رشتہ داروں کے انتظار میں تدفین میں تاخیر کا شرعی حکم
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

سوال

دور دراز کے مقامات سے بعض رشتہ داروں کے آنے کی وجہ سے میت کی تدفین میں تاخیر کرنے کا کیا شرعی حکم ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلامی شریعت کا واضح حکم یہ ہے کہ میت کی تجہیز، تکفین اور تدفین میں جلدی کی جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں صریح ارشاد فرمایا ہے:


"أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَۃِ فَإِنْ تَکُ صَالِحَۃً فَخَیْرٌ تُقَدِّمُونَہَا الیہ وَإِنْ تَکُ سِوَی ذَلِکَ فَشَرٌّ تَضَعُونَہُ عَنْ رِقَابِکُمْ”

(صحیح البخاري، باب السرعۃ فی الجنازۃ، ح: ۱۳۱۵، وصحیح مسلم، الجنائز، باب السرعۃ فی الجنازۃ، ح: ۹۴۴)

ترجمہ:
"جنازہ کے معاملے میں جلدی کرو، اگر میت نیک ہے تو تم اسے خیر کی طرف پیش کر رہے ہو، اور اگر وہ اس کے علاوہ ہے تو تم ایک بوجھ اپنی گردنوں سے اتار رہے ہو۔”

رشتہ داروں کے انتظار کی شرعی حیثیت

◈ بعض قریبی رشتہ داروں کی شرکت کی خواہش کی وجہ سے میت کی تدفین میں غیر ضروری تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
البتہ چند گھنٹوں کی مہلت اگر ناگزیر ہو اور میت کو کسی قسم کا نقصان نہ ہو رہا ہو، تو دی جا سکتی ہے۔
افضل اور بہتر یہی ہے کہ تجہیز و تدفین کو تاخیر کے بغیر جلد مکمل کیا جائے۔

بعد میں آنے والے رشتہ داروں کے لیے کیا حکم ہے؟

اگر کوئی رشتہ دار تدفین کے بعد پہنچے تو:

◈ وہ میت کی قبر پر جا کر نماز جنازہ پڑھ سکتے ہیں، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل فرمایا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا:


"دُلُّونِي عَلٰی قَبْرِهِ”

(صحیح البخاري، الجنائز، باب الصلاۃ علی القبر بعد ما یدفن، ح: ۱۳۳۷، وصحیح مسلم، الجنائز، باب الصلاۃ علی القبر، ح: ۹۵۶ واللفظ لہ)

ترجمہ:
"مجھے اس کی قبر تک لے چلو۔”

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر بتائی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قبر پر جا کر نماز جنازہ ادا فرمائی۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1