رزق کے معاملات اور روحِ مبارک ﷺ کے گشت سے متعلق عقائد کا جائزہ
❖ پہلا سوال:
زید کا دعویٰ:
زید کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کے رزق کی کنجیاں رسول اللہ ﷺ کو تفویض کردی ہیں، اور رسول اللہ ﷺ کو اختیار حاصل ہے کہ جس کو جتنا چاہیں عطا فرمائیں۔
عمرو کا مؤقف:
عمرو اس بات کی سختی سے تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ دعویٰ سراسر غلط ہے۔ اس کے مطابق کسی کو ایک ذرہ برابر بھی اختیار حاصل نہیں، بلکہ سارا رزق اللہ وحدہٗ لا شریک کے قبضہ میں ہے۔ وہ جسے چاہے عطا کرے اور جسے نہ چاہے نہ دے۔
❖ اس بارے میں شرعی حکم:
زید کا نظریہ باطل اور خلافِ قرآن و حدیث ہے۔
زید کا یہ کہنا کہ مخلوقات کی روزی کا اختیار نبی اکرم ﷺ کے سپرد کر دیا گیا ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں بالکل غلط ہے۔ زید نے یا تو قرآن و حدیث کا مطالعہ نہیں کیا یا جان بوجھ کر گمراہی پر قائم ہے۔ قرآن و حدیث نے اس بات کو واضح طور پر رد کیا ہے۔
❖ قرآنِ کریم سے دلائل:
➊ سورۃ ہود، رکوع اوّل:
"وما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا”
یعنی زمین پر کوئی بھی جاندار نہیں جس کا رزق اللہ پر نہ ہو۔
➋ سورۃ فاطر، رکوع اوّل:
"هل من خالق غير الله يرزقكم من السماء والأرض”
کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے روزی دے؟
➌ سورۃ الشورٰی، رکوع دوم:
"له مقاليد السموات والأرض يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر إنه بكل شيء عليم”
آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں، وہ جس کے لیے چاہے رزق کو کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہے تنگ کر دیتا ہے، بے شک وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔
➍ سورۃ الذاریات، رکوع سوم:
"إن الله هو الرزاق ذو القوة المتين”
بے شک اللہ ہی رزق دینے والا ہے، بڑی قوت والا، زبردست۔
➎ سورۃ الذاریات، رکوع اوّل:
"وفي السماء رزقكم”
اور آسمان میں تمہارا رزق ہے۔
❖ حدیث مبارکہ سے دلائل:
مشکوٰۃ المصابیح، باب الاستغفار، روایت صحیح مسلم:
"یاعبادی کلکم جائع الا من اطعمتہ فاستطعمونی اطعمکم، یاعبادی کلکم عارٍ الا من کسوتہ فاستکسونی اکسکم”
یعنی اے میرے بندو! تم سب کے سب بھوکے ہو، مگر جس کو میں کھلا دوں۔ تم مجھ سے کھانے کا سوال کرو، میں تمہیں کھلاؤں گا۔ اور اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو، مگر جس کو میں کپڑا پہناؤں، تم مجھ سے کپڑے کا سوال کرو، میں تمہیں پہناؤں گا۔
❖ نتیجہ:
قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات پوری وضاحت سے ثابت ہے کہ مخلوقات کے رزق کی کنجیاں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہیں۔ کسی نبی یا ولی کو اس میں ذرہ برابر بھی اختیار حاصل نہیں۔ ایسا عقیدہ رکھنا یا کسی اور کو رزق دینے والا ماننا شرک ہے، جس سے مکمل پرہیز کرنا ضروری ہے۔
❖ دوسرا سوال:
روح مبارک رسول اللہ ﷺ کے سب گھروں اور مقامات پر گشت کرنے کا دعویٰ
یہ بات کہ رسول اللہ ﷺ کی روحِ مبارک تمام گھروں اور مقامات میں گشت کرتی ہے، غلط اور بے بنیاد ہے۔
❖ حدیث مبارکہ سے دلائل:
مشکوٰۃ المصابیح، باب الصلوٰۃ علی النبی ﷺ، روایت نسائی و دارمی:
"إن للہ ملائکۃ سیاحین فی الأرض یبلغونی من أمتی السلام”
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کچھ فرشتے مقرر کیے ہیں جو زمین میں پھرتے ہیں۔ وہ میری امت کے افراد کی طرف سے مجھ پر پڑھے جانے والے سلام کو مجھ تک پہنچاتے ہیں۔
روایت شعب الایمان للبیہقی، حضرت ابو ہریرہؓ:
"من صلی عند قبری سمعتہ، ومن صلی علی نائیا أبلغتہ”
یعنی جو کوئی میری قبر کے قریب مجھ پر درود و سلام پڑھے، میں خود اسے سنتا ہوں۔ اور جو کوئی دور سے پڑھے، وہ مجھ تک پہنچایا جاتا ہے۔
❖ شرعی نتیجہ:
اگر واقعی رسول اللہ ﷺ کی روحِ مبارک ہر مقام پر گشت کرتی ہوتی، تو احادیث میں یہ بات بیان ہوتی کہ نبی ﷺ خود ہر جگہ درود و سلام کو سنتے ہیں یا ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ مگر احادیث میں واضح ہے کہ فرشتے درود و سلام کو پہنچاتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مقام پر روحِ مبارک کی حاضری کا عقیدہ بے بنیاد ہے۔
❖ عقیدے کی خرابی اور خطرہ:
یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ بعض لوگ مسلمان کہلانے کے باوجود ایسے عقائد رکھتے ہیں جو قرآن و حدیث کے سراسر خلاف ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے:
ہر جگہ حاضر و ناظر ہونا اور ہر چیز کی ہر وقت خبر رکھنا صرف اللہ وحدہٗ لا شریک کے لیے خاص صفت ہے۔
کسی اور کے لیے یہ صفت ماننا یا سمجھنا کھلا ہوا شرک ہے، اور شرک سے مکمل اجتناب ضروری ہے۔
"والله يهدى من يشاء إلى صراط مستقيم، وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين، والصلوۃ والسلام علی رسولہ و علی آلہ و اصحابہ و سائر عباد الله الصالحين۔”