رفع یدین کے ترک کی 10 نامعتبر دلائل کا تحقیقی رد
ماخوذ :فتاوی علمیہ جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ356

اخبار الفقہاء والمحدثین کی روایت رفع یدین کے خلاف: ایک تحقیقی جائزہ

سوال

بعض حضرات بالخصوص غلام مصطفیٰ نوری بریلوی صاحب، رفع یدین کے ترک پر دلیل دیتے ہوئے کتاب "اخبار الفقہاء والمحدثین” کی ایک روایت کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔ اس روایت کے مطابق، رسول اللہ ﷺ نے مدینہ ہجرت کے بعد رکوع کے وقت رفع یدین ترک کردیا تھا اور صرف نماز کی ابتدا میں رفع یدین باقی رکھا، حتی کہ آپ ﷺ کا وصال ہوگیا۔ یہ روایت محمد بن حارث القیروانی کی کتاب "اخبار الفقہاء والمحدثین” سے نقل کی گئی ہے۔

روایت کا متن

"حدثني عثمان بن محمد قال: قال لي عبيدالله بن يحيي : حدثني عثمان بن سوادة بن عباد عن حفص بن ميسرة عن زيد بن اسلم عن عبدالله بن عمر قال : كنا مع رسول الله صلي الله عليه وسلم بمكة نرفع ايدينا في بدء الصلوة وفي داخل الصلوة عند الركوع فلما هاجر النبي صلي الله عليه وسلم الي المدينة ترك رفع يدين في داخل الصلوة عند الركوع وثبت علي رفع يدين في بدء الصلوة۔۔۔ توفي”
(اخبار الفقہاء والمحدثین، ص 316)

ترجمہ

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم مکہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے تو ہم نماز کی ابتدا اور نماز کے دوران رکوع کے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ جب نبی ﷺ مدینہ ہجرت فرما گئے تو آپ ﷺ نے نماز کے اندر رکوع کا رفع یدین ترک کردیا اور صرف ابتدا کا رفع یدین باقی رکھا حتی کہ آپ ﷺ کا وصال ہوگیا۔

تفصیلی تحقیقی جائزہ

دلیل نمبر ➊: کتاب کی نسبت مشکوک ہے

کتاب "اخبار الفقہاء والمحدثین” کے آغاز (ص 5) میں اس کی کوئی سند درج نہیں۔

آخر میں لکھا ہے:

"تم الكتاب والحمدلله حق حمده وصلي الله علي محمد وآله وكان ذلك في شعبان من عام ٤٨٣ه”
(ص 293)

محمد بن حارث القیروانی کی وفات 361ھ میں ہوئی، جبکہ کتاب کی تکمیل 483ھ میں ہوئی ہے، یعنی ان کی وفات کے 122 سال بعد۔

نتیجتاً، یہ کتاب محمد بن حارث القیروانی کی نہیں ہو سکتی۔

دلیل نمبر ➋: راوی "عثمان بن محمد” کی شناخت غیر واضح

"عثمان بن محمد” کی تعیین ثابت نہیں، اور بغیر ثبوت کے اسے "عثمان بن محمد بن مدرک” قرار دینا درست نہیں۔

حافظ ذہبی لکھتے ہیں:

"عثمان بن محمد بن خشيش القيرواني عن بن غانم قاضي افريقه اظنه كان كذابا”
(المغنی فی الضعفاء، ج 2، ص ت4059)

قیروانی پس منظر کی بنا پر راوی "عثمان بن محمد” کو جھوٹا قرار دینا درست معلوم ہوتا ہے۔

دلیل نمبر ➌: راوی "عثمان بن سوادہ بن عباد” مجہول ہے

یہ راوی کسی اور مستند کتاب میں مذکور نہیں۔

"اخبار الفقہاء” میں لکھا ہے:

"كان عثمان بن سوادة ثقة مقبولا عند القضاة والحكام…”

لیکن چونکہ "عثمان بن محمد” مجہول یا مجروح ہے، اس سے ہونے والی توثیق ناقابلِ قبول ہے۔

دلیل نمبر ➍: معاصرت ثابت نہیں

"عثمان بن سوادہ” اور "حفص بن میسرہ” کے درمیان ملاقات اور زمانہ ایک نہیں، حفص کی وفات 181ھ میں ہوئی۔

دلیل نمبر ➎: کتاب کا نام مشکوک

محمد بن حارث کی دیگر کتب میں "اخبار القضاۃ المحدثین” کا ذکر ملتا ہے، "اخبار الفقہاء والمحدثین” کا نہیں۔

(الاکمال لابن ماکولا 3/261، الانساب للمسعانی 2/372)

صرف جدید مؤلفین نے اس کتاب کا ذکر کیا ہے:

عمر رضا کحالہ (معجم المؤلفین 3/204)
خیر الدین زرکلی (الاعلام 6/75)

قدیم علماء میں سے کسی نے اس کتاب کو نہیں پہچانا۔

دلیل نمبر ➏: روایت خود شاذ ہے

اسی کتاب میں مذکور ہے:

"وهو من غرائب الحديث واراه من شواذها”
(ص 214)

شاذ روایت ضعیف ہوتی ہے۔ غلام مصطفیٰ نوری نے "من شواذها” کا ذکر ہی نہیں کیا۔

متن کی بنیاد پر روایت کی تردید

دلیل نمبر ➐: صحیح احادیث سے رفع یدین مدینہ میں بھی ثابت ہے

ابو قلابہ سے روایت:

"مالک بن حویرث… فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ رفع یدین کیا کرتے تھے”
(صحیح مسلم 1/167، ح391، صحیح بخاری 1/102، ح737)

مالک بن حویرث مدینہ میں تبوک کی تیاری کے وقت آئے تھے
(فتح الباری 2/173، ح104)

دلیل نمبر ➑: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا عمل

صحیح ابن خزیمہ:

"رسول اللہ ﷺ نماز کے شروع، رکوع سے پہلے اور بعد میں رفع یدین کرتے تھے”
(صحیح ابن خزیمہ 1/344، ح694، 695، سند حسن)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں آخری چار سال نبی ﷺ کے ساتھ رہے، اور بعد از وصال بھی رفع یدین کرتے رہے
(جزء رفع الیدین للبخاری، ص22)

دلیل نمبر ➒: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل

نافع سے روایت:

"شروع نماز، رکوع سے پہلے اور بعد اور دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہونے پر رفع یدین کرتے تھے”
(صحیح بخاری 2/102، ح739)

یہ کیسے ممکن ہے کہ جس عمل کو وہ خود منسوخ سمجھتے ہوں، اسی پر عمل بھی کرتے رہیں؟

دلیل نمبر ➓: رفع یدین نہ کرنے والے پر ناراضی

نافع سے روایت:

"سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ ایسے شخص کو کنکری مارتے جو رفع یدین نہ کرتا”
(جزء رفع الیدین، ص15، سند صحیح)

علامہ نووی:

"باسناده الصحيح عن نافع”
(المجموع شرح المہذب 3/405)

نتیجہ تحقیق

"اخبار الفقہاء والمحدثین” والی روایت موضوع اور باطل ہے۔

سنداً بھی ضعیف ہے، اور متناً بھی صحیح احادیث سے ٹکراتی ہے۔

غلام مصطفیٰ نوری بریلوی کا اسے "صحیح حدیث” کہنا علمی خیانت اور مردود ہے۔

وما علینا الا البلاغ

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1