سوال
کیا اللہ کے رحمن اور رحیم ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ تخلیق نہ کی جاتی یا انسانوں کو امتحان میں نہ ڈالا جاتا؟ کیونکہ آخر کار، اس کا نتیجہ ناکامی کی صورت میں انسان کو بھگتنا پڑے گا، خدا کو نہیں۔
تبصرہ
اس سوال کے تین اہم پہلو ہیں:
- امتحان کا مقصد کیا ہے؟
- رحمت کے تصور کا تقاضا کیا ہے؟
- انسان کے انجام کا خدا سے کیا تعلق ہے؟
ان تین پہلوؤں پر مختصراً بات کی جائے گی۔
1. امتحان کا مقصد
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اللہ کی صفات کو بیان کرنے کا مقصد صرف ان کا ذکر کرنا نہیں، بلکہ کائنات اور انسانوں کے ساتھ ان کا تعلق واضح کرنا ہے۔ امتحان لینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی بہت سی صفات (جیسے حق، عادل، غفور، منتقم وغیرہ) کا اظہار ہو۔ حق اور باطل کی کشمکش بھی انہی صفات کا اظہار ہے۔
2. رحمت کا تقاضا
اللہ تعالیٰ صرف رحمن ہی نہیں، بلکہ حق اور عادل بھی ہے۔ اگر ہم صرف اللہ کی صفت رحمت کو بنیاد بنا کر اس کے فیصلوں کا جائزہ لیں، تو ہم اللہ کی دیگر تمام صفات کو نظرانداز کر دیں گے۔ یہ طریقہ خدا کی بیان کردہ صفات کے خلاف ہے۔
رحمت کا مطلب ہر حال میں امتحان نہ لینا نہیں ہو سکتا۔ بلکہ امتحان کے ذریعے کامیابی کا احساس، نعمتوں کا استحقاق اور دوسروں پر سبقت لے جانے کا موقع ملتا ہے، جو بغیر امتحان کے ممکن نہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ رحمت کا تقاضا امتحان نہ لینا ہے، غلط ہے۔
استاد کی مثال لیجیے کہ اگر وہ کمرۂ امتحان میں طالب علم کو خود جواب لکھوا دے، تو یہ رحمت نہیں بلکہ ایک غلط اقدام تصور کیا جائے گا۔
3. انسان اور اس کے انجام کا تعلق
اللہ تعالیٰ عادل ہے اور انسان کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اعمال کے مطابق جزا یا سزا پائے۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آخرت میں انسان اپنے کیے کا بدلہ پائے گا، جس میں اس کی مرضی اور اختیار کا بھی عمل دخل ہوگا۔
جہاں تک جبر و قدر کی بحث ہے، اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ خدا کی مشیت اور علم کا اس کے عدل کے ساتھ تعلق ایک پیچیدہ سوال ہے، جو عقل کی گرفت میں مکمل طور پر نہیں آ سکتا۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ خدا کو صرف اتنا ہی سمجھا جا سکتا ہے جتنا اس نے خود بتایا ہے۔
نتیجہ
اعتراض اٹھانا کہ خدا ایسا کیوں کر رہا ہے، خدا کی صمدیت (بے نیاز ہونے) کا انکار کرنا ہے۔ یہ خدا کی ذات پر "کیوں” کا سوال اٹھانا غیر عقلی ہے۔