نماز میں رکوع سے پہلے اور بعد میں رفع یدین کا طریقہ صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب ہدیۃ المسلمین نماز کے اہم مسائل مع مکمل نماز نبویﷺ سے ماخوذ ہے۔

رفع الیدین قبل الرکوع و بعدہ

«عن أبى قلابة أنه رأى مالك بن الحويرث إذا صلى كبر ورفع يديه، وإذا أراد أن يركع رفع يديه وإذا رفع رأسه من الركوع رفع يديه وحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع هكذا»
ابو قلابہ تابعی رحمہ اللہ نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو دیکھا، آپ جب نماز پڑھتے اللہ اکبر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور حدیث بیان کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے۔ [صحیح البخاری: 102/1 ح 737، واللفظ لہ، صحیح مسلم: 168/1 ح 391]
فوائد
(1)اس حدیث پاک سے ثابت ہوا کہ نماز میں رکوع سے پہلے اور بعد رفع الیدین کرنا چاہیے۔
(2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع الیدین متواتر ہے۔ [دیکھیے قطف الازہار المتناثر للسیوطی ص 95، ظم المتناثر ص 96 حدیث 67 وغیرہما]
(3)ترک رفع الیدین کی کوئی روایت صحیح نہیں ہے۔ مثلاً سنن ترمذی (ج 1 ص 59 ح257 و حسنہ و صحہ ابن حزم: 116/1 ح 487-752) اور سنن ابی داود وغیرہما کی روایت سفیان الثوری کے ”عن“ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ سفیان الثوری مشہور مدلس ہیں۔ دیکھیے عمدۃ القاری للعینی 223/1، ابن الترکمانی کی الجوہر النقی 262/8، سرفراز خان صفدر کی خزائن السنن 77/2، ماسٹر امین اوکاڑوی کا مجموعہ رسائل ج 3 ص 431، نیز آئینہ تسکین الصدور ص 90-92، فقہ الفقیہ ص 134، آثار السنن ص 126، تحت حدیث 384 و فی نسختہ اخری ص 194
اور مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے جیسا کہ اصول حدیث میں مقرر رہے۔
(4)صحیح مسلم (حدیث 430) میں جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ والی روایت میں رفع الیدین عند الرکوع و بعدہ کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے بلکہ یہ روایت تشہد میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی دوسری حدیث سے ثابت ہے۔ مسند احمد میں وهم قعود اور وہ بیٹھے ہوئے تھے، کے الفاظ بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ [ج 5 ص 93 حدیث 21166]
محدثین نے اس پر سلام کے ابواب باندھے ہیں، اس پر علماء کا اجماع ہے کہ اس روایت کا تعلق رکوع والے رفع الیدین سے نہیں ہے [دیکھیے جزء رفع الیدین البخاری ح 37، التلخیص الحبیر ج 241/1]
خود دیوبندی حضرات نے بھی اس روایت کو رفع الیدین کے خلاف پیش کرنے کو ناانصافی قرار دیا ہے۔ [دیکھیے محمد تقی عثمانی کی درس ترمذی 36/4، محمود الحسن کی الورد الشنی علی جامع الترمذی ص 63 اور تقاریر شیخ الہند ص 65
(5)رفع الیدین کندھوں تک کرنا صحیح ہے اور کانوں تک بھی صحیح ہے۔ دونوں طریقوں میں سے جس پر عمل کیا جائے، جائز ہے۔ بعض لوگ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی حدیث (صحیح مسلم: 168/1 ح 391) سے کانوں تک رفع الیدین ثابت کرتے ہیں (مثلاً محمد الیاس کی چالیس حدیثیں ص 9 ح 9) اور اس حدیث کا باقی حصہ دانستہ حذف کر دیتے ہیں، جس سے رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع الیدین ثابت ہوتا ہے۔
(6)صحابہ سے رفع الیدین کا کرنا ثابت ہے، نہ کرنا ثابت نہیں ہے۔ دیکھیے امام بخاری کی جزء رفع الیدین ح 29 بعض لوگوں کا سنن بیہقی (80/2-81) سے علی رضی اللہ عنہ کا غیر ثابت شدہ اثر نقل کرنا صحیح نہیں ہے۔ سنن بیہقی کے محولہ صفحہ پر ہی اس اثر پر جرح موجود ہے۔
(7)ابو بکر بن عیاش نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ترک رفع الیدین والی جو روایت نقل کی ہے وہ کئی لحاظ سے مردود ہے۔
اول: ابو بکر بن عیاش جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ دیکھیے نور العینین ص 157
علامہ عینی حنفی نے کہا: وأبو بكر سيء الحفظ
اور ابو بکر (بن عیاش) برے حافظے والا ہے۔ [عمدۃ القاری ج 1 ص 245]
دوم: امام احمد و امام ابن معین نے اس روایت کو باطل و لا أصل له قرار دیا ہے۔ وغیرہ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1