رسول اللہ ﷺ کا سایہ تھا یا نہیں؟ قرآن و حدیث سے واضح جواب
یہ اقتباس شیخ ابو حذیفہ محمد جاوید سلفی کی کتاب آئینہ توحید و سنت بجواب شرک کیا ہے مع بدعت کی حقیقت سے ماخوذ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ

بعض بریلوی حضرات نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوری تھے کیونکہ آپ کا سایہ نہیں تھا۔ میں نے مناسب سمجھا کہ اس مسئلہ کی بھی وضاحت ہو جائے جس میں عامتہ الناس میں بڑی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں وہ یہ کہ اس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ تھا یا نہیں یا دیکھیں کہ کچھ لوگ جو قرآن وسنت کے واضح اور روشن دلائل سے بے خبر ہوتے ہیں اور ہر سنی سنائی بات پر بغیر تحقیق کے اپنا عقیدہ بنالیتے ہیں اور اسی بات کو حرف آخر سمجھتے ہیں اور کبھی یہ سوچنا ہی گوارہ نہیں کرتے کہ آخر یہ کہ کیا ہمارا عقیدہ قرآن وحدیث کے مطابق ہے یا مخالف کیا ہم کسی غلط راستے پر تو نہیں چل رہے؟ پس جس کے دل میں یہ سوچ پیدا ہو جائے کہ قرآن وحدیث میں اس کی کیا دلیل ہے۔ تحقیق کی جستجو پیدا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو جلد حق کی پہچان کروا دیتا ہے اور اس کی آنکھوں سے جہالت کے پردے ہٹا دیتا ہے اور راہ حق پر چلا دیتا ہے پھر لاکھوں جہالت کے پر دے لے کر اس کے پیچھے پھرتے ہیں کہ دوبارہ اس کی آنکھوں پر جہالت کے پردے ڈال دیں مگر وہ مر تو سکتا ہے مٹ تو سکتا ہے مگر جہالت کے پردوں کو عقیدت کے رنگ میں ہرگز قبول نہیں کرتا کیوں کہ یہ حق کا خاصہ ہے۔
لیکن حق کی معرفت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی نصیب ہوتی ہے وگرنہ بڑے بڑے پڑھے لکھے رات دن مطالعہ میں وقت گزارنے والے خود اندھیروں میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن وحدیث کے صریح دلائل کے مطابق عقیدہ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔

کیا نوری مخلوق کا سایہ نہیں ہوتا :

چنانچہ بریلوی حضرات کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہیں تھا یہ دعویٰ اس طرح کرتے ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلتے پھرتے رہے دراصل ان لوگوں کے دلوں میں یہ بات لوہے کی لیکر کی طرح بیٹھ گئی ہے کہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوری مخلوق تھے اور نوری مخلوق کا سایہ نہیں ہوتا۔ میں بڑے محبت بھرے جذبات سے ان اپنے بھائیوں کی خدمت میں گزارش کروں گا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیکھنے کے لیے آنکھیں دی ہیں اور سننے کے لیے کان دیئے ہیں۔ صحیح اور غلط چیز میں فرق کرنے کے لیے عقل سے نوازا ہے ان سے کام لو اور ان کو قرآن وحدیث کے تابع کرو اور قرآن وحدیث کو اپنی عقلوں کے تابع مت کرو دنیا سے چلے جانے کے بعد قرآن وحدیث کی روشنی ہی تمہارے کام آئے گی تعصب سے ہٹ کر دلائل پر غور فرمائیں۔
چنانچہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ فرشتوں کا بھی سایہ ہوتا ہے جو باتفاق نوری مخلوق ہیں ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد عبد اللہ رضی اللہ عنہ جب غزوہ احد میں شہید ہوئے اور جابر رضی اللہ عنہ اور ان کی پھوپھی دونوں رو رہے تھے اور پھوپھی کی روتے روتے کبھی چیخ بھی نکل جاتی تھی انہیں
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تبكيه أولا تبكيه ما ذالت الملائكة تظله بأجنحتها حتى رفعتموه
(صحیح بخارى كتاب الجنائز ولجهاد؛ مسلم كتاب فضائل الصحابة صفحه 143)
اس پر روئے یا نہ روئے فرشتے اس پر اپنے پروں سے برابر سایہ کیے ہوئے تھے یہاں تک کہ تم نے اس کو اٹھایا۔
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ نوری مخلوق کا بھی سایہ ہوتا ہے مگر فرق اتنا ضرور ہے کہ انسانی مخلوق چونکہ عام عادت میں نظر آنے والی چیز ہے اس کا سایہ بھی عام نظر آتا ہے اور نوری مخلوق چونکہ عام نظر آنے والی چیز نہیں اس لیے اس کا سایہ بھی نظر نہیں آتا ہاں معجزانہ طریقے سے نظر آسکتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھا دیا تھا۔
قارئین محترم یہ بات سب کو تسلیم ہے کہ کسی بھی شخص کو سب سے زیادہ سمجھنے والی اس کی اپنی بیوی ہی ہوتی ہے چنانچہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کسی سائل نے سوال کیا کہ بتائیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کیا کام کرتے تھے تو جواب دیا :
كان بشرا من البشر ويحلب شاته ويخدم نفسه
(مسند احمد المسلة صحيحه : 671)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنس بشر میں سے تھے بکری کا دودھ خود دھو لیتے اور اپنے کام خود کرلیتے۔
بشریت رسول پر ایک واضح دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہی تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام نور والوں سے بھی بلند و بالا تھا سایہ کے بارہ میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا گواہی دیتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بیمار ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ تم اپنا اونٹ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو دے دو تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کہنے لگیں میں اس یہودیہ کو اپنا اونٹ کس طرح دے دوں؟ اس بات کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ناراض ہو گئے اور ذوالحجہ اور محرم دو مہینے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس نہیں آئے ام المومنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن دوپہر نصف النہار کے وقت میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ آتے دیکھا۔ (مسند احمد جلد 132/6)
نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے متعلق فرماتی ہیں کہ :
فرأت ظله فقالت ان هذا لظل رجل وما يدخل على النبى مفت فمن هذا فدخل مفت
(مسند احمد جلد 338/6)
انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ دیکھا تو دل میں کہا یہ کسی مرد کا سایہ ہے رسول اللہ تو میرے پاس آتے ہی نہیں یہ کون ہو سکتا ہے اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر آگئے۔
اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ اتنا واضح ہے کہ کسی قسم کی تاویل کی گنجائش ہی نہیں ایک اور حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ دس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم رہے فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ آگے بڑھایا اور پھر پیچھے ہٹا لیا ہم نے سبب دریافت کیا تو فرمایا مجھ پر جنت پیش کی گئی تھی میں نے اونچے درخت دیکھے جن کے گچھے نیچے لٹک رہے تھے میں نے کچھ لینے کا ارادہ کیا تو وحی آئی کہ پیچھے ہٹ جاؤ تو میں پیچھے ہٹ گیا اور مجھ پر جہنم بھی پیش کی گئی جو میرے اور تمہارے درمیان میں حتي رائت ظلي وظلكم فيها یہاں تک کہ میں نے اپنا اور تمہارا سایہ اس آگ کی روشنی میں دیکھا پس میں نے تمہیں اشارہ کیا تھا کہ پیچھے ہٹ جاؤ فورا میری طرف وحی آئی ان کو ان کی جگہ پر ٹکے رہنے دو۔(مستدرك حاكم ج 4 / 456 صحيح ابن خزیمه ج 51/2)
سایہ کے متعلق ایک اور حدیث مبارکہ میں آیا ہے :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبریل علیہ السلام نے مجھے عصر کی نماز پڑھائی : حين كان فئى مثلي جبکہ میرا سایہ میرے قد کے برابر ہو گیا پھر آکر مجھے عصر کی نماز پڑھائی حين كان فئى مثلي جبکہ میرا سایہ میرے دو قد ہو گیا۔(مجمع الزوائد جلد 303/1)
قرآن کریم سے ثابت ہے کہ ہر مخلوق کا سایہ ہے۔ تعصب چھوڑ کر قرآن وحدیث کا مطالعہ کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے مسائل حل نہ ہوں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :
أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَىٰ مَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِلَّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ(سورۃ النحل: 48)
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے جو چیز بھی پیدا کی ہے ان کے سائے دائیں اور بائیں جانب اللہ کو سجدے کرتے ہوئے ڈھلتے ہیں اور وہ عاجزی
کرتے ہیں۔
دوسرے مقام پر فرمایا :
وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَظِلَالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ(سورۃ الرعد: 15)
اللہ ہی کے لیے زمین اور آسمانوں کی سب مخلوق خوشی اور نا خوشی سے سجدہ کرتی ہے اور ان کے سائے بھی صبح وشام ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھانا کھاتے تھے کپڑے وغیرہ پہنتے تھے ایک جسم رکھتے تھے ہر جسم والی چیز کا سایہ ہوتا ہے اگر خالی کپڑے کو دھوپ میں لٹکائیں تو زمین پر اس کا سایہ ضرور ہو گا اگر اس میں انسان گوشت اور خون ہڈیوں والا جسم بھی ہو تو پھر سایہ کیوں نہ ہوگا حیران ہوتا ہوں کہ یہ لوگ حقیقت کو تسلیم کیوں نہیں کرتے اللہ تعالیٰ نے کیا خوب ارشاد فرمایا :
وَمَا تُغْنِي الْآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ(سورۃ یونس: 101)
نہ ماننے والی قوم کو ڈرانے والے اور آیات کچھ نفع نہیں پہنچا سکتے۔
اللہ تعالیٰ کے ذاتی نور کا دنیا میں کوئی مشاہدہ نہیں کر سکتا اللہ کے نور کی شان و جلالت اتنی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اللہ کے نور کا مشاہدہ نہیں کر سکے تھے۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے ایک دفعہ اللہ تعالیٰ سے عرض کیا :
رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ
اے میرے رب مجھے اپنا دیدار کرا دیجئے کہ ایک نظر آپ کو دیکھ لیں۔
وَلَٰكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ
لیکن اس پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو۔
فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي
اگر پہاڑ اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تم مجھے دیکھ سکو گے۔
فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا
پس جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو تجلی نے اس پہاڑ کو ریزہ ریزہ کر دیا۔
وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا
اور موسیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔
فَلَمَّا أَفَاقَ
پھر جب ہوش میں آئے۔
قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ
تو عرض کرنے لگے بیشک تو پاک ہے میں توبہ کرتا ہوں اب میں سب سے پہلا یقین کرنے والا ہوں۔(سورۃ الاعراف: 143)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی آنکھوں سے اللہ کے نور کا مشاہدہ نہیں کیا اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ذاتی نور کا مشاہدہ ہماری مادی آنکھوں سے نہیں ہوسکتا۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ :
هل رأيت ربك
کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :
نورانى أراه
وہ ایک نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں ۔ (مسلم شریف کتاب الایمان حدیث 178)
حضرت مسروق تابعی رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ تو نے ایسی بات کہہ دی جس کی وجہ سے میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں پھر فرماتی ہیں کہ :
من زعم أن محمدا رأىٰ ربه فقد أعظم الفرية على الله
(بخاری كتاب تفسير القرآن سورة النجم حديث 4855)
جو کوئی یہ دعوی کرے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تو بلاشبہ اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا۔
ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
حجابه النور لو كشفه لأحرقت سبحات وجهه ما انتهىٰ إليه بصره من خلقه
(مسلم کتاب الایمان حدیث 179)
اللہ کا حجاب نور ہے اگر وہ حجاب اٹھا دے اس کے چہرے کے انوار تمام مخلوق کو جلا کر رکھ دیں جہاں تک اس کی نگاہ پہنچے۔
قرآن مجید میں واضح ارشاد ہے :
لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ(سورۃ الانعام: 103)
نگاہیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کر لیتا ہے اور وہ بھید جاننے والا خبر دار ہے۔
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا :
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ(سورۃ الشوری: 51)
کسی بشر کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اللہ سے براہ راست کلام کرے مگر وحی کے ذریعے سے یا پردے کے پیچھے سے یا کوئی فرشتہ بھیج دے پس وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے بیشک وہ نہایت بلند اور حکمت والا ہے۔
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور سے ہوتے تو معراج کی رات اللہ کے نور کو دیکھ لیتے اور دوسرے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکتے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے