رضاعت کا حکم: دادی کا دودھ پینے والے لڑکے کا پھوپھی کی بیٹی سے نکاح
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 692

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے بیٹے نے میری زوجہ کی بیماری کے باعث ابتدا میں میری والدہ کا دودھ پیا۔ اُس وقت میرے بیٹے کی عمر تقریباً ۲ یا ۳ ماہ تھی اور دس ماہ کی عمر تک وہ میری والدہ کا دودھ پیتا رہا۔ کیا میرا بیٹا میری بہن کی بیٹی سے نکاح کرسکتا ہے یا نہیں؟ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال میں ذکر کی گئی صورت کے مطابق یہ نکاح شرعاً جائز نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لڑکا اس لڑکی کا رضاعی ماموں بن چکا ہے۔

مثال کے طور پر:

◈ دادی کا نام رفیعہ ہے۔
◈ رفیعہ کے بیٹے کا نام شفیق ہے۔
◈ رفیعہ کی بیٹی کا نام شفیقہ ہے۔
◈ شفیق کا بیٹا عتیق ہے۔

اب چونکہ عتیق نے اپنی والدہ کی بیماری کے دوران دس ماہ تک اپنی دادی رفیعہ کا دودھ پیا، تو اس کے نتیجے میں:

◈ عتیق اپنے والد شفیق کا رضاعی بھائی بن گیا۔
◈ اسی طرح اپنی پھوپھی شفیقہ کا بھی رضاعی بھائی ٹھہرا۔

لہٰذا عتیق اپنی پھوپھی شفیقہ کی بیٹی کا رضاعی ماموں ہوا۔

قرآن کریم کی نص کے مطابق:
وَبَنَاتُ الأُخْتِ (یعنی حقیقی بھانجی) سے نکاح حرام ہے۔
اسی طرح رضاعی بھانجی سے نکاح بھی حرام ہے۔

صحیح البخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

«فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الرَّضَاعَةُ تُحَرِّمُ مَا تُحَرِّمُ الوِلاَدَةُ»
(صحيح البخارى، وأمهاتكم اللاتى أرضعنكم، ويحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب، ج2، ص764)

ترجمہ: "رضاعت بھی انہی رشتوں کو حرام کرتی ہے جنہیں نسب حرام قرار دیتا ہے۔”

نظیر حدیث سے

یہ مسئلہ صحیح بخاری میں بھی موجود ہے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے چچا تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ کو مشورہ دیا گیا کہ آپ سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے نکاح فرما لیں تو آپ ﷺ نے مشورہ دینے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

«إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ»
(صحيح البخارى، ج2، ص764)

ترجمہ: "وہ تو میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔”

اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رضاعی بھتیجی کے ساتھ نکاح کو ناجائز قرار دیا۔

نتیجہ

لہٰذا صورت مسئولہ میں یہ نکاح جائز نہیں۔ اس لیے کہ لڑکا اپنی دادی کا دودھ پینے کی وجہ سے اپنی پھوپھی کی بیٹی کا رضاعی ماموں بن چکا ہے، اور ماموں کا اپنی بھانجی سے نکاح بحکم قرآن و سنت حرام ہے۔

ھذا ما عندی واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے