رزقِ حلال کی اہمیت اور حرام کمائی کے نقصانات
ماخذ: خطبات حافظ محمد اسحاق زاہد، مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

ابتدائیہ: اس مضمون میں ہم قرآنی نصوص، صحیح احادیث اور سلفِ صالحین کے آثار کی روشنی میں یہ واضح کریں گے کہ رزق دینے والا صرف اللہ ہے، اسی کے پاس خزانوں کی کنجیاں ہیں، اور اسی لیے بندے پر لازم ہے کہ وہ رزق صرف حلال طریقوں سے تلاش کرے۔ مضمون میں رزق کے عقیدۂ توحید سے تعلق، طلبِ معاش کی مشروعیت، اپنے ہاتھ کی کمائی کی فضیلت، اور “رزقِ حلال کیوں” کے بنیادی جوابات بالتفصیل پیش کیے جائیں گے؛ ساتھ ہی ناجائز کمائی کے مفاسد پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔

عقیدۂ رزق: رازق صرف اللہ

◈ پہلی بنیاد یہ ہے کہ اللہ ہی “رزّاق” ہے؛ کسی اور کے پاس رزق دینے کا اختیار نہیں۔

﴿مَآ اُرِیْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ٭ اِِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ ﴾ [ الذاریات : ۵۷ ۔۵۸]
’’ میں ان سے رزق نہیں چاہتا اور نہ ہی یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں ۔ اللہ تعالی تو خود ہی رزاق ہے۔ بڑی قوت والا اور زبردست ہے ۔ ‘‘

﴿ وَمَا مِن دَآبَّۃٍ فِیْ الأَرْضِ إِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا ﴾ [ ہود : ۶]
’’ زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔ ‘‘

﴿وَفِیْ السَّمَائِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوعَدُونَ ﴾ [ الذایات : ۲۲]
’’ آسمان میں تمھارا رزق ہے اور وہ بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے ۔‘‘

﴿ اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ ثُمَّ رَزَقَکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ہَلْ مِن شُرَکَائِکُم مَّن یَفْعَلُ مِن ذَلِکُم مِّن شَیْْئٍ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یُشْرِکُونَ ﴾ [ الروم : ۴۰]
“اللہ ہی وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر تمہیں رزق دیا، پھر وہی تمہیں موت دے گا، اور پھر وہی تمہیں زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کچھ کر سکے؟ وہ پاک اور بلند ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔”

نتیجہ: رزق کے تمام اختیارات اللہ وحدہٗ کے پاس ہیں؛ اسی پر توکل اور اسی سے سوال لازم ہے۔

خزانوں کی کنجیاں اللہ کے پاس

﴿وَإِن مِّن شَیْْئٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُہُ وَمَا نُنَزِّلُہُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ ﴾ [ الحجر : ۲۱]
’’ کوئی بھی ایسی چیز نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں ۔ اور اسے ہم ایک معلوم مقدار کے مطابق ہی نازل کرتے ہیں ۔‘‘

لہٰذا رزق کا سوال صرف اللہ سے ہو؛ غیر اللہ سے رزق مانگنا باطل ہے:

﴿إِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِِ اللّٰہِ لَا یَمْلِکُونَ لَکُمْ رِزْقاً فَابْتَغُوا عِندَ اللّٰہِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوہُ وَاشْکُرُوا لَہُ إِلَیْْہِ تُرْجَعُونَ ﴾ [العنکبوت : ۱۷]
“بیشک جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو وہ تمہارے لیے رزق کے مالک نہیں ہیں، پس تم اللہ ہی سے رزق طلب کرو، اور اسی کی عبادت کرو، اور اسی کا شکر ادا کرو، تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔”

رزق کے لیے جدوجہد: دن معاش کے لیے

◈ اللہ نے دن کو معاش اور رات کو راحت کے لیے بنایا:

﴿وَّجَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًا ٭ وَّجَعَلْنَا النَّہَارَ مَعَاشًا ﴾ [النبأ:۱۱۔۱۲]
“اور ہم نے رات کو (آرام اور پردہ) کا لباس بنایا، اور دن کو روزی کمانے کا وقت بنایا۔”

﴿ وَ مِنْ رَّحْمَتِہٖ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ وَ النَّھَارَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ﴾ [القصص 28: 73]
“اور اسی کی رحمت سے اس نے تمہارے لیے رات اور دن بنائے، تاکہ تم رات میں سکون حاصل کرو، اور دن میں اس کے فضل (یعنی روزی) کو تلاش کرو، اور تاکہ تم شکر ادا کرو۔”

◈ زمین کو مسخر کیا گیا تاکہ بندہ حلال رزق تلاش کرے:

﴿ ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِہَا وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِہٖ وَاِِلَیْہِ النُّشُوْرُ﴾ [الملک: 15 ]
“وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو نرم اور تابع بنا دیا، پس اس کے راستوں میں چلو پھرو، اور اس کا رزق کھاؤ، اور (یاد رکھو) تمہیں اسی کی طرف دوبارہ اٹھایا جانا ہے۔”

﴿فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ [الجمعۃ: 10]
“پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کے فضل (یعنی روزی) کو تلاش کرو، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، تاکہ تم فلاح پاؤ (کامیاب ہو جاؤ)۔”

اپنے ہاتھ کی کمائی کی فضیلت

"مَا أَكَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ، وَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ كَانَ يَأْكُلُ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ.” [البخاری: ۲۰۷۲]
“کسی شخص نے کبھی ایسا کھانا نہیں کھایا جو اس کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر ہو۔ اور یقیناً اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔”

( إِنَّ أَطْیَبَ مَا أَکَلْتُمْ مِّنْ کَسْبِکُمْ ) [ترمذی: ۱۳۵۸، ابن ماجہ: ۲۲۹۰]
“بیشک تمہارا سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جو تم اپنی کمائی سے کھاتے ہو۔”

"لَأَنْ يَحْتَطِبَ أَحَدُكُمْ حُزْمَةً عَلَى ظَهْرِهِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ أَحَدًا فَيُعْطِيَهُ أَوْ يَمْنَعَهُ.” [البخاری: ۲۰۷۴]
“تم میں سے کسی کا لکڑیوں کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لانا (اور محنت مزدوری کر کے روزی حاصل کرنا) اس کے لیے بہتر ہے بجائے اس کے کہ وہ کسی سے مانگے — چاہے وہ اسے دے یا انکار کر دے۔”

فکری نکتہ: سوال و دستِ سوال دراز کرنے سے بہتر محنت ہے، اور حلال کسب ہی عزت و قبولیّت کا راستہ ہے۔

“رزقِ حلال ہی آخر کیوں؟” — قرآنی ہدایت

◈ حکمِ عام:

﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴾ [البقرۃ: 168]
“اے لوگو! زمین میں موجود چیزوں میں سے حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ، اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔”

◈ اہلِ ایمان کے لیے خصوصی خطاب:

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ﴾ [البقرۃ: 172]
“اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں رزق کے طور پر دی ہیں، ان میں سے کھاؤ، اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔”

نتیجہ: “حلال” (جائز طریقوں سے حاصل) اور “طیّب” (پاکیزہ) ہی قابلِ استعمال ہے؛ ناجائز ذرائع سے کمائی ہوئی اشیاء حرام ہیں۔

زمانۂ فتن: حلال و حرام سے بے پروائی

( لَیَأْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یُبَالِی الْمَرْئُ بِمَا أَخَذَ الْمَالَ ، أَمِنْ حَلَالٍ أَمْ مِّنْ حَرَامٍ) [البخاری: ۲۰۵۹، ۲۰۸۳]
“لوگوں پر ایک زمانہ ایسا ضرور آئے گا کہ انسان کو اس کی پروا نہیں رہے گی کہ وہ مال کہاں سے حاصل کر رہا ہے — حلال سے یا حرام سے۔”

آج اسی پیشین گوئی کی جھلک عام ہے؛ اس لیے تنبیہ اور تعلیمِ حلال ناگزیر ہے۔

رزقِ حلال کی ضرورت: مزید اسباب و دلائل

1 آخرت کا محاسبہ—مال کہاں سے اور کہاں خرچ کیا؟

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لَا تَزُوْلُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عِنْدِ رَبّہٖ حَتّٰی یُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ : عَنْ عُمُرِہٖ فِیْمَ أَفْنَاہُ ، وَعَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَ أَبْلاہُ ، وَ مَالِہٖ مِنْ أَیْنَ اکْتَسَبَہُ وَفِیْمَ أَنْفَقَہُ ، وَ مَاذَا عَمِلَ فِیْمَا عَلِمَ ) [ ترمذی : ۲۴۱۶ ۔ وصححہ الألبانی ]
[قیامت کے دن آدمی کے قدم اپنے رب کے سامنے سے اس وقت تک نہیں ہٹ سکیں گے جب تک اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں — کہاں گزاری؟اس کی جوانی کے بارے میں — کہاں کھپائی؟اس کے مال کے بارے میں — کہاں سے کمایا؟اور کہاں خرچ کیا؟اور اس نے اپنے علم پر کیا عمل کیا؟]

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ کمائی کا ذریعہ اور خرچ کا محل دونوں اللہ کے سامنے جواب طلب ہیں۔

2 حرام کمائی دعا کی قبولیت میں رکاوٹ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
( یَا أَیُّہَا النَّاسُ، إِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ وَلاَ یَقْبَلُ إِلَّا طَیِّبًا) [مسلم: ۱۰۱۴ ]
“اے لوگو! بے شک اللہ پاک ہے، اور وہ صرف پاکیزہ (چیزوں اور اعمال) ہی کو قبول کرتا ہے۔”

پھر آپ نے اس مسافر کی مثال دی جو سفر کی مشقت زدہ حالت میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے جبکہ “اس کا کھانا، پینا، لباس حرام سے” اور “جسم کی پرورش حرام” سے ہو—ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہو!

حرام کمائی ایک سنگین جرم

باطل طریقوں سے مال کھانا ممنوع

﴿ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ﴾ [ النساء : ۲۹]
“اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق (ناجائز طریقے سے) مت کھاؤ، مگر یہ کہ وہ باہمی رضا مندی سے کی جانے والی تجارت ہو۔”

﴿ وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ [ البقرۃ : ۱۸۸]
“اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے مت کھاؤ، اور نہ ہی (رشوت یا جھوٹے دلائل دے کر) اسے حاکموں تک پہنچاؤتاکہ تم گناہ کے ساتھ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناحق طور پر کھا جاؤ، حالانکہ تم (اس بات کو) جانتے ہو۔”

ان آیات کے تحت ہر ناجائز طریقہ—چوری، غصب، دھوکا و فریب، ڈاکہ زنی، سود، امانت میں خیانت، جوا، اور حرام تجارت—سب شامل ہیں۔ خاص طور پر رشوت کے ذریعے فیصلے اپنے حق میں کروانا شدید گناہ ہے۔

حرام کمائی کی نمایاں صورتیں

① چوری کرنا

﴿ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴾[ المائدۃ : ۳۸]
“اور چور مرد اور چور عورت — دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، یہ ان کے کیے کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا ہے، اور اللہ زبردست اور حکمت والا ہے۔”

سزا کی شدت بتاتی ہے کہ دوسروں کے مال کی حرمت کتنی عظیم ہے۔ معمولی اشیاء کی چوری بھی چوری ہے:
"لَعَنَ اللَّهُ السَّارِقَ، يَسْرِقُ الْبَيْضَةَ فَتُقْطَعُ يَدُهُ، وَيَسْرِقُ الْحَبْلَ فَتُقْطَعُ يَدُهُ.” [ البخاری : ۶۷۸۳ ، مسلم : ۱۶۸۷ ]
“اللہ چور پر لعنت کرے، وہ انڈا چرا لیتا ہے اور اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے، اور رسی چرا لیتا ہے اور اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔”

② ڈاکہ زنی

راہزنی اور مسلح لوٹ مار “زمین میں فساد” ہے، اس کی سزا قرآن نے بیان کی:
﴿ إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴾ [ المائدۃ : ۳۳]
“جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی سزا یہی ہے کہ انہیں قتل کیا جائے، یا سولی پر لٹکایا جائے، یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیے جائیں، یا زمین سے جلا وطن کر دیے جائیں۔ یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے، اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔”

③ جوا کھیلنا اور قرعہ اندازی پر رزق

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ [ المائدۃ : ۹۰]
“اے ایمان والو! شراب، جُوا، بت (جن پر قربانیاں کی جاتی ہیں)، اور فال نکالنے والے تیر — یہ سب ناپاک چیزیں ہیں، شیطان کے کاموں میں سے ہیں۔ پس ان سے بچو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔”

المَیْسِر میں وہ تمام صورتیں شامل ہیں جہاں یکساں رقم لگا کر بعض کو ملے اور بعض کو نہ ملے—انعامی بانڈز، ریفل کوپن، بعض انشورنس صورتیں، نمبروں کی قرعہ اندازی وغیرہ—یہ سب جوا کے دائرے میں آتی ہیں۔

④ سودی لین دین

ایمان والوں کو صریح حکم:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ﴿٢٧٩﴾ ﴾ [البقرۃ : ۲۷۸۔۲۷۹]
“اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود میں باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم سچے مومن ہو۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو۔ اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لیے تمہارے اصل سرمائے ہیں — نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔”

سود کے تاریخی پس منظر میں “اصل پر اضافہ” کی مسلسل توسیع بدترین ظلم تھی؛ اسلام نے اسے قطعی حرام قرار دیا:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ [ آل عمران : ۱۳۰ ]
“اے ایمان والو! سود کو دوگنا، چوگنا کر کے مت کھاؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔”

سود کی شناعت احادیث میں

(اَلرِّبَا سَبْعُونَ حُوبًا، أَيْسَرُهُمَا أَنْ يَنْكِحَ الرَّجُلُ أُمَّهُ) [ ابن ماجہ : ۲۲۷۴]
“سود کے ستر (70) گناہ ہیں، ان میں سب سے ہلکا یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے۔”

(اَلرِّبَا اِثْنَانِ وَسَبْعُونَ بَابًا، أَدْنَاهَا مِثْلُ أَنْ يَنْكِحَ الرَّجُلُ أُمَّهُ) [ الطبرانی… صحیح الجامع: ۳۵۳۷ ]
“سود کے بہتر (72) درجے ہیں، اور اس کا سب سے ہلکا درجہ ایسا ہے جیسے آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔”

(دِرْهَمُ رِبًا يَأْكُلُهُ الرَّجُلُ، وَهُوَ يَعْلَمُ، أَشَدُّ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ سِتٍّ وَثَلَاثِينَ زَنْيَةً) [ السلسلۃ الصحیحۃ : ۱۰۳۳ ]
“جو شخص جان بوجھ کر ایک درہم سود کھاتا ہے، وہ اللہ کے نزدیک چھتیس (36) مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ سخت (گناہ) ہے۔”

(لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ آكِلَ الرِّبَا، وَمُوكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ، وَقَالَ: هُمْ سَوَاءٌ) [ مسلم : ۱۵۹۸ ]
“رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے پر، سود دینے والے پر، اس کا حساب لکھنے والے پر، اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی، اور فرمایا: یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔”

مال بڑھتا نہیں، مٹتا ہے

﴿ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَا فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ ۖ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ ﴾ [ الروم : ۳۹ ]
“اور جو تم سود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں اضافہ حاصل کرو، تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا۔ اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی رضا چاہتے ہوئے دیتے ہو، تو ایسے ہی لوگ (اللہ کے ہاں) اپنے اجر کو کئی گنا بڑھا لینے والے ہیں۔”

﴿ يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ ﴾ [ البقرۃ : ۲۷۶ ]
“اللہ سود کو مٹا دیتا ہے (اس کی برکت ختم کر دیتا ہے)، اور صدقات کو بڑھاتا ہے (ان میں برکت عطا کرتا ہے)، اور اللہ کسی ناشکرے، گناہ گار کو پسند نہیں کرتا۔”

(مَا أَحَدٌ أَكْثَرَ مِنَ الرِّبَا إِلَّا كَانَ عَاقِبَةُ أَمْرِهِ إِلَى قِلَّةٍ) [ ابن ماجہ : ۲۲۷۹]
“جو کوئی سود میں زیادہ کمائی کرتا ہے، اس کا انجام آخرکار کمی اور تباہی پر ہی ہوتا ہے۔”

قیامت کا حال

﴿ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴾[البقرۃ: 275]
“جو لوگ سود کھاتے ہیں، وہ (قیامت کے دن) اس طرح کھڑے ہوں گے جیسے وہ شخص جسے شیطان نے چھو کر دیوانہ بنا دیا ہو۔ یہ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں: ‘تجارت بھی تو سود جیسی ہی ہے۔’ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ پس جس کے پاس اس کے رب کی نصیحت پہنچ گئی اور وہ باز آ گیا، تو جو کچھ پہلے ہو چکا وہ اس کے لیے ہے، اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اور جو پھر لوٹا (سود کی طرف)، تو وہی لوگ دوزخی ہیں — وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔”

سود کو تجارت کے مثل سمجھنا گمراہی ہے؛ حلال تجارت ہے، سود حرام—نصیحت کے بعد لوٹنے والا جہنمی ہے۔

حرام کمائی کی مزید صورتیں

⑤ جھوٹی قسم اٹھا کر مال ہتھیانا

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( مَنْ حَلَفَ عَلیٰ یَمِیْنٍ فَاجِرَۃٍ لِیَقْتَطِعَ بِہَا مَالَ امْرِیئٍ مُسْلِمٍ لَقِیَ اللّٰہَ وَہُوَ عَلَیْہِ غَضْبَان ) [ متفق علیہ ]
’’ جو شخص جھوٹی قسم اٹھا کر کسی مسلمان کے مال پر قبضہ کرے، وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضبناک ہوگا۔ ‘‘

یہ حدیث ان لوگوں کے لیے سخت تنبیہ ہے جو لین دین، مقدمات یا کاروباری جھگڑوں میں جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں تاکہ دوسروں کا حق دبا سکیں۔

⑥ ماپ تول میں کمی کرنا

﴿وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ ٭ الَّذِیْنَ اِِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ ٭ وَاِِذَا کَالُوْہُمْ اَوْ وَّزَنُوْہُمْ یُخْسِرُوْنَ ﴾ [المطففین:۱۔۳]

’’ تباہی ہے ماپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے، جو جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں، مگر جب انھیں ناپ کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔ ‘‘

رسول ﷺ نے فرمایا:
( وَلَمْ یَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ إِلَّا أُخِذُوْا بِالسِّنِیْنَ وَشِدَّۃِ الْمَؤنَۃِ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَیْہِمْ ) [ ابن ماجہ: ۴۰۱۹ ]
’’ جب کوئی قوم ماپ تول میں کمی کرتی ہے تو اسے قحط سالی، مہنگائی اور حکمرانوں کے ظلم میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ ‘‘

⑦ کاروبار میں دھوکہ اور ملاوٹ

ایک موقع پر نبی ﷺ نے غلے کے ڈھیر میں ہاتھ ڈالا، اندر سے نمی محسوس کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
( أَفَلَا جَعَلْتَہُ فَوْقَ الطَّعَامِ کَیْ یَرَاہُ النَّاسُ ! مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّی ) [ مسلم: ۱۰۲ ]
’’ تم نے تر حصہ اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لوگ دیکھ سکیں؟ یاد رکھو! جو دھوکہ دیتا ہے، وہ مجھ سے نہیں۔ ‘‘

ملاوٹ، جھوٹے لیبل، جعلی دوائیں، ناقص سامان بیچنا، سب اسی غشّ کے ذیل میں آتے ہیں۔

⑧ رشوت لینا اور دینا

رشوت کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
( لَعَنَ اللّٰہُ الرَّاشِیَ وَالْمُرْتَشِیَ وَالرَّائِشَ بَیْنَہُمَا ) [ ابوداؤد: ۳۵۸۰ ]
’’ اللہ کی لعنت ہو رشوت دینے والے پر، لینے والے پر، اور ان دونوں کے درمیان معاملہ طے کروانے والے پر۔ ‘‘

اگر کوئی شخص ظلم سے بچنے یا اپنا حق حاصل کرنے کے لیے مجبوری میں رشوت دیتا ہے تو گناہ لینے والے اور معاملہ طے کرانے والے پر ہوگا، دینے والے پر نہیں۔
[ عون المعبود، ج۹، ص۳۵۹ ]

⑨ حرام اشیاء کا کاروبار

❀ سگریٹ، شراب، منشیات، موسیقی، فلمی مواد اور تمام منکرات کی تجارت حرام ہے۔
❀ اسی طرح حرام جانوروں اور ان کے اجزاء کی خرید و فروخت بھی ناجائز ہے۔
❀ بدنظری اور بے حیائی پر مبنی پیشے، جیسے فحش منافع یا ناجائز تفریحی ذرائع سے کمائی بھی حرام ہے۔

حضرت ابو مسعود انصاریؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
( نَهَى رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَمَهْرِ الْبَغِيِّ وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ ) [ البخاری: ۲۲۳۷، مسلم: ۱۵۶۷ ]
’’ نبی ﷺ نے کتے کی قیمت، زانیہ کی کمائی، اور نجومی کی اجرت سے منع فرمایا۔ ‘‘

البتہ شکاری کتے کی اجازت ہے۔ [ ترمذی: ۱۲۸۱ ]

⑩ یتیموں کا مال ہڑپ کرنا

﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا ﴾ [النساء: 10]
’’ جو لوگ ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں اور جلد ہی بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گے۔ ‘‘

یہ فعل ان “سات ہلاک کرنے والے گناہوں” میں سے ہے جن سے نبی ﷺ نے سختی سے روکا ہے۔

⑪ امانت میں خیانت

﴿ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴾ [آل عمران: 161]
“اور جو شخص خیانت کرے گا، وہ قیامت کے دن وہی چیز لے کر آئے گا جس میں اس نے خیانت کی تھی۔ پھر ہر شخص کو اس کے کیے کا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور ان پر کچھ ظلم نہیں کیا جائے گا۔”

جو خیانت کرے گا، قیامت کے دن وہی چیز لے کر حاضر ہوگا جس میں خیانت کی تھی۔

رسول ﷺ نے فرمایا:
( أَیُّمَا رَجُلٍ اِسْتَعْمَلْنَاہُ عَلٰی عَمَلٍ فَکَتَمَنَا مِخْیَطًا فَمَا فَوْقَہُ کَانَ غَلُوْلًا یَأْتِی بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ) [ مسلم : ۱۸۷ ]
“جس شخص کو ہم کسی کام پر مقرر کریں، پھر وہ ہم سے کوئی چیز چھپائے — خواہ وہ سوئی ہی کیوں نہ ہو — تو وہ خیانت (غُلول) ہے، اور وہ قیامت کے دن وہی چیز لے کر آئے گا (جس میں اس نے خیانت کی تھی)۔”

خیانت میں صرف مالی امانت ہی نہیں بلکہ راز، عہد، منصب، اور اعتماد بھی شامل ہیں۔ ملازمت میں وقت یا وسائل کا ناجائز استعمال بھی خیانت ہے۔

⑫ قرض لے کر واپس نہ لوٹانا

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
( أَیُّمَا رَجُلٍ یَدِیْنُ دَیْنًا وَہُوَ مُجْمِعٌ أَن لَّا یُوْفِیَہُ إِیَّاہُ ، لَقِیَ اللّٰہَ سَارِقًا ) [ ابن ماجہ : ۲۴۱۰ ]
“جو شخص قرض لیتا ہے اور نیت یہ رکھتا ہے کہ وہ اسے ادا نہیں کرے گا، تو وہ اللہ سے (قیامت کے دن) چور کی حالت میں ملے گا۔”

اور فرمایا:
( مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ یُرِیْدُ أَدَائَہَا أَدَّی اللّٰہُ عَنْہُ ، وَمَنْ أَخَذَ یُرِیْدُ إِتْلَافَہَا أَتْلَفَہُ اللّٰہُ ) [ البخاری :۲۳۸۷ ]
“جو شخص لوگوں کا مال اس نیت سے لیتا ہے کہ وہ اسے واپس کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے (ادا کرنے میں) مدد فرماتا ہے۔ اور جو شخص لوگوں کا مال اس نیت سے لیتا ہے کہ وہ اسے ضائع کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے تباہ و برباد کر دیتا ہے۔”

یہی وجہ ہے کہ قرض دار شخص کے لیے نبی ﷺ خود نمازِ جنازہ سے پیچھے ہٹ جاتے تھے جب تک کہ اس کا قرض ادا کرنے کا ذمہ دار نہ ہوتا۔

حدیث:
( وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ أَنَّ رَجُلًا قُتِلَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ… مَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یُقْضٰی عَنْہُ دَیْنُہُ ) [ النسائی : ۴۶۸۴ ]
“قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر کوئی شخص اللہ کی راہ میں شہید کر دیا جائے، پھر زندہ کیا جائے، پھر دوبارہ شہید کیا جائے، پھر زندہ کیا جائے اور تیسری بار شہید کیا جائے — اور اس پر قرض باقی ہو، تو وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا جب تک اس کا قرض ادا نہ کر دیا جائے۔”

یہ تمام مثالیں بتاتی ہیں کہ حرام کمائی کے ذرائع نہ صرف دنیا میں نقصان دہ ہیں بلکہ آخرت کی بربادی کا سبب بھی ہیں۔

حرام کمائی کے نتائج اور تباہ کن اثرات

اللہ کا حکم اور اس کی حکمت

اللہ تعالیٰ نے ہمیں واضح طور پر حلال کھانے اور حلال کمانے کا حکم دیا ہے، تاکہ انسان کا جسم، روح، عبادت، اور اخلاق سب پاکیزہ رہیں۔ اس کے برعکس حرام کمائی انسان کی زندگی کے ہر پہلو میں نحوست اور بربادی لاتی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

( إِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ إِلَّا طَیِّبًا ) [ مسلم: ۱۰۱۵ ]
’’ بے شک اللہ پاک ہے اور وہ صرف پاک چیز کو ہی قبول کرتا ہے۔ ‘‘

اس لیے نہ عبادت مقبول ہوتی ہے، نہ دعا، نہ صدقہ — اگر حرام کمائی شامل ہو۔

 حرام کمائی کے اسباب

❶ خوفِ الٰہی کا فقدان

حرام کمائی کے بڑھنے کی پہلی اور سب سے بڑی وجہ خوفِ خدا کا ختم ہوجانا ہے۔
اگر دل میں تقویٰ ہو، تو بندہ ماپ تول میں کمی نہیں کرتا، سود نہیں لیتا، رشوت نہیں مانگتا، جھوٹ نہیں بولتا، اور خیانت نہیں کرتا۔

✿ اگر خوفِ الٰہی ہوتا تو سودی کاروبار نہ چلتا۔
✿ اگر خوف ہوتا تو دھوکہ اور ملاوٹ عام نہ ہوتے۔
✿ اگر خوف ہوتا تو رشوت، جھوٹی قسمیں، چوری اور جوا ختم ہو جاتے۔
✿ اگر خوف ہوتا تو یتیموں کا مال کوئی نہ کھاتا۔

لیکن آج دلوں سے خشیتِ الٰہی مٹ چکی ہے۔ لوگ کہتے ہیں:

"سب کرتے ہیں تو ہم کیوں نہ کریں!”

یہی جملہ گمراہی کا دروازہ ہے۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ بندہ دل میں اللہ کا خوف زندہ کرے اور رزقِ حرام کے تمام راستے بند کر دے۔

❷ راتوں رات مالدار بننے کی خواہش

حرام ذرائع کی دوسری بڑی جڑ یہ ہے کہ لوگ جلد امیر بننا چاہتے ہیں۔
اسلام نے صبر، محنت، اور تدریج سے رزق حاصل کرنے کی تعلیم دی، لیکن آج بہت سے لوگ تاخیرِ رزق برداشت نہیں کرتے اور ناجائز ذرائع اختیار کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَّعِیْشَتَہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ﴾ [ الزخرف : ۳۲ ]
’’ ہم نے دنیاوی زندگی میں ان کی روزی کو خود ان کے درمیان تقسیم کر دی ہے۔ ‘‘

اور فرمایا:

﴿ اَللّٰہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ یَقْدِرُ لَہٗ ﴾ [العنکبوت: 62]
’’ اللہ جسے چاہے کشادگی دیتا ہے اور جسے چاہے تنگ روزی دیتا ہے۔ ‘‘

لہٰذا بندہ راضی رہے، قناعت اختیار کرے، اور اللہ کے فیصلے پر اعتماد کرے۔ رزق حلال محنت سے حاصل ہو گا، نہ کہ حرام راستوں سے۔

نبی ﷺ کی نصیحت

( إِنَّ جِبْرِیْلَ أَلْقٰی فِی رَوْعِی أَنَّ أَحَدًا مِّنْکُمْ لَن یَّخْرُجَ مِنَ الدُّنْیَا حَتّٰی یَسْتَکْمِلَ رِزْقَہُ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَأَجْمِلُوْا فِی الطَّلَبِ … ) [ السلسلۃ الصحیحۃ للألبانی: ۲۶۰۷ ]
’’ جبرئیل علیہ السلام نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم میں سے کوئی دنیا سے نہیں جائے گا جب تک اپنا پورا رزق مکمل نہ کرلے۔ لہٰذا اللہ سے ڈرو اور رزق کو اچھے (یعنی حلال) طریقے سے طلب کرو۔ ‘‘

حدیث کے آخر میں فرمایا گیا:
( خُذُوْا مَا حَلَّ وَدَعُوْا مَا حَرَّمَ ) [ ابن ماجہ : ۲۱۴۴ ]
’’ وہی لو جو حلال ہے اور حرام کو چھوڑ دو۔ ‘‘

❸ حرام خوری کی سنگینی سے غفلت

بہت سے لوگ حرام مال کھاتے ہیں مگر سمجھتے نہیں کہ وہ کتنا سنگین جرم کر رہے ہیں۔
نبی ﷺ نے فرمایا:

( إِنَّہُ لَا یَرْبُو لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ إِلَّا کَانَتِ النَّارُ أَوْلٰی بِہِ ) [ ترمذی: ۶۱۴ ]
’’ وہ گوشت جو حرام کھانے سے پیدا ہوا ہو، وہ جہنم کی آگ کے زیادہ لائق ہے۔ ‘‘

سلفِ صالحین کی مثال:

حضرت ابوبکر صدیقؓ کا واقعہ مشہور ہے کہ جب ایک غلام ان کے لیے کھانا لایا، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ جاہلیت میں جھوٹے کہانت کے بدلے میں لیا گیا مال تھا، تو فوراً آپؓ نے اپنا ہاتھ حلق میں ڈال کر الٹی کر دی اور سارا کھانا باہر نکال دیا۔ [ البخاری : ۳۸۴۲ ]
یہ ہے تقویٰ اور حلال و حرام کی حساسیت۔

❹ طمع و لالچ

لالچ انسان کو اندھا کر دیتی ہے؛ پھر وہ نہیں دیکھتا کہ راستہ حلال ہے یا حرام۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

( مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِی غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَہَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْئِ عَلَی الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِیْنِہِ ) [ ترمذی : ۲۳۷۶ ]
’’ دو بھوکے بھیڑیے اگر بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیے جائیں، تو وہ اتنی خرابی نہیں کرتے جتنی خرابی مال اور شہرت کی لالچ انسان کے دین میں کر دیتی ہے۔ ‘‘

لالچ دین کو کھا جاتی ہے، ایمان کو کمزور کرتی ہے، اور انسان کو حرام راستوں کی طرف دھکیل دیتی ہے۔

 حاصلِ کلام

❀ رزق دینے والا صرف اللہ ہے؛ اس کے سوا کوئی نہیں۔
❀ رزق کے حصول کا حکم محنت و جدوجہد کے ساتھ ہے، لیکن صرف جائز ذرائع سے۔
❀ حرام کمائی عبادت، دعا، اخلاق اور معاشرت، سب کو برباد کرتی ہے۔
❀ حرام طریقوں سے حاصل کیا گیا مال خواہ کتنا بھی زیادہ ہو، برکت اور سکون سے خالی ہوتا ہے۔
❀ حلال کمائی عزت، برکت اور آخرت کی نجات کا ذریعہ ہے۔

نتیجہ

مسلمان کو چاہیے کہ وہ ہر حال میں رزقِ حلال پر قناعت کرے،
اور اپنے معاملات میں تقویٰ، دیانت، اور امانت کو لازم پکڑے۔
سود، رشوت، جھوٹ، خیانت، اور ناجائز ذرائع کو ترک کرے،
تاکہ دنیا میں برکت اور آخرت میں نجات نصیب ہو۔

نبی ﷺ نے فرمایا:
( الطَّیِّبُ مِنَ الرِّزْقِ نِعْمَ الْمَعِینُ عَلَی الدِّینِ )
’’ پاکیزہ رزق دین کے لیے بہترین مددگار ہے۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ ہمیں حلال روزی عطا فرمائے، حرام ذرائع سے محفوظ رکھے، اور ہمارے رزق میں برکت دے۔
آمین یا رب العالمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے