی سے لے کر اپنی کتاب مرتب کی ہے ۔ [ج۱ ص ۲]
معلوم ہوا کہ اس روایت کا دارو مدار سمرقندی مذکور پر ہے ۔ سمرقندی صاحب ۵۵۳ ہجری میں فوت ہوئے ۔ دیکھئے
[معجم المؤلفين ج۳ ص ۶۷ ت ۱۱۷۵۰]
یعنی وہ پانچویں یا چھٹی صدی ہجری میں پیدا ہوئے تھے ۔ فقیر محمد جہلمی تقلیدی نے انہیں حدیقۂ ششم (چھٹی صدی کے فقہاء و علماء کے بیان) میں ذکر کیا ہے ۔
[ حدائق الحنفيه ص ۲۶۷]
سمرقندی مذکور سے لے کر صدیوں پہلے ۶۸ھ میں فوت ہونے والے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ تک کوئی سند اور حوالہ موجود نہیں ہے لہٰذا یہ روایت بے سند اور بے حوالہ ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔
تنبیہ بلیغ :
ایسی بے سند و بے حوالہ روایت کو أخرجه السمرقندي فى تحفة الفقهاء… . . إلخ اس کی تخریج سمرقند نے تحفۃ الفقہاء میں کی ہے الخ کہہ کر سادہ لوح عوام کو دھوکا نہیں دینا چاہئے ۔ لوگ تو یہ سمجھیں گے کہ سمرقندی کوئی بہت بڑا محدث ہو گا جس نے یہ روایت اپنی سند کے ساتھ اپنی کتاب تحفۃ الفقہاء میں نقل کر رکھی ہے ۔ حالانکہ سمرقندی کا محدث ہونا ہی ثابت نہیں ہے بلکہ وہ ایک تقلیدی فقیہ تھا جس نے یہ روایت بغیر کسی سند اور حوالے کے رُوي کے گول مول لفظ سے لکھ رکھی ہے ۔ اب عوام میں کس کے پاس وقت ہے کہ اصل کتاب کھول کر تحقیق کرتا پھرے ۔ !
عام طور پر غیر ثابت اور ضعیف روایت کے لئے صیغۂ تمریض رُوِيَ وغیر ہ کے الفاظ بیان کئے جاتے ہیں ، دیکھئے
[مقدمة ابن الصلاح مع شرح العراقي ص۱۳۶ نوع ۲۲]
لہٰذا جس روایت کی کوئی سند سرے سے موجود ہی نہ ہو اور پھر بعض الناس اسے رُوِيَ وغیرہ الفاظ سے بیان کریں تو ایسی روایت موضوع ، بے اصل اور مردود ہی ہوتی ہے ۔ سمر قندی و کاسانی کی پیش کردہ یہ بے سند و بے حوالہ روایت متن اور اصولِ روایت و اصولِ درایت کے لحاظ سے بھی مردود ہے ۔
دلیل اول : امام ابوبکر بن ابی شیبہ رحمہ اللہ (متوفی ۲۳۵ھ) فرماتے ہیں :
حدثنا هشيم قال : أخبرنا أبوجمرة قال : رأيت ابن عباس يرفع يديه إذا افتتح الصلوٰة و إذا ركع و إذا رفع
ہمیں ہشیم نے حدیث بیان کی ، کہا: ہمیں ابوجمرہ نے خبر دی ، کہا: میں نے ابن عباس (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا آپ شروع نماز اور رکوع کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرتے تھے ۔
[مصنف ابن ابي شيبه ج ۱ ص ۲۳۵ ح ۲۴۳۱]
اس روایت کی سند حسن لذاتہ یا صحیح ہے ۔ معلوم ہوا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بذاتِ خود رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین کرتے تھے لہٰذا یہ ہو ہی نہیں سکتاکہ انہوں نے رفع یدین کے خلاف کوئی روایت بیان کر رکھی ہو ۔ من ادعي خلافه فعليه أن يأتي بالدليل .
دلیل دوم :
عشرۂ مبشرہ میں سے اول صحابی سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے ۔ دیکھئے امام بیہقی کی کتاب السنن الکبریٰ [ج۲ ص ۷۳]
وقال : رواته ثقات
اس کے راوی ثقہ (قابلِ اعتماد) ہیں ۔
تنبیہ :
اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے اور اس پر بعض الناس کی جرح مردود ہے ۔ دیکھئے میری کتاب نور العینین فی مسئلۃ رفع الیدین [ص ۱۱۹ تا ۱۲۱]
دلیل سوم :
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے بھی رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین مروی ہے ۔ دیکھئے :
[نصب الرايه ج۱ ص ۴۱۶]
[و مسند الفاروق لابن كثير ج ۱ ص ۱۶۵ ، ۱۶۶]
[و شرح سنن الترمذي لابن سيدالناس قلمي ج ۲ ص ۲۱۷ و سنده حسن]
، دیکھئے :
[نور العينين ص ۱۹۵ تا ۲۰۴]
اس روایت کی سند حسن ہے اور یہ روایت شواہد کے صحیح لغیرہ ہے ۔
دلیل چہارم :
سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر عشرۂ مبشرہ میں سے کسی ایک صحابی سے بھی رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین کا ترک ، ممانعت یا منسوخیت قطعاً ثابت نہیں ہے ۔
تنبیہ :
طاہر القادری صاحب نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ترک رفع یدین کی تین روایات لکھی ہیں ۔
[المنهاج السوي طبع چهار م ص ۲۲۸ ، ۲۲۹ ح ۲۵۸ ، ۲۶۰ ، ۲۶۱]
یہ تینوں روایات اُصولِ حدیث کی رُو سے ضعیف ہیں ۔ دیکھئے :
[نور العينين ص ۲۳۱ ، ۲۳۴ ، ۲۳۶]
ان میں سے پہلی روایت کے راوی محمد بن جابر پر خود امام دارقطنی رحمہ اللہ و امام بیہقی نے جرح کر رکھی ہے ۔ اہل سنت کے جلیل القدر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ رحمہ الله اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :
هٰذا حديث منكر یہ حدیث منکر ہے ۔
[ المسائل : رواية عبدالله بن احمد ج ۱ ص ۲۴۲ ت ۳۲۷]
ابھی تک ماہنامہ الحدیث حضرو اور نور العینین کی محولہ تنقید و جرح کا کوئی جواب ہمارے پاس نہیں آیا ۔ والحمدللہ
خلاصۃ التحقیق :
محمد طاہر القادری صاحب کے مسؤلہ روایتِ مذکورہ بے سند اور بے حوالہ ہونے کی وجہ سے بے اصل ، باطل اور مردود ہے ۔ وما علينا إلا البلاغ
(۹ فروری ۲۰۰۷ء)