رجعی طلاق یافتہ کے لیے بھی خرچہ ہے جبکہ طلاق بائنہ والی کے لیے نہیں ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

رجعی طلاق یافتہ کے لیے بھی خرچہ ہے جبکہ طلاق بائنہ (تیسری طلاق) والی کے لیے نہیں ہے
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ [الطلاق: 1]
”انہیں (جنہیں تم نے طلاق دی ہے ) اپنے گھروں سے مت نکالو الا کہ وہ کسی فحاشی کے کام کا ارتکاب کریں ۔“
➋ ایک اور آیت میں ہے کہ :
وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ ۖ [البقرة: 241]
”مطلقہ عورتوں کے لیے معروف طریقے سے فائدہ ہے ۔“
➌ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمايا:
إنما النفقة والسكنى للمرأة إذا كان لزوجها عليها الرجعة
”بے شک خرچہ اور رہائش عورت کے لیے تب ہے جب اس کا خاوند اس پر رجوع کا حق رکھتا ہو ۔“
[صحيح: التعليقات الرضية على الروضة الندية: 214/2 ، الصحيحة: 1711 ، أحمد: 373/6 ، نسائي: 144/6]
➍ ایک روایت میں ہے کہ ”جب مرد کو اس پر رجوع کا حق نہیں ہو گا تو عورت کے لیے خرچہ اور رہائش بھی (شوہر پر لازم) نہیں ہو گی۔“
[احمد: 416/6]
معلوم ہوا کہ رجعی طلاق یافتہ عورت کے لیے اس کے شوہر پر خرچہ اور رہائش واجب ہے ۔
(شوکانیؒ) یہ متفق علیہ مسئلہ ہے۔
[نيل الأوطار: 406/4]
➊ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری طلاق والی عورت کے متعلق فرمایا:
ليس لها سكني ولا نفقة
”اس کے لیے رہائش اور خرچہ نہیں ۔“
ایک روایت میں ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
طلقني زوجي ثلاثا فلم يجعل لى رسول الله سكنى ولا نفقة
”مجھے میرے شوہر نے تیسری طلاق دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے رہائش اور خرچہ دونوں کو مقررنہ فرمایا۔“
[أحمد: 412/6 ، مسلم: 1480 ، ابو داود: 2284 ، نسائي: 75/6 ، ترمذي: 1135 ، ابن ماجة: 2035 ، ابن حبان: 4291 ، ابن الجارود: 761]
➋ ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا:
لا نفقة لك إلا أن تكوني حاملا
”تیرے لیے خرچہ نہیں ہے الا کہ تو حاملہ ہوتی (تو تیرے لیے خرچہ ہوتا ) ۔“
[أحمد: 414/6 ، مسلم: 1480 ، ابو داود: 2290 ، نسائي: 62/6]
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مذکورہ روایات کا انکار کرتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ”ہم اللہ کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ایک عورت کے کہنے پر نہیں چھوڑ سکتے ۔ ہم نہیں جانتے شاید کہ اسے یاد ہے یا یہ بھول گئی ہے۔“ پھر جب یہ بات فاطمہ رضی اللہ عنہا تک پہنچی تو انہوں نے کہا میرے اور تمہارے درمیان (فیصلہ کرنے والی ) اللہ کی کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”عورتوں کو ان کی عدت میں طلاق دو۔“ حتٰی کہ فرمایا: ”تم نہیں جانتے شاید کہ اللہ تعالیٰ اس کے بعد کوئی نیا حکم لے آئے۔ “ [الطلاق: 1]
تو تیسری طلاق کے بعد کون سا نیا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے ۔“
[مسلم: 1480 – 1481 ، بخاري: 5321 – 5322 ، ابو داود: 2292 – 2293]
اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے فہم کے مطابق انکار کیا لیکن چونکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا صحابیہ ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح حکم بیان کر رہی ہیں اس لیے ان کی اس بات کو حجت تسلیم کیا جائے گا کہ تیسری طلاق والی عورت کے لیے نہ تو رہائش ہے اور نہ ہی خرچہ ۔
(احمدؒ ، اسحاقؒ ، ابو ثور ) اسی کے قائل ہیں۔
(جمہور) اس کے لیے خرچہ نہیں ہے جبکہ رہائش ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
أسكنُوهُنَّ … [الطلاق: 4 ]
”انہیں رہائش دو…۔“
(حالانکہ یہ آیت رجعی طلاق یافتہ کے لیے ہے جو مذکورہ مسئلے میں دلیل نہیں بن سکتی )۔
(ابو حنیفہؒ) تیسری طلاق والی عورت کے لیے رہائش اور خرچہ دونوں لازم ہیں کیونکہ وہ مطلقہ ہے اور مطلقہ کے لیے یہ دونوں چیزیں رجعی طلاق یافتہ عورت کی طرح ضروری ہیں۔ ان کی دلیل حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی اقوال ہیں ۔
[المغنى: 403/11 ، فتح الباري: 602/10 ، نيل الأوطار: 404/4]
(راجح) پہلا قول راجح ہے۔
اور نہ ہی شوہر کی وفات کی عدت میں ۔ اس صورت میں (مرد پر ) نہ خرچہ لازم ہے نہ رہائش الا کہ یہ دونوں (یعنی مطلقہ بائنہ اور متوفی عنھا زوجھا ) حاملہ ہوں
➊ حدیث نبوی ہے کہ :
إنما النفقة والسكنى للمرأة على زوجها ما كانت له عليها رجعة فإذا لم تكن عليها رجعة فلا نفقة ولا سكني
”بے شک عورت کے لیے اس کے شوہر پر خرچہ اور رہائش اس وقت تک لازم ہے جب تک وہ اس پر رجوع کا حق رکھتا ہے اور جب اسے اس پر رجوع کا حق نہ رہے تو خرچہ اور رہائش (مرد کے ذمے ) لازم نہیں رہتا۔“
[أحمد: 417/6]
کسی اور دلیل سے بھی ثابت نہیں کہ متوفی عنھا زوجھا کو خرچہ دینا لازم ہے۔ ہاں جب وہ حاملہ ہو گی تو اسے خرچہ دیا جائے گا جیسا کہ قرآن میں ہے کہ
وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ [الطلاق: 6]
”اگر وہ عورتیں حاملہ ہوں تو جب تک بچہ پیدا نہ ہو جائے انہیں خرچہ دیتے رہو ۔“
یہ آیت جس طرح متوفى عنها زوجھا حاملہ کے لیے خرچہ کے وجوب کی دلیل ہے اسی طرح مطلقہ رجعیہ اور مطلقہ بائنہ حاملہ کے لیے بھی وجوب نفقہ کی دلیل ہے۔
➌ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا (جو کہ تیسری طلاق والی تھیں) سے کہا:
لا نفقة لك إلا أن تكـونـي حاملا
”تیرے لیے خرچہ نہیں اِلا کہ تو حاملہ ہوتی (تو تجھے خرچہ دیا جاتا) ۔“
[مسلم: 1480 ، كتاب الطلاق: باب المطلقة ثلاثا لا نفقة لها ، أحمد: 414/6]
معلوم ہوا کہ ان دونوں قسم کی عورتوں کا خرچہ صرف اسی صورت میں مرد پر لازم ہو گا جب یہ حاملہ ہوں۔ ان کی رہائش بھی مرد پر واجب ہے یا نہیں اس میں فقہا نے اختلاف تو کیا ہے لیکن راجح بات یہ ہے کہ ایسی عورتوں کے لیے رہائش واجب نہیں، کیونکہ اس کی کوئی دلیل ہمارے علم کے مطابق موجود نہیں نیز قرآن میں بھی صرف فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ ”خرچہ کا ہی ذکر ہے۔“
خلاصہ کلام یہ ہے کہ میاں بیوی کی جدائی یا تو طلاق کے ذریعے ہو گی ، یا وفات کے ذریعے اور یا فسخ نکاح کے ذریعے ۔ اگر طلاق کے ذریعے جدائی ہو تو یا طلاق رجعی ہو گی یا طلاق بائنہ ۔ اگر طلاق رجعی ہو تو شوہر پر خرچہ اور رہائش دونوں لازم ہیں خواہ عورت حاملہ ہو یا نہ ہو۔ اور اگر طلاق بائنہ ہو تو شوہر پر نہ خرچہ لازم ہے اور نہ رہائش الا کہ عورت حاملہ ہو تو خرچہ لازم ہے۔ اگر وفات کے ذریعے جدائی ہو تو شوہر پر نہ خرچہ لازم ہے نہ رہائش البتہ اگر حاملہ ہو تو خرچہ لازم ہے۔ اگر فسخ کے ذریعے جدائی ہو تو یا تو لعان کے ذریعے جدائی ہو گی یا خلع کے ذریعے ۔ اگر لعان کے ذریعے جدائی ہو تو مرد پر خرچہ اور رہائش لازم نہیں خواہ عورت حاملہ ہو یا نہ ہو کیونکہ مرد نے تو حمل کا بھی انکار کر دیا ہے۔ اور اگر خلع کے ذریعے فسخ نکاح ہو تو خرچہ اور رہائش دونوں لازم نہیں الا کہ عورت حاملہ ہو تو مطلقہ بائنہ کی طرح عموم آیت کی وجہ سے صرف خرچہ ہی لازم آئے گا۔
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: المغني: 402/11]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے