سوال
میری والدہ نے غلطی سے اپنی بھتیجی کو دودھ پلا دیا تھا، اور اب اس بھتیجی کا رشتہ میرے ساتھ طے پایا ہے۔ ہم دونوں میں دودھ پینے کی عمر کا فرق دو سال ہے۔ کیا یہ نکاح درست ہے؟ براہ کرم اس مسئلے کو قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کریں۔ نکاح کی تاریخ ۳۰ نومبر مقرر ہو چکی ہے۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر سوال درست طور پر بیان کیا گیا ہے تو مسئلے کی صورت یہ ہے کہ:
◄ جس طرح حقیقی بہن سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہے،
◄ اسی طرح رضاعی بہن (یعنی وہ لڑکی جو ماں کا دودھ پی چکی ہو) سے بھی نکاح حرام ہے۔
چونکہ آپ کی وضاحت کے مطابق آپ کی منسوبہ لڑکی (بھتیجی) نے آپ کی والدہ کا دودھ پیا ہے، لہٰذا وہ آپ کی رضاعی ہمشیرہ بن گئی ہے۔
یہ ضروری نہیں کہ رضاعت کے ثبوت کے لیے بچے نے ماں کے ساتھ ہی دودھ پیا ہو، بلکہ جس نے دودھ پیا وہ رضاعی تعلق میں شامل ہو جاتی ہے۔
قرآن سے دلیل
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ … ٢٣﴾ (النساء)
ترجمہ:
"اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے اور تمہاری دودھ کی بہنیں تم پر حرام کی گئی ہیں۔”
حدیث سے دلیل
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
وعن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : { يحرم من الرضاعة ما يحرم من الولادة }
(ج۱ص ۶۹) (۱:تفسیر ابن کثیر ج۱ ص۴۶۹ صحیح البخاری ج۲ص۷۶۴)
”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، ام المؤمنین سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بے شک رضاعت (دودھ پلانے کا رشتہ) بھی ان رشتوں کو حرام کر دیتی ہے جنہیں نسب (خون کا رشتہ) حرام قرار دیتا ہے۔“
نتیجہ
ان دونوں حوالہ جات سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ رضاعی بہن سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔
لہٰذا:
◈ چونکہ آپ کی پھوپھی زاد (بھتیجی) نے آپ کی والدہ کا دودھ پیا ہے،
◈ اس وجہ سے وہ آپ کی رضاعی بہن بن چکی ہے،
◈ بشرطیکہ اس نے تین مرتبہ دودھ پیا ہو (یعنی تین مرتبہ پستان منہ میں ڈال کر دودھ پیا ہو)۔
اگر تین مرتبہ سے کم مرتبہ دودھ پیا ہو، تو رضاعت ثابت نہیں ہوگی، اور ایسی صورت میں نکاح جائز ہوگا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب