"رجم کی حد – اہل سنت والجماعت کا اجماعی حکم اور حدیثی ثبوت”
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال :

رجم کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟

جواب :

شادی شدہ آدمی یا عورت زنا کرے، تو اسے رجم کیا جائے گا، رجم کی حد برحق ہے، کتاب و سنت اور اجماع امت اس پر دال ہیں، یہ اہل سنت والجماعت کا اجماعی واتفاقی مذہب ہے ، خوارج وغیرہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
❀ سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
كنا عند النبى صلى الله عليه وسلم، فقام رجل، فقال : أنشدك الله! إلا قضيت بيننا بكتاب الله، فقام خصمه، وكان أفقه منه، فقال : اقض بيننا بكتاب الله وأذن لي؟ قال : قل، قال : إن ابني كان عسيفا على هذا، فزنى بامرأته، فافتديت منه بمائة شاة وخادم ، ثم سألت رجالا من أهل العلم، فأخبروني أن على ابني جلد مائة وتغريب عام، وعلى امرأته الرجم، فقال النبى صلى الله عليه وسلم : والذي نفسي بيده! لأقضين بينكما بكتاب الله جل ذكره، المائة شاة والخادم رد عليك، وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام، واغد يا أنيس على امرأة هذا، فإن اعترفت فارجمها .
”ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول ! آپ کو اللہ کا واسطہ، ہمارے مابین کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمائیے۔ اس کا مد مقابل کھڑا ہوا، وہ اس سے زیادہ سمجھ دار بھی تھا۔ اس نے کہا : ہمارے مابین کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمائیے اور مجھے بات کرنے کی اجازت دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بو لیے۔ اس نے کہا: میرا بیٹا اس کے ہاں مزدوری کرتا تھا، اس نے اس شخص کی بیوی کے ساتھ زنا کر لیا۔ میں نے ایک سو بکری اور ایک غلام اس کے فدیے کے طور پر دیا۔ پھر میں نے اہل علم لوگوں سے سوال کیا ، تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کو سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا ملے گی ، جبکہ اس کی بیوی کو رحم کیا جائے گا۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں آپ کے درمیان اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ سو بکریاں اور غلام آپ کو لوٹا دیے جائیں گے ۔ آپ کے بیٹے کو سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی کی سزا ہوگی ۔اے انیس ! ان کی بیوی کے پاس جائیے ، اگر وہ اعتراف جرم کرے تو اسے رجم کر دیں۔“
(صحيح البخاري : 6827، صحیح مسلم : 1697 )
❀ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ (804ھ) فرماتے ہیں:
فيه إثبات الرجم، ولا خلاف فيه، ولا يلتفت إلى ما يحكى عن الخوارج وقد خالفوا السنن
”اس حدیث میں رجم کا اثبات ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں، خوارج سے (رجم کی مخالفت کے بارے میں ) جو منقول ہے، وہ نا قابل التفات ہے، کیونکہ انہوں نے کئی سنتوں کی مخالفت کی ہے ۔“
(التوضيح : 30/17)
❀ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (463ھ) ایک حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
فيه إثبات الرجم والحكم به على الشيب الزاني وهو أمر أجمع أهل الحق وهم الجماعة أهل الفقه والأثر عليه ولا يخالف فيه من يعده أهل العلم خلافا .
”اس حدیث میں رجم کا اثبات اور شادی شدہ زانی پر یہ حد نافذ کرنے کا حکم ہے، اس پر اہل حق یعنی فقہا اور محدثین کی جماعت کا اجماع ہے، اس میں ایسے کسی شخص نے مخالفت نہیں کی ، جس کے اختلاف کو اہل علم حیثیت دیتے ہیں۔“
(التمهيد : 388/14)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1