رضاعت کبیر کے متعلق اسلامی نکتہ نظر کیا ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

رضاعت کبیر کے متعلق اسلامی نکتہ نظر کیا ہے؟

جواب:

اسلام عقل اور منطق کا مخالف ہرگز نہیں ہے، لیکن صرف اپنی خواہشات اور تعصبات کو عقل کا نام دے کر اسلام کو اس سے ٹکرا دیا جائے تو نتائج برے ہی آتے ہیں۔ کوئی خاتون دو سال سے بڑے لڑکے یا جوان مرد کو دودھ نہیں پلا سکتی، یہ اسلام کا قاعدہ، قانون اور ضابطہ ہے۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اتھارٹی دے رکھی ہے کہ آپ اسلام کے کسی قاعدے سے اللہ کے اذن سے کسی شخص کو مستثنیٰ کر سکتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عجیب طرح کا کیس سامنے آیا، یہ سہلہ بنت سہیل اور سالم مولیٰ ابی حذیفہ کا معاملہ ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ابو حذیفہ نے سالم کو منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا، وہ سہلہ کے پاس رہتے اور ان کے بیٹے شمار کیے جاتے تھے۔
پھر اللہ کا حکم آیا کہ متبنیٰ کو اس کے اصل باپ کی طرف ہی منسوب کریں:
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ
(الأحزاب: 5)
حکم مان لیا گیا، لیکن مشکل یہ ہوئی کہ اس حکم کے بعد لازمی طور پر سہلہ کو سالم سے پردہ کرنا تھا، تو جس کو بیٹا بنا کر پالا ہو، اس سے پردہ کرنا اور یک لخت اس سے جدا ہو جانا، سہلہ پر گراں گزرا، ابو حذیفہ بھی بہت پریشان ہوئے۔
تب سہلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلی آئیں، عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ معاملہ درپیش ہے، فرمایا:
أرضعيه، قالت: وكيف أرضعه؟ وهو رجل كبير، فتبسم رسول الله وقال: قد علمت أنه رجل كبير
آپ اسے دودھ پلا دیں، کہنے لگیں: دودھ کیسے پلا دوں، وہ تو بڑے ہو گئے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے، فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ وہ بڑے ہو چکے ہیں۔
(صحيح مسلم: 1453، المنتقى لابن الجارود: 690)
اسلامی احکام کی رو سے، یہ حدیث بالکل صحیح اور ثابت ہے، اس میں دو رائے نہیں، کیونکہ عمومی قاعدہ دودھ نہ پلانے کا سہی لیکن کسی ایک شخص کو استثناء دے دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اختیار ہے، سو آپ نے اپنا اختیار استعمال کیا اور یہ اللہ کی اجازت سے ہوا۔ اس کی سند بھی صحیح ہے، بیان کرنے والے سچے ہیں، ائمہ ہیں، ان کو جھوٹ بولتے نہیں دیکھا گیا، بلکہ بعد از تحقیق بسیار ان کو سچا پایا گیا، پھر قرآنی حکم کے مطابق ان کی دی ہوئی خبر کو قبول کر لیا گیا، یہ حدیث عقل اور منطق کے کسی ایک تقاضے کے مخالف نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ثبوت قطعی ہے۔
لیکن ملحدین، منکرین حدیث اور عقل پرستوں نے اپنی عادت کے مطابق اس حدیث پر مختلف طریقوں سے اعتراضات وارد کر رکھے ہیں۔ ملحدین کو یہ چیز شرم و حیا کے منافی نظر آتی ہے، حالانکہ یہ وہی لوگ ہیں، جن کے نزدیک سرے سے شادی کی ضرورت تک محسوس نہیں کی جاتی، مرد و زن کے ہمہ جہتی تعلقات ان کا من پسند موضوع ہیں، اس سلسلہ میں اسلام کو ہدف تنقید بھی بناتے رہتے ہیں لیکن یہاں آن کر ان کو شرم و حیا یاد آ جاتی ہے! اسی طرح جدید منکرین حدیث کا معاملہ ہے، جو کلی طور پر احادیث کے انکار کی جرات نہیں پاتے لیکن کچھ نہ کچھ احادیث کے مضمون کو سمجھے بغیر ان پر رد کرنا اپنا فرض منصبی سمجھ لیتے ہیں، وہ اسے اپنے ایمان کا تقاضہ بھی قرار دیتے ہیں، لیکن حیرت، کہ ان کا ایمان پوری امت سے بڑھ گیا ہے؟ کیا یہ لوگ بخاری، مسلم اور احمد بن حنبل جیسے ائمہ سنت سے زیادہ غیور واقع ہوئے ہیں؟ پوری امت نے قرونِ اولیٰ سے اس حدیث کو تلقی بالقبول سے نوازا ہے، فقہا نے اس حدیث پر اختلافات کی بنیاد رکھی ہے، استنباط و استدلالات کیے ہیں لیکن کسی ایک نے بھی نہیں کہا کہ مذکورہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہو سکتی، یا عقل کے تقاضے اس سے ابا کرتے ہیں۔ وہ لوگ اصول تحقیق اور عقل و منطق سے اچھی طرح واقف تھے، وہ اسلام کے مزاج کو بھی سمجھتے تھے، اسی لیے ان کو اس حدیث میں قابل اعتراض چیز نظر نہیں آئی، وہ قبول کرتے آئے، محدثین، شارحین حدیث، فقہا، متکلمین اور خطبا اس پر اپنے استدلال کی بنیادیں رکھتے رہے۔
بجا کہ ایک خاتون ایک مرد کو دودھ نہیں پلا سکتی لیکن کسی کا استثناء بھی تو ہو سکتا ہے، یہ ویسا ہی استثناء سمجھ لیجیے، جیسا استثناء عمومی حالات میں ہوتا ہے۔ ایک خاتون عام مردوں کے سامنے برہنہ نہیں ہو سکتی، لیکن اپنے خاوند کے ساتھ بعد از برہنگی معاملات بھی طے کرتی ہے، اس کو کوئی بھی بے حیائی اور بے شرمی نہیں کہتا، بلکہ اس کو ضروری امر قرار دیا جاتا ہے۔ جب ان معاملات میں ایک خاتون کے لیے ایک مرد کا استثناء ثابت ہو جانے سے وہ بے حیا نہیں ہو جاتی، تو ایک منہ بولے بیٹے کو بڑی عمر میں دودھ پلا دینے سے ایک ماں بے حیا کیوں کر ہو گئی؟ یا اس میں حیا کے منافی پہلو کون سے آگئے؟
امت کے ایک خاص ماں بیٹے کا معاملہ تھا، سالم کو منہ بولے بیٹے سے رضاعی بیٹا بنانا تھا، اس کے لیے مذکورہ فعل سے بہتر کوئی راستہ موجود نہیں تھا، سو یہی راستہ اختیار کر لیا گیا۔ یہ ایک صحابی کے لیے رخصت ہے کہ اس کا پریشان رہنا اللہ کو منظور نہ تھا، وہ تو وہ لوگ تھے، اللہ پر قسم اٹھا لیتے تھے تو اللہ ان کی قسموں کی لاج رکھ لیا کرتا تھا، ایک صحابی کی گواہی کو دو کے برابر قرار دے دیا جاتا تھا، ان کو اگر قربانی کا مطلوب جانور نہیں ملتا تھا، تو ان کو کھیرے جانور کی قربانی کی اجازت دے دی جاتی تھی، بعینہ یہ رخصت بھی دے دی گئی تھی۔
اب یہاں کوئی اعتراض اٹھا سکتا ہے کہ سالم نے اس عورت کو چھوا بھی ہوگا، جبکہ چھونا حرام ہے، اس اعتراض کا جواب مگر صدیوں پہلے دیا جا چکا ہے۔
❀ شارح صحیح مسلم، نووی (676ھ) فرماتے ہیں:
قاضی عیاض کہتے ہیں ممکن ہے کہ سہلہ نے سالم کو دودھ نکال کر دے دیا ہو اور انہوں نے پی لیا ہو، سینے کو نہ چھوا ہو، دونوں کے جسم آپس میں نہ ملے ہوں، قاضی عیاض کی یہ بہت خوبصورت توجیہ ہے۔ یہاں ایک دوسری صورت بھی ممکن ہے، وہ یوں کہ جب ایک شخص کو خاص طور پر دودھ پینے کی اجازت دی جا سکتی ہے، اسے چھونے میں بھی عام قاعدے سے استثناء مل سکتا ہے۔
(شرح صحيح مسلم: 31/10)
آخر میں ہم اسی مسئلہ کے ایک اہم جزو کی طرف اشارہ کریں گے کہ ام المومنین عائشہ صدیقہ اور متاخرین میں سے ابن حزم وغیرہ نے رضاعت کبیر کو جائز قرار دیا ہے اور اسی حدیث کو بنیاد بنایا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شوکانی بحالت مجبوری اس چیز کے جواز کے قائل تھے، یعنی یہ بزرگ اور خود ہماری ماں، اس حدیث کو صحیح تسلیم کرتی تھیں، تب ہی تو اس سے استدلال بھی جائز سمجھتی تھیں۔ وہ الگ بات کہ ان بزرگوں کا مذکورہ استدلال درست نہیں، کیونکہ خود دیگر ازواج مطہرات نے عائشہ سے اختلاف کیا تھا۔
❀ ام سلمہ فرماتی ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں نے اس سے انکار کیا کہ کوئی اس طرح رضاعت کا رشتہ ثابت کر لے، وہ عائشہ سے فرماتی تھیں کہ بخدا! یہ چیز ایک رخصت تھی، جو سالم کے ساتھ خاص تھی، اس قسم کی رضاعت کی بنا پر کوئی شخص ہمارے پاس نہ آئے اور نہ ہم کو دیکھے۔
(صحيح مسلم: 1454)
اس پر بھی غور کیجیے کہ امہات المومنین نے بھی ہرگز اس روایت سے انکار نہیں کیا، بلکہ انہوں نے بھی اس کو رخصت سے تعبیر کیا، لیکن آج کچھ بدبخت شاید امت کی ماؤں سے بھی زیادہ غیور واقع ہوئے ہیں، تف ہے ان کی اس سوچ پر!

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے