رسول اللہ ﷺ نے اللہ کو دیکھا یا نہیں؟ احادیث و اقوال صحابہ سے وضاحت
ماخوذ : فتاویٰ علمائے حدیث

سوال

کیا رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے؟ کیونکہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے اور وہ اس پر درج ذیل حدیث پیش کرتے ہیں:

’’نسائی میں عکرمہ کی روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: أَتَعْجَبُونَ أَنْ تَکُونَ الخُلَّة لِإِ بْرَاھِیْمَ وَالْکَلاَمُ لِمُوْسٰی وَالرُّؤْیَة لِمُحَمَّدٍ
’’کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے خلیل بنایا، موسیٰ علیہ السلام کو کلام سے نوازا اور محمد ﷺ کو رؤیت کا شرف بخشا۔‘‘ (مستدرک حاکم، ج:۱، ص:۱۳۳، سنن نسائی الکبریٰ، ج:۶، ص:۴۷۲، کتاب التفسیر قولہ تعالیٰ: ماکذب الفؤاد ماراٰی)

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!

یہ رسول اللہ ﷺ کا قول نہیں بلکہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ رؤیت بالفؤاد (دل سے دیکھنے) کے قائل ہیں۔ اگر اس روایت رَأَیْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے مراد قلبی رؤیت ہے، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ خود وضاحت فرماتے ہیں:

* بفؤادہ (اپنے دل سے)
* بقلبہ (اپنے قلب سے)

کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب تعالیٰ کو دل کے ساتھ دیکھا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب معنی قول اللہ عزوجل (ولقد راه نزلة اخری)، ج:۱)

لہٰذا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت اور یہ آیت کریمہ آپس میں متعارض نہیں ہیں:

﴿لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ‌ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ‌ ۖ (١٠٣)﴾ (الأنعام)
’’اسے کوئی آنکھ نہیں پا سکتی اور وہ سب نگاہوں کو پالیتا ہے۔‘‘

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کا قول

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ سورۃ النجم کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

وفی روایة عنه أنہ أطلق الرؤیة ، وھي محمولة علی المقیدة بالفؤاد، ومن روي عنه بالبصر فقد أغرب ، فإنه لا یصح في ذلك شیء عن الصحابة رضي الله عنهم وقول البغوي فی تفسیره: وذہب جماعة إلی أنه رآي بعینہ، وھو قول أنس والحسن وعکرمة فیه نظر، واللّٰہ أعلم

(یعنی: ابن عباس نے رؤیت کو مطلق بیان کیا ہے مگر اس کا مطلب دل سے دیکھنا ہے۔ جن لوگوں نے کہا کہ آنکھوں سے دیکھا، وہ قول ضعیف ہے کیونکہ صحابہ سے اس کی صحت ثابت نہیں۔ امام بغوی نے کہا کہ بعض نے کہا آنکھوں سے دیکھا، جیسے انس، حسن اور عکرمہ، لیکن اس قول پر نظر ہے۔)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا موقف

مسروق کہتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تھا؟

انہوں نے فرمایا:

* ’’تیری بات سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔‘‘
* ’’جس نے کہا کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا، اس نے جھوٹ بولا۔‘‘

پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی:

﴿لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ‌ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ‌ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ‌ (١٠٣)﴾ (الأنعام)

اور یہ آیت بھی پڑھی:

﴿وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ‌ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَ‌اءِ حِجَابٍ (٥١)﴾ (الشوریٰ)

پھر فرمایا:

* ’’جو کہے کہ آپ ﷺ کو کل کا علم تھا، وہ بھی جھوٹا ہے۔‘‘
* اور یہ آیت پڑھی: ﴿وَمَا تَدْرِ‌ي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ (٣٤)﴾ (لقمان)
* ’’اور جو کہے کہ نبی ﷺ نے وحی میں سے کچھ چھپایا، وہ بھی جھوٹا ہے۔‘‘
* اور یہ آیت پڑھی: ﴿يَا أَيُّهَا الرَّ‌سُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّ‌بِّكَ ۖ ﴾

آخر میں فرمایا:

* ’’بلکہ آپ ﷺ نے جبریل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دوبار دیکھا تھا۔‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ النجم، ح:۴۸۵۵۔ مسلم، کتاب الایمان، ح:۱۷۷)

کعب رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کا واقعہ

شعبی کہتے ہیں: عرفات میں کعب رضی اللہ عنہ کی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی۔ کعب نے کہا:
’’اللہ تعالیٰ نے کلام اور دیدار محمد ﷺ اور موسیٰ علیہ السلام میں تقسیم کیا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے دوبار کلام کیا اور محمد ﷺ نے دوبار اللہ کو دیکھا۔‘‘

اس پر مسروق نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا۔ انہوں نے پھر وہی جواب دیا کہ یہ بات جھوٹ ہے اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے جبریل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا تھا۔ ایک بار سدرۃ المنتہیٰ پر اور ایک بار مکہ میں۔ ان کے چھ سو پر تھے جو آسمان پر پھیلے ہوئے تھے۔ (ترمذی، ابواب التفسیر، سورۃ النجم، ح:۳۲۷۸)

دیگر روایات

* ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آیت ﴿مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَ‌أَىٰ (١١)﴾ (النجم) تلاوت کی اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دل کی آنکھ سے دیکھا۔
(ترمذی، ابواب التفسیر)

* ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے پوچھا: ’’یا رسول اللہ! کیا آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ نور ہے، میں اسے کہاں دیکھ سکتا ہوں؟‘‘ (مسلم، کتاب الایمان، ترمذی، ابواب التفسیر، ح:۱۷۸)

خلاصہ

ان تمام آیات و احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ:

* اس دنیا میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا۔
* رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کو دل سے دیکھا۔
* آنکھوں سے دیکھنے کا قول صحابہ سے صحیح ثابت نہیں۔
* آخرت میں اہل جنت اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے، جیسا کہ احادیث صحیحہ میں واضح ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے