سوال :
میری پھوپھی نے میری والدہ کا دودھ پیا ہے، کیا پھوپھی کی بیٹی سے میرا یا میرے بھائی کا نکاح ہو سکتا ہے؟ کتاب و سنت کی رو سے وضاحت فرمائیں۔
جواب :
اللہ تعالیٰ نے سات رشتے نسب کی صورت میں حرام کیے ہیں، ماں، بیٹی، بہن، خالہ، پھوپھی، بھانجی اور بھتیجی اور جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہیں وہی رضاعت کی وجہ سے حرام ہو جاتے ہیں، یعنی رضاعی ماں، رضاعی بیٹی، رضاعی بہن، رضاعی خالہ، رضاعی پھوپھی، رضاعی بھانجی اور رضاعی بھتیجی۔ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح ارشادات کئی ایک احادیث صحیحہ میں موجود ہیں۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے:
أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أريد علی ابنة حمرة أن يتزوجها فقال إنها ابنة أخي من الرضاعة وإنه يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب اسند أحمد 0270/1 : 249 ، بخاري كتاب النكاح، باب طور استكم التي لوضعكم الله (5100) مسلم (1447)
”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے ارادہ کیا گیا کہ آپ حمزه کی بیٹی سے شادی کر لیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے سو جو رشتے نسب سے حرام ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام ہو جاتے ہیں۔“
سیدنا علی سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا:
قلت يا رسول الله ! مالي أراك تنوق في قريش وتدعنا أن تزوج إلينا قال وعندك شيء؟ قال قلت ابنة حمزة قال إنها ابنة أخي من الرضاعة سند أحمد (129/1، 115، 132، ح : (126/1 الرضاع، باب تحريم ابنة الأخ من الرضاعة (1446)
”میں نے کہا: ”اے اللہ کے رسول! کیا بات ہے، میں آپ کو دیکھتا ہوں کہ آپ قریش کی طرف مائل ہیں اور ہمیں چھوڑ رہے ہیں کہ ہمارے ہاں شادی کریں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمھارے ہاں کوئی رشتہ ہے؟“ میں نے کہا: ”حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے عمرہ بنت عبد الرحمن کو خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف فرما تھے کہ اس نے ایک آدمی کی آواز سنی جو حفصہ رضی اللہ عنہ کے گھر داخل ہونے کی اجازت طلب کر رہا تھا۔ کہتی ہیں میں نے کہا: ”اے اللہ کے رسول! یہ آدمی ہے جو آپ کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگ رہا ہے۔“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اسے فلاں آدمی خیال کرتا ہوں جو حفصہ رضی اللہ عنہ ان کا رضاعی چچا ہے۔“ عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ”اگر فلاں شخص زندہ ہوتا جو ان کا رضاعی چچا تھا تو کیا وہ میرے ہاں آ سکتا تھا؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نعم الرضاعة تحرم ما تحرم الولادة بخاری، کتاب النکاح، باب وامهتكم التي ارضعكم (5099)، صحیح مسلم (1464)
”ہاں، رضاعت بھی وہ رشتے حرام کرتی ہے جو ولادت حرام کرتی ہے۔“
عروہ سے روایت ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے انھیں خبر دی کہ ان کے رضاعی چچا نے ان کے ہاں آنے کی اجازت مانگی تو میں نے انھیں روک دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تحتجين منه فإنه يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب مسلم، كتاب الرضاع، باب تحريم الرضاعة من الفحل (1445/9)، النسائي (3303)
”اس سے پردہ کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہی رضاعت سے بھی حرام ہوتے ہیں۔“
ان احادیث صحیحہ سے ثابت ہوا کہ رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو ولادت اور نسب حرام ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ رضاعت تب ثابت ہوتی ہے جب بچے یا بچی نے اتنا دودھ پیا ہو جو اس کی انتڑیاں بھر دے اور وہ پانچ دفعہ ہو، جیسا کہ سنن نسائی باب القدر الذي يحرم الرضاعة (3309) وغیرہ میں مذکور ہے۔ لہٰذا سائل نے جو مسئلہ دریافت کیا ہے اگر اس میں دودھ اتنی مقدار اور اتنی دفعہ پیا گیا ہے جس سے رضاعت ثابت ہو جاتی ہے تو ان کی پھوپھی ان کی رضاعی بہن ہے اور رضاعی بہن کی بیٹی رضاعی بھانجی ہے، اس سے نکاح حرام ہو گا۔