سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! جب آدم جنت میں تھے تو آپ کہاں تھے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں آدم کی پشت میں تھا۔ اور آدم جب زمین پر اتارے گئے تب بھی میں ان کی پشت میں تھا۔ اور میں اپنے باپ نوح کی پشت میں تھا۔ جب میں کشتی میں سوار ہوا اور میں آگ میں ڈالا گیا ابراہیم کی پشت میں اور میرے ماں باپ کبھی زنا پر جمع نہیں ہوئے۔ اس طرح میں پاک پشتوں کے ذریعہ پاک اور مہذب رحموں کی طرف منتقل ہوتا رہا۔
جب بھی خاندان کی دو نسلیں پھوٹیں تو میں ان میں بہتر شاخ میں تھا۔ پھر اللہ نے مجھے سے نبوت کا عہد لیا۔ اور تورات میں میری بشارت دی اور انجیل میں میرا نام روشن کیا۔ میرے چہرے کی روشنی سے زمین چمکتی ہے۔ اور آسمان مجھے دیکھنے کے لئے بے تاب رہتا ہے۔ اور میرے نام کی برکت سے الله تعالیٰ آسمانوں میں چڑھا۔ اور اپنے ناموں میں سے میرا مشتق کیا۔ پس عرش والا محمود ہے اور میں محمد ہوں۔ [الحديث ]
تحقیق الحدیث :
یہ حدیث موضوع ہے،
اسے بعض قصہ گوؤں نے وضع کیا ہے۔
اور ہناد بن ابراہیم کو ثقہ قرار نہیں دیا جاتا۔
ہو سکتا ہے کہ ہناد کے شیخ علی بن محمد بن بکران نے اسے وضع کیا ہو یا علی بن محمد کے شیخ خلف بن محمد نے اسے وضع کیا ہو۔
حتیٰ کہ علی بن عاصم کہتے ہیں :
ہم یزید بن ہارون کو ہمیشہ جھوٹا سمجھتے رہے۔
یحییٰ بن معین کہتے ہیں :
یہ کچھ نہیں، لیکن تب بھی یہ کام متاخرین کے زیادہ لائق ہے۔ اس طرح سے اس روایت کا واضع عباس ہے۔ [الموضوعات لا بن جوذي ج1، ص 481 ]
من گھڑت ہے، دیکھیں۔ [الفوائد المجموعة فى الأحاديث الضعيفة والموضوعة كتاب فضائل النبى صلى الله عليه وسلم رقم الحديث 998 ]
امام شوکانی کہتے ہیں :
اس کو بعض قصہ گوواعظین نے گھڑا ہے۔