رجعی طلاق کے بعد رجوع کا حکم: کیا 23 سال بعد رجوع ممکن ہے؟
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 854

سوال

یہ سوال مسمی محمد جیون ولد محمد عبداللہ قوم کمیار، موضع ترمل، تحصیل چونیاں، ضلع لاہور کی جانب سے کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی بیوی مسمات خورشید بیگم دختر بگو قوم کمہار، موضع داؤکے کھنیانہ، تحصیل چونیاں، ضلع لاہور کو بوجہ زبان درازی اور بدچلنی کے طلاق دے دی۔
ان کا کہنا ہے کہ:

"میں نے اپنی بیوی خورشید بیگم کو طلاق دے دی ہے، اب میرا اس کے ساتھ کسی قسم کا ازدواجی تعلق باقی نہیں رہا۔ میں نے یہ طلاق مورخہ 10-3-74 کو دی تھی اور اس سے پہلے کوئی طلاق نہیں دی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا میں رجوع کر سکتا ہوں؟”

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر سوال درست ہے اور طلاق دینے کی بیان کردہ صورت بھی صحیح ہے، تو بشرط صحتِ سوال اور بشرط صورت مسئولہ یہ طلاق پہلی یا دوسری طلاق ہونے کی صورت میں ایک رجعی طلاق شمار ہوگی۔

رجعی طلاق وہ ہوتی ہے جس میں عدت کے دوران شوہر کو بیوی کو واپس لینے کی شرعی اجازت ہوتی ہے۔
چونکہ عدت کے دوران نکاح برقرار رہتا ہے، اس لیے رجوع عدت ختم ہونے سے پہلے جائز ہے۔

اگر عدت گزر جائے تو پھر بلا حلالہ کے نیا نکاح شرعاً جائز ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ… ﴿٢٢٩﴾…البقرة ﴾
’’طلاق دو مرتبہ ہے، پھر یا تو اچھے طریقے سے روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔‘‘

تفسیر ابن کثیر

امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

﴿ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾
"أي إذا طلقتها واحدة أو اثنتين, فأنت مخير فيها ما دامت عدتها باقية بين أن تردها إليك ناوياً الإصلاح بها والإحسان إليها, وبين أن تتركها حتى تنقضي عدتها فتبين منك.”
(تفسیر ابن کثیر: ج1، ص 272)

یعنی:
جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دے تو عدت کے اندر اسے اختیار حاصل ہے کہ اگر اصلاح اور نیک سلوک کی نیت ہو تو بیوی کو واپس لے لے، یا اگر ایسا نہ چاہے تو عدت پوری ہونے دے، تاکہ بیوی اس کے نکاح سے آزاد ہو جائے اور اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکے۔

حکم شرعی

اس آیت کریمہ اور تفسیر سے معلوم ہوا کہ رجعی طلاق کی عدت تین حیض یا تین مہینے ہوتی ہے۔
اس مدت کے دوران نکاح برقرار رہتا ہے اور رجوع جائز ہوتا ہے۔

لیکن چونکہ سائل کے بیان کے مطابق یہ طلاق مورخہ 10-3-1974ء کو دی گئی تھی،
اور آج کی تاریخ 13-6-1997ء ہے، یعنی تئیس (23) برس اور تین ماہ گزر چکے ہیں،
لہٰذا اب یہ واضح ہے کہ عدت کب کی پوری ہو چکی ہے اور نکاح ختم ہو گیا ہے۔

اس لیے رجوع کی شرعاً کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
البتہ نکاحِ ثانی یعنی نیا نکاح شرعاً جائز ہے۔

قرآن مجید سے مزید دلیل

﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ … ﴿٢٣٢﴾…البقرة ﴾
’’اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو، جب وہ آپس میں دستور کے مطابق راضی ہوں۔‘‘

یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب حضرت معقل بن یسار نے اپنی مطلقہ بہن کو پرانے شوہر سے دوبارہ نکاح کرنے سے روک دیا تھا۔

خلاصہ

بشرط صحت سوال، یہ ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے۔
➋ چونکہ عدت کی مدت (تین حیض یا تین ماہ) کب کی گزر چکی ہے، اس لیے رجوع ممکن نہیں۔
➌ اب شوہر اگر چاہے تو نیا نکاح (نکاحِ ثانی) کر سکتا ہے۔
➍ اس صورت میں حلالہ کی کوئی ضرورت نہیں۔
➎ مفتی پر کسی قانونی سقم کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوگی۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے