سوال
علمائے کرام اور مفتیانِ دین سے دریافت ہے کہ ایک شخص، جس کا نام عاشق حسین ہے، اس نے اپنی دادی کا دودھ اس وقت پیا جب وہ دودھ اس کی غذا تھا، اور یہ مقدار دس رضعات (عشر رضعات) سے بھی زیادہ تھی۔ مزید یہ کہ وہ دودھ اس کی دادی کو غیر فطری طور پر آیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ عاشق حسین، اپنے چچا محمد علی کی کسی بیٹی سے نکاح شریعتِ اسلامیہ کے مطابق کرسکتا ہے یا نہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس صورتِ حال میں عاشق حسین اپنے چچا محمد علی کا رضاعی بھائی ہوا، اور محمد علی کی سب بیٹیاں عاشق حسین کی رضاعی بھتیجیاں قرار پائیں۔ لہٰذا یہ رشتہ عاشق حسین کے لیے اسی طرح حرام ہے جیسے نسبی رشتے حرام ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ نکاح شرعاً درست نہیں۔
دلائل
(1) قرآنِ مجید سے دلیل
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَـٰتُكُمْ….وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ﴾
(النساء: ۲۳)
’’یعنی اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہاری مائیں اور رضاعی بہنیں حرام کر دی ہیں۔‘‘
(2) حدیثِ رسول ﷺ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((الرضاعة تحرم ماتحرم والولادة.))
(صحيح بخارى، مسلم)
’’نسب سے جو رشتے حرام ہوتے ہیں، وہی رضاعت سے بھی حرام ہو جاتے ہیں۔‘‘
(3) ایک اور حدیث
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((إن الله حرم من الرضاع ما حرم من النسب.))
(رواه احمد، والترمذى وصححه)
(4) حضرت عائشہؓ کی روایت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((قالت إن عمهامن الرضاعة إستاذن عليهامحببتة فأخبرت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لهالاتحببى منه فإنه يحرم من الرضاعة م يحرم من النسب.))
(صحيح مسلم، كتاب النكاح)
نتیجہ
ان آیات و احادیث سے ثابت ہوا کہ اس صورت میں کیا گیا نکاح باطل ہوگا۔ لہٰذا یہ رشتہ ختم کیا جائے اور یہی شریعتِ مطہرہ کا حکم ہے۔
اہم نوٹ
شریعتِ اسلامیہ میں رضاعت کے ثبوت کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ دودھ کا آنا قدرتی ہو یا غیر فطری، دونوں صورتوں میں رضاعت ثابت ہوتی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب