پس منظر
عیسائی مبلغین، مستشرقین، اور ملحدین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن میں سے رجم (سنگسار) کی آیت حذف ہو چکی ہے اور موجودہ قرآن اس سے محروم ہے۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ یہ آیت پہلے قرآن میں موجود تھی لیکن محفوظ نہ رہ سکی۔ وہ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کرتے ہیں:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"بے شک اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر مبعوث فرمایا اور ان پر کتاب نازل کی۔ اللہ نے جو وحی آپ پر نازل کی تھی، اس میں رجم کی آیت بھی شامل تھی۔ ہم نے اسے پڑھا، یاد کیا، اور اس پر عمل کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ زانیوں کو رجم کیا اور ہم نے بھی ایسا کیا۔ مجھے خوف ہے کہ ایک طویل وقت کے بعد لوگ کہیں گے کہ اللہ کی کتاب میں ہمیں رجم کی آیت نہیں ملی، اور وہ اللہ کے نازل کردہ ایک حکم کو چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں گے۔ رجم کتاب اللہ میں شادی شدہ زانیوں کے لیے حق ہے جب دلیل قائم ہو، حمل ظاہر ہو یا اعتراف ہو۔ پھر ہم قرآن میں یہ بھی پڑھتے تھے: ‘اپنے باپوں سے اعراض نہ کرو کیونکہ یہ کفر ہے۔”
(صحیح بخاری، کتاب الحدود؛ صحیح مسلم، کتاب الحدود؛ مسند احمد)
مخالفین کا طریقۂ استدلال
یہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیان سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ رجم کی آیت قرآن کا حصہ تھی لیکن حذف کر دی گئی۔ وہ اس بیان کو اپنی مرضی کے مفہوم میں ڈھال کر قرآن کے تحریف شدہ ہونے کا غلط تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
رجم کے متعلق اعتراضات کا تحقیقی جائزہ
1. رجم کی مبینہ آیت اور اس کی حقیقت
بعض روایات میں یہ ذکر ملتا ہے کہ رجم کی آیت کے الفاظ یہ تھے:
"الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموھما البتۃ”
(بوڑھے مرد اور عورت اگر زنا کریں تو انہیں سنگسار کر دو)۔
لیکن تحقیق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ الفاظ کبھی قرآن کا حصہ نہیں تھے۔
◈ یہ الفاظ یہودیوں کی کتاب (تورات) کا حصہ تھے، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیان اور دیگر روایات میں اشارہ موجود ہے۔
◈ لفظ "نازل” کا استعمال ان الفاظ کے لیے مجازی یا اصطلاحی ہے۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ یہ قرآن کی آیت کے طور پر نازل ہوئے تھے بلکہ یہ وحی غیر متلو (قرآن کے علاوہ اللہ کی جانب سے نازل کردہ ہدایات) کے زمرے میں آتا ہے۔
(تفسیر ابن جریر الطبری، 10/328، روایت 11976)
2. "کان مما انزل اللہ” کا مطلب
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں رجم کے متعلق یہ الفاظ استعمال ہوئے:
"کان مما انزل اللہ”۔
اس جملے کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ یہ آیت قرآن میں شامل تھی، لیکن یہ مفہوم درست نہیں۔
◈ لغوی وضاحت:
لفظ "کان” عربی زبان میں ماضی کے ساتھ ساتھ حال کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اور "آیت” سے مراد ہمیشہ قرآن کی آیت نہیں ہوتی بلکہ "حکم الٰہی” بھی مراد لیا جاتا ہے۔
3. "کتاب اللہ” کا مطلب
بعض لوگ "کتاب اللہ” کے الفاظ کو صرف قرآن کے لیے مخصوص سمجھتے ہیں، لیکن قرآن و حدیث میں "کتاب اللہ” کا مطلب اللہ کے حکم یا شریعت کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔
"یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰهُ لَکُمْ”
(المائدہ، 5:21)
یہاں "کتب اللہ” سے مراد اللہ کا حکم یا فیصلہ ہے، نہ کہ قرآن کی کوئی آیت۔
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میں تم دونوں کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا، شادی شدہ زانی کے لیے رجم اور غیر شادی شدہ کے لیے کوڑے کی سزا ہے”۔
(صحیح بخاری، کتاب الحدود، حدیث 6827)
4. یہ آیت قرآن میں کیوں شامل نہیں کی گئی؟
اگر رجم کی آیت قرآن کا حصہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قرآن کی دیگر آیات کی طرح لکھواتے۔ لیکن اس آیت کے متعلق:
◈ حضرت زید بن ثابت اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کی آیت کو قرآن میں شامل کرنے سے منع فرمایا۔
(سنن نسائی الکبریٰ، حدیث 7151)
◈ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن کا حصہ نہیں تھی بلکہ اس کا حکم وحی کے ذریعے ثابت کیا گیا تھا۔
5. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خدشہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے قرآن میں اضافہ کیا ہے تو میں یہ آیت قرآن میں لکھوا دیتا”۔
(مسند احمد، حدیث 151)
اس بیان کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے قرآن کا حصہ سمجھتے تھے۔ ان کا ارادہ تھا کہ اس آیت کو قرآن کے حاشیے پر بطور وضاحت شامل کیا جائے تاکہ لوگ اس حکم کی اہمیت کو سمجھ سکیں، لیکن انہوں نے یہ اقدام اس خوف سے نہیں کیا کہ لوگ اسے قرآن کا حصہ سمجھ لیں گے۔
علماء کا نکتۂ نظر
◈ مفتی تقی عثمانی:
ان کے مطابق، رجم کی آیت کبھی قرآن کا حصہ نہیں تھی۔ یہ آیت تورات کا حصہ تھی، لیکن اس کا حکم وحی کے ذریعے برقرار رکھا گیا۔
(تکملہ فتح الملہم، جلد 2، صفحہ 354-361)
◈ علامہ آلوسی:
انہوں نے اپنی تفسیر میں وضاحت کی ہے کہ رجم کی آیت قرآن کا حصہ نہیں تھی اور اسے قرآن میں شامل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
(روح المعانی، 9/278)
◈ علامہ باقلانی:
انہوں نے اپنی کتاب "الانتصار” میں واضح کیا کہ یہ آیت قرآن کا حصہ نہ تھی اور نہ منسوخ ہوئی۔
خلاصہ
◈ رجم کا حکم قرآن کی کسی آیت سے نہیں بلکہ حدیث اور سابقہ الہامی کتب کے تسلسل سے ثابت ہے۔
◈ "الشیخ والشیخۃ…” کے الفاظ کبھی قرآن کا حصہ نہیں تھے بلکہ یہ تورات کا حکم تھا جسے وحی غیر متلو کے ذریعے برقرار رکھا گیا۔
◈ "کتاب اللہ” کا مطلب صرف قرآن نہیں بلکہ عمومی طور پر شریعت الٰہی ہے، جس میں حدیث بھی شامل ہے۔
◈ یہ کہنا کہ قرآن سے کچھ آیات حذف ہو چکی ہیں، سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔