آج کا انسان عام طور پر یہ شکوہ کرتا نظر آتا ہے کہ کمائی بہت ہے مگر برکت نہیں، دن رات محنت، دوڑ دھوپ اور ساری توانائی صرف کرنے کے باوجود بھی اخراجات پورے نہیں ہوتے، بلکہ ہر مہینے کے آخر میں قرض بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔
یہ مضمون اسی اہم سوال کا جواب ہے کہ رزق میں برکت کیسے آتی ہے؟ اور وہ کون سے شرعی اسباب ہیں جنہیں اپنا لیا جائے تو اللہ تعالیٰ رزق میں برکت، وسعت اور سکون عطا فرماتا ہے۔
سب سے پہلے چند بنیادی عقیدے اور اصول بیان ہوں گے:
اللہ تعالیٰ ہی حقیقی رازق ہے
وہی رزق کو تقسیم کرتا، کم یا زیادہ کرتا ہے
تمام خزانوں کی چابیاں اسی کے پاس ہیں، اسی سے مانگنا لازم ہے
اس کے بعد ایمان و عمل صالح، تقویٰ، تلاوتِ قرآن، شکر، توکل، دعا، صدقہ و خیرات، سچائی، قناعت، والدین سے حسنِ سلوک، صلہ رحمی، استغفار وغیرہ جیسے عملی اسباب تفصیل سے ذکر ہوں گے، جن کے ذریعے بندہ اپنے رزق کو بابرکت بنا سکتا ہے۔
بنیادی اصول: رزق کے بارے میں صحیح عقیدہ
➊ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا رازق ہے
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مسلمان کا پختہ یقین ہو کہ رزق دینے والا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے، اس کے سوا کوئی رازق نہیں۔
وہی وحدہٗ لا شریک ہے، جیسے وہ خالق و مالک ہے اسی طرح وہی رازق بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿مَآ اُرِیْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ٭ اِِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ ﴾
الذاریات51 :57 ۔58
ترجمہ:
’’میں ان سے رزق نہیں چاہتا اور نہ ہی یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ اللہ تعالیٰ تو خود ہی رزّاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے کائنات کے ہر جاندار کے رزق کی ذمہ داری خود اپنے اوپر لی ہے:
﴿ وَمَا مِن دَآبَّۃٍ فِیْ الأَرْضِ إِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا ﴾
ہود11 : 6
ترجمہ:
’’زمین میں چلنے والے ہر جاندار کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ رزق کے فیصلے آسمان سے فرماتا ہے:
﴿وَفِیْ السَّمَائِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوعَدُونَ ﴾
الذاریات51 :22
ترجمہ:
’’آسمان میں تمہارا رزق ہے اور وہ بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔‘‘
اسی طرح فرمایا:
﴿ اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ ثُمَّ رَزَقَکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ہَلْ مِن شُرَکَائِکُم مَّن یَفْعَلُ مِن ذَلِکُم مِّن شَیْْئٍ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یُشْرِکُونَ ﴾
الروم30 :40
ترجمہ:
’’اللہ ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر تمہیں رزق دیا، پھر تمہیں مارے گا اور پھر تمہیں زندہ کرے گا۔ تو کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو ان کاموں میں سے کوئی کام کرتا ہو؟ وہ پاک ہے اور ان کے شرک سے بلند و بالا ہے۔‘‘
➋ رزق کی کمی و زیادتی اللہ کی حکمت کے ساتھ ہے
اللہ تعالیٰ اپنی بے پایاں حکمت کے ساتھ جسے چاہتا ہے زیادہ رزق دیتا ہے، جسے چاہتا ہے کم دیتا ہے۔ یہ تقسیم کسی انسان، کسی نظام، کسی ملک کے ہاتھ میں نہیں بلکہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَّعِیْشَتَہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا ﴾
الزخرف43 : 32
ترجمہ:
’’ہم نے ہی ان کی روزی کو دنیاوی زندگی میں ان کے درمیان تقسیم کردیا ہے اور ہم نے ہی ان میں سے بعض کو بعض پر کئی درجے فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لے سکیں۔‘‘
اسی طرح فرمایا:
﴿ اَللّٰہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ یَقْدِرُ لَہٗ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ﴾
العنکبوت29:62
ترجمہ:
’’اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے فراخ روزی دیتا ہے اور جسے چاہے تنگ۔ بے شک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے کم رزق دینے کی حکمت بھی خود بیان فرمائی:
﴿ وَلَوْ بَسَطَ اللّٰہُ الرِّزْقَ لِعِبَادِہٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ وَلٰکِنْ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَآئُ اِِنَّہٗ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرٌ م بَصِیْرٌ ﴾
الشوری42 :27
ترجمہ:
’’اور اگر اللہ اپنے بندوں کو وافر رزق عطا کردیتا تو یہ زمین میں سرکشی سے اودھم مچا دیتے، مگر وہ ایک اندازے سے جتنا رزق چاہے نازل کرتا ہے۔ بے شک وہ اپنے بندوں سے باخبر ہے، انہیں خوب دیکھ رہا ہے۔‘‘
➌ تمام خزانوں کی چابیاں اللہ کے پاس ہیں
جب حقیقی مالك وہی ہے، تو مانگنا بھی صرف اسی سے چاہیے۔ مخلوق سے امید باندھنا، یا انہیں رزق کا مالک سمجھنا عقیدے کی خرابی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَإِن مِّن شَیْْئٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُہُ وَمَا نُنَزِّلُہُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ ﴾
الحجر15 :21
ترجمہ:
’’کوئی بھی ایسی چیز نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، اور ہم اسے ایک معلوم مقدار کے مطابق ہی نازل کرتے ہیں۔‘‘
اسی لئے ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا:
﴿إِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِِ اللّٰہِ لَا یَمْلِکُونَ لَکُمْ رِزْقاً فَابْتَغُوا عِندَ اللّٰہِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوہُ وَاشْکُرُوا لَہُ إِلَیْْہِ تُرْجَعُونَ ﴾
العنکبوت29 : 17
ترجمہ:
’’جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو وہ تمہیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے، لہٰذا تم اللہ ہی سے رزق مانگو، اسی کی عبادت کرو اور اس کا شکر ادا کرو، تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
( یَا عِبَادِیْ! کُلُّکُمْ جَائِعٌ إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُہُ ، فَاسْتَطْعِمُونِیْ أُطْعِمْکُمْ )
( یَا عِبَادِیْ ! کُلُّکُمْ عَارٍ إِلَّا مَنْ کَسَوْتُہُ ، فَاسَتَکْسُوْنِیْ أَکْسُکُمْ ۔۔۔۔۔)
(۔۔۔۔۔۔ یَا عِبَادِیْ ! لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ ، وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ قَامُوْا فِیْ صَعِیْدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُوْنِیْ فَأَعْطَیْتُ کُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَہُ ، مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِمَّا عِنْدِیْ إِلَّا کَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ )
صحیح مسلم:2577
ترجمہ:
’’اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو، سوائے اس کے جسے میں کھلا دوں، لہٰذا مجھ سے کھانا مانگو، میں تمہیں کھلاؤں گا۔‘‘
’’اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو، سوائے اس کے جسے میں لباس پہنا دوں، لہٰذا مجھ سے لباس مانگو، میں تمہیں پہناؤں گا۔‘‘
’’اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور آخری، انسان اور جن، سب کے سب ایک میدان میں کھڑے ہو جائیں، پھر مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کو اس کی طلب کے مطابق دے دوں تو اس سے میرے خزانے میں اتنی بھی کمی نہیں ہوگی جتنی سمندر میں سوئی ڈالنے سے پانی کم ہوتا ہے۔‘‘
پس جو رب اتنے بے پایاں خزانوں کا مالک ہے، رزق اسی سے مانگنا چاہیے، اسی پر امید رکھنی چاہیے۔
➋ تقویٰ – رزق میں برکت کا مضبوط ذریعہ
رزق میں برکت کے بڑے اور بنیادی اسباب میں سے ایک اہم سبب ’تقویٰ‘ ہے۔
تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ بندہ:
❀ اللہ رب العزت کا ایسا خوف دل میں رکھے جو اسے گناہوں، حرام کمائی اور نافرمانی سے روک دے،
❀ اور اللہ کے احکام پر عمل کرنے، فرائض کی ادائیگی اور حلال راستوں کو اختیار کرنے پر آمادہ کرے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہُ مَخْرَجًا ٭ وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ ﴾
الطلاق65 :2 ۔3
ترجمہ
’’اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے، اللہ اس کے لیے (ہر مشکل سے) نکلنے کی کوئی نہ کوئی راہ بنا دیتا ہے، اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘
اسی طرح فرمایا:
﴿ وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُریٰ آمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْأَرْضِ﴾
الأعراف7 :96
ترجمہ
’’اور اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور اللہ کی نافرمانی سے بچتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔‘‘
مزید فرمایا:
﴿ وَ لَوْ اَنَّ اَھْلَ الْکِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَ لَاَدْخَلْنٰھُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ٭ وَ لَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ﴾
المائدۃ5 :65۔66
ترجمہ
’’اگر اہلِ کتاب ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان سے ان کی برائیاں دور کردیتے اور انہیں نعمتوں والے باغات میں داخل کرتے۔ اور اگر وہ تورات و انجیل اور وہ (کتاب) قائم رکھتے جو ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل کی گئی، تو وہ اپنے اوپر سے بھی کھاتے اور اپنے پیروں کے نیچے سے بھی۔‘‘
تقویٰ کا عملی تقاضا
’تقویٰ‘ کا سیدھا سا تقاضا یہ ہے کہ مومن:
❀ حلال ذرائع سے کمائے،
❀ خود بھی حلال کھائے اور اپنے زیر کفالت اہل و عیال کو بھی حلال ہی کھلائے،
❀ حرام کمائی کے تمام راستوں سے مکمل اجتناب کرے۔
اگر کوئی شخص حلال اور حرام کو ملا دے، رشوت، دھوکہ، سود، خیانت وغیرہ سے مال کمائے تو اس کے رزق سے برکت اٹھ جاتی ہے، اگرچہ ظاہری رقم زیادہ ہو۔
حرام کمائی کے چند نمایاں راستے جو برکت کو ختم کر دیتے ہیں:
❀ رشوت لینا اور دینا
❀ امانت میں خیانت کرنا
❀ چوری کرنا، ڈاکہ زنی کرنا
❀ قرض دے کر اس پر سود لینا
❀ سامان، گاڑی، مکان وغیرہ ادھار یا قرض پر لے کر قیمت یا قرض واپس نہ کرنا
❀ لین دین میں جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، فراڈ کرنا
❀ جھوٹی قسمیں کھانا
❀ ناپ تول میں کمی بیشی کرنا
❀ اشیائے خورد و نوش میں ملاوٹ کرنا
ایسے تمام لوگوں کی کمائی ظاہری طور پر زیادہ ہوسکتی ہے، مگر برکت سے خالی ہوتی ہے۔
اسی طرح:
جو سرکاری یا نجی (پرائیویٹ) ملازمین اپنی ڈیوٹی کے وقت کو امانت نہ سمجھیں،
وقتِ ملازمت میں فضول گپ شپ،
موبائل پر گیمز کھیلنے،
سوشل میڈیا اسکرول کرنے،
یا ذمہ دار کی اجازت کے بغیر ادھر ادھر گھومنے میں مصروف رہیں،
تو ایسے لوگوں کے رزق سے بھی برکت اٹھالی جاتی ہے، اگرچہ تنخواہ اچھی کیوں نہ ہو۔
تقویٰ کا اعلیٰ نمونہ – حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا، ایک دن وہ کچھ کھانے کی چیز لے کر آیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں سے کچھ کھا لیا۔ غلام نے کہا:
’’کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کھانا کہاں سے آیا؟‘‘
آپ نے پوچھا: کہاں سے آیا؟
اس نے کہا:
(کُنْتُ تَکَہَّنْتُ لِإِنْسَانٍ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ ، وَمَا أُحْسِنُ الْکَہَانَۃَ إِلَّا أَنِّی خَدَعْتُہُ )
ترجمہ
’’میں جاہلیت کے زمانے میں ایک شخص کے لیے کہانت (غیب دانی کا جھوٹا دعویٰ) کیا کرتا تھا، حالانکہ میں کہانت جانتا نہیں تھا، بس اسے دھوکے میں رکھتا تھا۔‘‘
وہ کہنے لگا: ’’آج اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے اسی کہانت کے بدلے میں یہ کھانا مجھے دیا، جس میں سے آپ نے بھی کھایا ہے۔‘‘
یہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فوراً اپنا ہاتھ منہ کے اندر ڈال کر جتنا کھانا پیٹ میں جاچکا تھا اس سب کو قے کر کے نکال دیا، تاکہ حرام یا مشتبہ لقمہ بھی پیٹ میں باقی نہ رہے۔
صحیح البخاری:3842
یہ ہے تقویٰ اور حقیقی پرہیزگاری کہ مشتبہ لقمہ بھی گوارا نہیں، خواہ وہ پیٹ سے نکالنے میں کتنی ہی مشقت کیوں نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسا دل عطا فرمائے جو حرام اور مشتبہ مال سے سخت نفرت کرے۔
➌ تلاوتِ قرآن مجید
رزق میں برکت کے بڑے اسباب میں سے ایک عظیم سبب قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت ہے۔
کیونکہ یہ کتاب خود بابرکت ہے، تو جو اس سے جڑے گا، اس کی زندگی، گھر اور رزق سب میں برکت آئے گی۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَہَذَا کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ مُبَارَکٌ فَاتَّبِعُوہُ وَاتَّقُوا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ﴾
الأنعام6 :155
ترجمہ
’’اور یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا، بابرکت ہے، سو تم اس کی پیروی کرو اور (اللہ سے) ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
مزید فرمایا:
﴿کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْا آیَاتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُوْا الْأَلْبَابِ﴾
ص38 :29
ترجمہ
’’یہ ایک بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ پر نازل کیا ہے، تاکہ لوگ اس کی آیات میں غور و فکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں۔‘‘
آج ہمارا حال یہ ہے کہ قیمتی اوقات کا بڑا حصہ:
❀ ٹی وی،
❀ موبائل فون،
❀ سوشل میڈیا،
❀ اور دوستوں کے ساتھ فضول مجلسوں میں ضائع ہوجاتا ہے۔
اگر یہی وقت ہم قرآن کی تلاوت، ترجمہ اور تفسیر پر صرف کریں، تو:
❀ دل کو سکون ملے،
❀ گھر میں رحمت نازل ہو،
❀ رزق میں برکت اور وسعت کا دروازہ کھلے۔
➍ شکرِ باری تعالیٰ
رزق میں برکت کے اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو بھی رزق عطا کرے، کم ہو یا زیادہ، دل سے اس پر شکر ادا کیا جائے، ناشکری نہ کی جائے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ ﴾
إبراہیم14 :7
ترجمہ
’’اور جب تمہارے رب نے اعلان فرما دیا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں (نعمت میں) اور بڑھا دوں گا، اور اگر ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔‘‘
لہٰذا:
جس کے پاس کم ہے، وہ بھی شکر کرے کہ اللہ نے محروم نہیں کیا،
جس کے پاس زیادہ ہے، وہ اور زیادہ جھکے، عاجز بنے، اور اللہ کی نعمتوں کو اسی کی راہ میں استعمال کرے۔
جو بندہ شکر گزار بنتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے:
❀ دل میں سکون،
❀ مال میں برکت،
❀ اور رزق میں اضافہ فرماتا ہے۔
➎ اللہ تعالیٰ پر توکّل
رزق میں برکت کے اہم اسباب میں سے ایک سبب اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ یعنی توکّل ہے۔
توکّل کا مطلب یہ نہیں کہ انسان محنت چھوڑ دے، بلکہ:
❀ انسان رزق کے لیے حلال اور جائز اسباب اختیار کرے،
❀ مگر دل کا بھروسہ ان اسباب پر نہ ہو،
❀ اصل اعتماد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ پر ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( لَوْ أنَّکُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ حَقَّ تَوَکُّلِہٖ لَرَزَقَکُمْ کَمَا یَرْزُقُ الطَّیْرَ ، تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا )
جامع الترمذی : 2344 ، ابن ماجہ : 4164 – وصححہ الألبانی
ترجمہ
’’اگر تم اللہ پر اس طرح بھروسہ کرو جیسا بھروسہ کرنے کا حق ہے تو اللہ تمہیں ایسے رزق دے گا جیسے وہ پرندوں کو دیتا ہے۔ وہ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر لوٹتے ہیں۔‘‘
یہ حدیث ہمیں دو بڑی حقیقتیں سکھاتی ہے:
➊ پرندے محنت کرتے ہیں – صبح نکلتے ہیں، تلاش کرتے ہیں۔
➋ ان کا بھروسہ اللہ پر ہوتا ہے – نتیجہ اللہ کے سپرد۔
جو شخص اس یقین کے ساتھ محنت کرتا ہے کہ رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے، اس کی کمائی میں برکت ضرور آتی ہے۔
➏ دعا – رزق میں برکت کا دروازہ
رزق کی وسعت اور برکت کے لیے دعا کرنا نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ رزق میں برکت کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔
ایک دعا یہ ہے:
( اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ مَدِیْنَتِنَا ، وَفِیْ ثِمَارِنَا ، وَفِیْ مُدِّنَا وَفِیْ صَاعِنَا )
صحیح مسلم : 1373
ترجمہ
’’اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے شہر میں برکت عطا فرما، ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما، اور ہمارے پیمانوں (مدّ و صاع) میں برکت عطا فرما۔‘‘
صحابی کے گھر کھانا تناول فرمانے کے بعد نبی ﷺ نے یوں دعا دی:
( اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَہُمْ فِیْمَا رَزَقْتَہُمْ وَاغْفِرْ لَہُمْ وَارْحَمْہُمْ )
صحیح مسلم : 2042
ترجمہ
’’اے اللہ! تو نے انہیں جو رزق دیا ہے اس میں برکت عطا فرما، اور ان کی مغفرت فرما، اور ان پر رحم فرما۔‘‘
جو بندہ دل سے اللہ سے برکت مانگے، اللہ تعالیٰ اس کی دعا ضرور قبول فرماتا ہے۔
➐ اللہ کے راستے میں خرچ کرنا (صدقہ و خیرات)
رزق میں برکت کے عظیم اسباب میں سے ایک سبب اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَمَا أَنفَقْتُم مِّنْ شَیْْئٍ فَہُوَ یُخْلِفُہُ وَہُوَ خَیْْرُ الرَّازِقِیْنَ ﴾
سبأ34 :39
ترجمہ
’’تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو، اللہ اس کی جگہ اور عطا کر دیتا ہے، اور وہی بہترین رزق دینے والا ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر صبح دو فرشتے نازل ہوتے ہیں:
( اَللّٰہُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا )
’’اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اور عطا فرما۔‘‘
( اَللّٰہُمَّ أَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا )
’’اے اللہ! نہ دینے والے کا مال برباد کر دے۔‘‘
صحیح البخاری :1442، صحیح مسلم :1010
یہ دلیل واضح کرتی ہے کہ:
❀ صدقہ مال کو گھٹاتا نہیں، بڑھاتا ہے۔
❀ مال کی برکت عطا ہوتی ہے۔
❀ خرچ روکنے سے مال کی برکت ختم ہوجاتی ہے۔
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ:
✿ مشکلات دور ہوتی ہیں
✿ بیماریاں ٹلتی ہیں
✿ رزق میں کشادگی پیدا ہوتی ہے
➑ صبح کے وقت رزق حلال کے لیے جدوجہد
صبح کا وقت اللہ کی طرف سے بابرکت وقت ہے۔
اس وقت میں کام کرنے کی برکت خود رسول اللہ ﷺ نے مانگی ہے۔
صخر الغامدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
( اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لِأُمَّتِیْ فِیْ بُکُوْرِہَا )
سنن ابی داود : 2606، جامع الترمذی : 1212 – وصححہ الألبانی
ترجمہ
’’اے اللہ! میری امت کے صبح کے وقت میں برکت عطا فرما۔‘‘
اسی لیے رسول اللہ ﷺ:
❀ لشکر کو دن کے ابتدائی وقت میں روانہ فرماتے،
❀ صحابہ کرام صبح کے وقت کاروبار شروع کرتے،
❀ صخر الغامدیؓ خود تاجر تھے اور صبح ہی اپنا سامان روانہ کرتے، نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے انہیں خوب مالدار بنا دیا۔
جو شخص:
❀ فجر کی نماز باجماعت ادا کرے،
❀ اس کے بعد سُستی کے بجائے دن کا آغاز محنت سے کرے،
تو اللہ تعالیٰ اس کی کمائی میں ظاہر اور باطن دونوں طرح کی برکت عطا فرماتا ہے۔
➒ خرید و فروخت میں سچائی
خرید و فروخت کے تمام معاملات میں سچ بولنا اور چیز کی حقیقت کھول کر بیان کرنا رزق میں زبردست برکت کا سبب ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( فَإِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُوْرِکَ لَہُمَا فِیْ بَیْعِہِمَا ، وَإِنْ کَذَبَا وَکَتَمَا مُحِقَتْ بَرَکَۃُ بَیْعِہِمَا )
صحیح البخاری :1973، صحیح مسلم :1532
ترجمہ
’’اگر بیچنے والا اور خریدار سچ بولیں اور ہر چیز کو کھول کر بیان کریں تو ان کے سودے میں برکت ڈال دی جاتی ہے۔ اور اگر جھوٹ بولیں اور بات چھپائیں تو ان کے سودے کی برکت ختم کر دی جاتی ہے۔‘‘
شراکت داری میں ایمان داری
اگر دو آدمی مل کر کاروبار کریں اور دونوں:
❀ ایک دوسرے کے خیرخواہ،
❀ دیانتدار،
❀ اور خیانت سے پاک ہوں،
تو اللہ تعالیٰ ان کے درمیان تیسرا شریک بن جاتا ہے۔
حدیث:
( أَنَا ثَالِثُ الشَّرِیْکَیْنِ مَا لَمْ یَخُنْ أَحَدُہُمَا صَاحِبَہُ ، فَإِذَا خَانَہُ خَرَجْتُ مِنْ بَیْنِہِمْ )
سنن ابی داود : 3383 – حسنہ الألبانی
ترجمہ
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں دو شریکوں کا تیسرا ہوتا ہوں جب تک ان میں سے کوئی ایک اپنے ساتھی کی خیانت نہ کرے، اور جب خیانت کرتا ہے تو میں درمیان سے نکل جاتا ہوں۔‘‘
جہاں اللہ کی برکت نکل جائے وہاں فائدہ تو دور کی بات، نقصان ہی نقصان ہوتا ہے۔
➓ لالچ سے بچنا
لالچ سب سے بڑی آزمائش ہے جو انسان سے رزق کی برکت چھین لیتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
( مَنْ أَخَذَہُ بِسَخَاوَۃِ نَفْسِہٖ بُوْرِکَ لَہُ فِیْہِ ، وَمَنْ أَخَذَہُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ یُبَارَکْ لَہُ فِیْہِ )
صحیح البخاری :1472، صحیح مسلم :1035
ترجمہ
’’جو شخص مال کو بغیر لالچ کے قبول کرے، اس میں برکت ڈال دی جاتی ہے، اور جو مال کو لالچ سے لے وہ اس شخص کی مانند ہوتا ہے جو کھاتا تو ہے مگر پیٹ نہیں بھرتا۔‘‘
لالچ کے دین پر تباہ کن اثرات کو واضح کرتے ہوئے نبی ﷺ نے فرمایا:
( مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ … مِنْ حِرْصِ الْمَرْئِ عَلَی الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِیْنِہِ )
جامع الترمذی : 2376 – صحیح
ترجمہ
’’دو بھوکے بھیڑیے بکریوں کے ریوڑ کو جتنا نقصان پہنچا سکتے ہیں، اس سے زیادہ نقصان انسان کے دین کو مال اور جاہ و منصب کی لالچ پہنچاتا ہے۔‘‘
لہٰذا:
❀ جو کچھ اللہ دے اسے خوش دلی سے قبول کرنا،
❀ زیادہ کے حریص نہ بننا،
❀ اور اپنی حیثیت کے مطابق زندگی گزارنا
رزق کی برکت کے بنیادی اصول ہیں۔