رضاع اور شادی کی شرعی حیثیت: قرآن و حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

میری شادی گھر والوں نے ایک ایسے آدمی کے ساتھ طے کی ہے جس کو بچپن میں میری ماں نے دودھ پلانے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے میری ماں کا دودھ نہیں پیا، یا ممکن ہے ایک آدھ گھونٹ اس کے منہ میں چلا گیا ہو، ہمیں بتایا جائے کیا اس کے ساتھ یہ نکاح صحیح ہے اور دودھ کی کتنی مقدار پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے؟

جواب :

اللہ تبارک تعالیٰ نے قرآن حکیم میں حرام رشتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ﴾
(النساء : 23)
”اور تمھارے اوپر حرام کی گئیں تمھاری وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا اور تمھاری دودھ شریک بہنیں۔“
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے مطلق طور پر دھائی ماں کی حرمت کا ذکر کیا ہے، جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مکمل تفصیل بیان کی ہے کہ دودھ کی وہ مقدار کتنی ہے جس کے پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے، کئی ایک احادیث صحیحہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شیر خوارگی کی صورت میں بچے کو اتنا دودھ پلایا جائے جو اس کے بدن کی غذا بن جائے اور اس کی بھوک دور ہو جائے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میرے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا، پس آپ کا چہرہ متغیر ہو گیا، گویا کہ آپ نے اسے نا پسند کیا، میں نے کہا: ”یہ میرا رضاعی بھائی ہے۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو تمھارے بھائی ہوں انھیں اچھی طرح دیکھ بھال اور رضاعت تو صرف بھوک سے ثابت ہوتی ہے۔“
صحیح بخارى، كتاب النكاح، باب من قال لا رضاع بعد حولين (5102)، صحیح مسلم (1455/32)
ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”رضاعت میں سے حرمت صرف اس سے ثابت ہوگی جو آنتوں کو پھاڑ دے (یعنی اتنا دودھ ہے جس سے آنتیں بھر کر ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں) اور یہ دودھ پلانا دودھ چھڑائی کی مدت سے پہلے ہو۔“
سنن الترمذی (1152)، صحیح ابن حبان، بانی ما جاء (ما ذكر أن الرضاعة لا تحرم إلا في الصغر دون الحولين (4224)
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس پر اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ میں سے اکثر اہل علم کا عمل ہے۔ بلاشبہ رضاعت حرام نہیں کرتی مگر جو دو سال کے اندر ہو اور جو مکمل دو سال کے بعد ہو وہ تو کچھ بھی حرام نہیں کرتی۔“
اس کا ایک شاہد عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”حرمت رضاعت صرف اس سے ہے جو آنتوں کو پھاڑ دے۔“
ابن ماجہ، ابواب النكاح، باب لا رضاع بعد فصال (1946)
مذکورہ بالا احادیث سے واضح ہو گیا کہ دودھ پلائی کی مدت، جو مکمل دو سال ہے، اس کے اندر جب کوئی عورت کسی بچے کو اتنا دودھ پلائے جس سے اس کی آنتیں بھر جائیں اور وہ اس کے جسم کی غذا بن جائے تو وہ قابل قبول ہے۔ علامہ محمد بن اسماعیل الامیر المعانی فرماتے ہیں:
”اور بلاشبہ وہ رضاعت جس کے ساتھ حرمت ثابت ہوتی ہے اور خلوت حلال ہوتی ہے، وہ اس حالت میں ہے کہ جب دودھ پینے والا بچہ ہو اور دودھ اس کی بھوک کو ختم کر دے اس لیے کہ اس کا معدہ کمزور ہوتا ہے، اسے دودھ ہی کفایت کر جاتا ہے اور اس کے ساتھ اس کے گوشت کی نشو و نما ہوتی ہے تو وہ دودھ پلانے والی کا جز بن جاتا ہے اور اس کی اولاد کے ساتھ حرمت میں شریک ہو جاتا ہے۔“
سبل السلام، کتاب الطلاق، باب الرضاع (ص 788)
پھر فرماتے ہیں:
”ذکر کردہ حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ مرضعہ کا دودھ جو بچے کی غذا ہے، وہ حرمت کرنے والا ہے، خواہ دودھ پستانوں سے ہے، یا برتن میں ڈال کر منہ کے ذریعے سے، یا ناک کے ذریعے ہے، یا حقنہ یعنی سرنج وغیرہ کے ذریعے سے، شرط یہ ہے کہ وہ دودھ کی مقدار بچے کی بھوک ختم کر دے، یہی جمہور ائمہ کا قول ہے۔“ سبل السلام (ص 788)
یہ بھی یاد رہے کہ ایک دو بار دودھ پینے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی، عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ایک مرتبہ یا دو مرتبہ چوسنا حرام نہیں کرتا۔“
مسند احمد (31/9، ح : 24527)
ام الفضل رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے تو ایک دیہاتی آگیا، اس نے کہا:
”اے اللہ کے رسول! میری ایک عورت تھی، میں نے اس کے ساتھ ایک دوسری عورت سے شادی کر لی تو پہلی عورت نے کہا: ”میں نے اس دوسری کو ایک یا دو مرتبہ پستان منہ میں ڈال کر دودھ پلایا ہے۔“ تو آپ نے فرمایا: ”ایک مرتبہ یا دو مرتبہ پستان منہ میں دینا حرمت کا باعث نہیں بنتا۔“
مسلم، كتاب الرضاع، باب في المصة والمصتان (1451)
لہٰذا پانچ مرتبہ جب بچہ کسی عورت کی چھاتی کو منہ لگا کر دودھ پیتا ہے اور وہ دودھ بچے کے لیے غذا کا کام دیتا ہے تو حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔ مذکورہ صورت میں تو محض پینے کا شبہ ہے، پوری طرح اثبات بھی نہیں ہے، لہٰذا اس لڑکی کی شادی اس لڑکے سے بالاشبہ جائز و درست ہے۔ (واللہ اعلم)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے