رجب کے پہلے جمعہ کی رات صلاۃ الرغائب نامی نماز سے متعلق روایات کا جائزہ
یہ اقتباس شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری کی کتاب غیر مسنون نفلی نمازیں سے ماخوذ ہے۔

صلاة الرغائب

رجب کے پہلے جمعہ کی رات صلاۃ الرغائب ادا کی جاتی ہے، یہ بدعت ہے اور دین میں اختراع ہے۔ اس کے ثبوت پر پیش کی جانے والی روایت کا تحقیقی جائزہ ملاحظہ ہو:

❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رجب شهر الله وشعبان شهري…. لا تغفلوا عن أول ليلة فى رجب، فإنها ليلة تسميها الملائكة الرغائب، وذلك أنه إذا مضى بك الليل لا يبقى ملك مقرب فى جميع السموات والأرض إلا ويجتمعون فى الكعبة وحواليها، فيطلع الله عز وجل عليهم اطلاعة فيقول: ملائكتي سلوني ما شئتم، فيقولون يا ربنا حاجتنا إليك أن تغفر لصوام رجب، فيقول الله عزوجل: قد فعلت ذلك. ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وما من أحد يصوم يوم الخميس أول خميس فى رجب، ثم يصلي فيما بين العشاء والعتمة، يعني ليلة الجمعة، ثنتي عشرة ركعة، يقرأ فى كل ركعة فاتحة الكتاب مرة، وإنا أنزلناه فى ليلة القدر ثلاث مرات، وقل هو الله أحد اثنتي عشرة مرة، يفصل بين كل ركعتين بتسليمة، فإذا فرغ من صلاته صلى على سبعين مرة، ثم يقول: اللهم صل على محمد النبى الأمي وعلى آله، ثم يسجد فيقول فى سجوده: سبوح قدوس رب الملائكة والروح سبعين مرة، ثم يرفع رأسه فيقول: رب اغفر لي وارحم وتجاوز عما تعلم إنك أنت العزيز الأعظم سبعين مرة، ثم يسجد الثانية فيقول مثل ما قال فى السجدة الأولى، ثم يسأل الله تعالى حاجته، فإنها تقضى، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: والذي نفسي بيده ما من عبد ولا أمة صلى هذه الصلاة إلا غفر الله تعالى له جميع ذنوبه وإن كانت مثل زبد البحر وعدد ورق الأشجار، وشفع يوم القيامة فى سبعمائة من أهل بيته
رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے، رجب کی پہلی رات غافل نہ ہو جانا، کیونکہ فرشتوں نے اس کا نام لیلۃ الرغائب رکھا ہے، جب یہ رات آتی ہے، تو زمین و آسمان کے فرشتے کعبہ اور اس کے گردو نواح میں جمع ہو جاتے ہیں، اللہ رب العزت ان کی طرف دیکھ کر فرماتا ہے: میرے فرشتو! جس چیز کی خواہش ہے، مانگ لو، تب سارے فرشتے عرض کرتے ہیں: ہمارے رب! ہماری آرزو ہے کہ ماہ رجب میں روزے رکھنے والے کو بخش دے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں نے انہیں بخش دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: جو آدمی رجب کی پہلی جمعرات کو روزہ رکھے، مغرب اور عشا کے درمیان نماز پڑھے یعنی جمعہ کی رات میں بارہ رکعت ادا کرے اور ہر رکعت میں ایک دفعہ سورت فاتحہ، تین مرتبہ سورت قدر اور بارہ مرتبہ سورت اخلاص پڑھے، ہر دو رکعت کے درمیان سلام پھیرے، نماز سے فارغ ہو کر ستر مرتبہ مجھ پر درود پڑھے، اس میں کہے: رب محمد النبی الامی اور ان کی آل پر رحمت بھیج، پھر سجدہ کرے، اس میں ستر مرتبہ یہ دعا پڑھے: سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَّبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ فرشتوں اور جبریل کا رب منزہ اور پاک ہے۔ اس کے بعد سر اٹھا کر ستر مرتبہ پڑھے: رَبِّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْ وَتَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمُ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْأَعْظَمُ رب! بخش دے اور رحم فرما اور جو تیرے علم میں ہیں، ان سب گناہوں سے درگزر فرما، تو غالب اور بلندی والا ہے۔ پھر دوبارہ سجدہ کرے، وہی دعا پڑھے، پھر سجدے میں اللہ رب العزت سے اپنی ضرورت کا سوال کرے، تو اس کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ایسا کوئی مرد یا عورت نہیں ہے، جو یہ نماز پڑھے اور اللہ تعالیٰ اس کے سارے گناہ بخش نہ دے، اگر چہ اس کے گناہ سمندر کی جھاگ اور درخت کے پتوں کے برابر ہوں۔ روز قیامت خاندان کے سات سو افراد کی شفاعت کرے گا۔
(المَوضُوعات لابن الجوزي: 436/2-437، ح:1002، معجم الشيوخ لابن عساكر: 186/1، ح: 210، وظائف الليالي والأيام لأبي موسى المديني كما في ذيل الميزان، ص 363، الرقم: 593، غنية الطالبين لعبد القادر الجيلاني: 181/1-182)

اس روایت کی اسنادی حیثیت اور حکم

جھوٹی روایت ہے۔
➊ ابو حسن علی بن عبد اللہ بن جہضم صوفی کے متعلق ابن خیرون رحمہ اللہ کہتے ہیں:
تكلم فيه وقيل: إنه كان يكذب
اس پر کلام ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ جھوٹ بولتا تھا۔
(تاریخ ابن عساکر: 19/43، میزان الاعتدال للذهبي: 143/3)
❀ حافظ عبدالقادر راوی ثم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان كذابا
دو جھوٹا ہے۔
(الباعث على إنكار البدع والحوادث لأبي شامة، ص 70)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
شيخ الصوفية بحرم مكة ومصنف كتاب بهجة الأسرار متهم بوضع الحديث
یہ حرم مکہ کے صوفیہ کا شیخ اور بہجۃ الاسرار کتاب کا مصنف ہے۔ اس پر احادیث گھڑنے کا الزام ہے۔
(میزان الاعتدال: 142/3، الرقم: 5879)
ابن جہضم کی صوفی (414ھ) کی کتاب کا نام الانوار و بہجتہ الاسرار ہے، اس کے علاوہ شطنوفي مصری صوفی (713ھ) کی بھی بہجۃ الاسرار نامی کتاب ہے۔
➋ علی بن محمد سعید بصری
➌ محمد بن سعید بصری
➍ حنف بن عبد اللہ صفانی۔
تینوں نامعلوم اور مجہول ہیں۔
❀ عبدالوہاب انماطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
رجاله مجهولون وقد فتشت عليهم جميع الكتب فما وجدتهم
اس کے راوی مجہول ہیں، ان کے حالات کتب رجال میں بسیار کوشش کے باوجود نہ مل سکے۔
(الموضوعات لابن الجوزي: 438/2)
❀ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
في إسناده غير واحد من المجهولين
اس کی سند میں کئی مجہول ہیں۔
(معجم الشيوخ: 186/1)
❀ ابوموسی مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رجال إسناده غير معروفين إلى حميد
حمید تک اس روایت کی سند کے راوی مجہول ہیں۔
(ذیل میزان الاعتدال للعراقي، ص 363)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بل لعلهم لم يخلقوا
ہوسکتا ہے، یہ پیدا ہی نہ ہوئے ہوں۔
(تلخيص الموضوعات، ص 185، الرقم: 433)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
شيخ ابن جهضم مجهول وكذا شيخ شيخه وكذا خلف
خلف کی طرح ابن جہضم کے شیخ اور ان کے شیخ مجہول ہیں۔
(تبيين العجب، ص 55)
تو اس روایت کے بارے حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (597ھ) فرماتے ہیں:
هذا حديث موضوع على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقد اتهموا به ابن جهيم ونسبوه إلى الكذب
یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ ہے، علما نے اس جھوٹ کا الزام ابن جہیم پر لگایا ہے اور اسے جھوٹا کہا ہے۔
(الموضوعات: 438/2)
❀ حافظ عراقی رحمہ اللہ (806ھ) فرماتے ہیں:
هو حديث كذب موضوع
یہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے۔
(تخريج أحاديث الإحياء: 203/1، ذيل ميزان الاعتدال، ص 363)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ) فرماتے ہیں:
أخرج هذا الحديث أبو محمد عبد العزيز الكتاني الحافظ، فى كتاب فضل رجب له فقال: ذكر على بن محمد بن سعيد البصري أخبرنا أبو بكر، فذكره بطوله. وأخطأ عبد العزيز فى هذا، فإنه أوهم أن الحديث عنده عن غير على عبد الله بن جهضم، وليس الأمر كذلك، فإنه إنما أخذه عنه، فحذفه لشهرته بوضع الحديث وارتقى إلى شيخه، مع أن شيخه مجهول، وكذا شيخ شيخه، وكذا خلف، والله أعلم
اسے ابو محمد حافظ عبد العزیز کتانی نے اپنی کتاب فضائل رجب میں علی بن محمد بن سعید بصری کی سند سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں: ہمیں ابو بکر نے بیان کیا ہے۔ حافظ عبدالعزیز کو اس میں غلطی لگی ہے۔ انہیں وہم ہوا کہ یہ حدیث علی بن عبد اللہ بن جہضم کے علاوہ کسی اور کی ہے، حالانکہ بات ایسے نہیں ہے، کیونکہ یہ روایت اس نے اسی سے لی ہے، پھر اس نے اسے مشہور وضاع ہونے کی وجہ حذف کر دیا اور اس کے شیخ کا نام لے لیا، جب کہ وہ شیخ بھی مجہول ہے، شیخ کا شیخ بھی مجہول ہے، اسی طرح خلف بھی واللہ اعلم۔
(تبيين العجب، ص 55)
حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) نے اسے باطل کہا ہے۔
(المجموع شرح المهذب: 56/4)
❀ شیخ الاسلام، ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
أما صلاة الرغائب فلا أصل لها، بل هي محدثة، فلا تستحب لا جماعة ولا فرادى. فقد ثبت فى صحيح مسلم أن النبى صلى الله عليه وسلم نهى أن تخص ليلة الجمعة بقيام، أو يوم الجمعة بصيام والأثر الذى ذكر فيها كذب موضوع باتفاق العلماء، ولم يذكره أحد من السلف والأئمة أصلا
صلاۃ الرغائب کی کوئی اصل نہیں۔ یہ بدعت ہے، لہذا اسے با جماعت اور اکیلے ادا کرنا مستحب نہیں، بل کہ صحیح مسلم میں ثابت ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی رات کو قیام اور دن کو روزے کے لیے خاص کرنے سے منع فرمایا ہے۔ علمائے کرام متفق ہیں کہ اس بارے میں مروی روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے، سلف اور ائمہ نے سرے سے اس کا ذکر ہی نہیں کیا۔
(مجموع الفتاوى: 132/23)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748ھ) فرماتے ہیں:
الحديث موضوع، ولا يعرف إلا من رواية ابن جهضم، وقد اتهموه بوضع هذا الحديث
روایت من گھڑت ہے۔ اسے ابن جہضم کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا۔ یہ اسی کی کارستانی ہے۔
(تاریخ الإسلام: 238/9)
❀ نیز فرماتے ہیں:
باطل بلا تردد
بلاشک روایت باطل ہے۔
(سير أعلام النبلاء: 143/23)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ) فرماتے ہیں:
إن أصل صلاة النافلة سنة مرغب فيها، ومع ذلك فقد كره المحققون تخصيص وقت بها دون وقت، ومنهم من أطلق تحريم مثل ذلك كصلاة الرغائب التى لا أصل لها
نفل نماز کی اصل تو سنت ہے، جس کی طرف ترغیب دلائی گئی ہے، اس کے با وجود محققین نے نفل کے لیے وقت مخصوص کرنا نا پسند کیا ہے، بعض کے نزدیک یہ حرام ہے، مثلا صلاۃ الرغائب ہے کہ اس کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔
(فتح الباري: 66/11، الرقم: 6264)
❀ علامہ شوکانی رحمہ اللہ (1250ھ) فرماتے ہیں:
هذه الصلاة مكذوبة موضوعة
یہ جھوٹی اور من گھڑت نماز ہے۔
(تحفة الذاكرين، ص 143)
صلاۃ الرغائب کے بدعت اور منکر ہونے پر اہل علم کا اجماع واتفاق ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:
لا تختصوا ليلة الجمعة بقيام من بين الليالي
(صحیح مسلم: 1144)
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) کہتے ہیں:
هذا الحديث النهي الصريح عن تخصيص ليلة الجمعة بصلاة من بين الليالي، ويومها بصوم كما تقدم، وهذا متفق على كراهيته، واحتج به العلماء على كراهة هذه الصلاة المبتدعة التى تسمى الرغائب قاتل الله واضعها ومخترعها، فإنها بدعة منكرة من البدع التى هي ضلالة وجهالة، وفيها منكرات ظاهرة، وقد صنف جماعة من الأئمة مصنفات نفيسة فى تقبيحها وتضليل مصليها ومبتدعها، ودلائل قبحها وبطلانها وتضليل فاعلها أكثر من أن تحصر
باقی راتوں کی نسبت شب جمعہ کو نماز کے لیے اور جمعہ کے دن کو روزے کے لیے خاص کرنا اس حدیث کی رو سے منع ہے، محدثین کرام کا اتفاق ہے کہ یہ مکروہ ہے، علمائے کرام نے صلاۃ الرغائب سے موسوم نماز کی کراہت پر اس حدیث کو دلیل بنایا ہے، اللہ تعالیٰ اس نماز کو گھڑنے اور ایجاد کرنے والے کا ستیا ناس کرے، یہ ضلالت و گمراہی والی ایک منکر بدعت ہے، اس میں منکرات واضح ہیں۔ ائمہ کی ایک جماعت نے اس کی قباحتوں، اسے پڑھنے والے کے گمراہ اور بدعتی ہونے پر بے شمار کتابیں لکھی ہیں، نیز اس کی قباحت، اس کے بطلان اور اسے پڑھنے والے کے گمراہ ہونے پر بے شمار دلائل ہیں۔
(شرح النووي: 262/8)
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
ائمہ دین کا اجماع ہے کہ صلاۃ الرغائب بدعت ہے، اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسنون قرار دیا، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفا اور ائمہ دین مثلاً امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام ابوحنیفہ، امام سفیان ثوری، امام اوزاعی اور امام لیث وغیرہ میں سے کسی نے مستحب سمجھا، اس بارے میں مروی روایت محدثین کرام کی تحقیق میں بالا تفاق جھوٹی ہے، اسی طرح رجب کے پہلے جمعہ کی رات لیلۃ المعراج، پندرہ شعبان کی نماز الفیہ، اتوار سوموار اور ہفتے کے دنوں میں باقی مذکورہ نمازیں بھی بدعت ہیں اگر چہ مصنفین کے ایک گروہ نے باب الرقائق میں ان کو ذکر کیا ہے، مگر محدثین کے ہاں ان کے من گھڑت ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔
(مجموع الفتاوى: 134/23)
❀ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751ھ) فرماتے ہیں:
كذلك أحاديث صلاة الرغائب ليلة أول جمعة من رجب كلها كذب مختلق على رسول الله صلى الله عليه وسلم
اسی طرح رجب کے پہلے جمعہ کی رات میں صلاۃ الرغائب پڑھنے کی حدیثیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر گھڑی گئیں ہیں۔
(المنار المنيف، ص 95، الرقم: 167)
❀ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ (795ھ) فرماتے ہیں:
الأحاديث المروية فى فضل صلاة الرغائب فى أول ليلة جمعة من شهر رجب كذب وباطل لا تصح، وهذه الصلاة بدعة عند جمهور العلماء
رجب کے پہلے جمعہ کی رات صلاۃ الرغائب کی فضیلت میں مروی تمام روایات جھوٹی، باطل اور غیر ثابت ہیں اور یہ نماز جمہور علما کے نزدیک بدعت ہے۔
(لطائف المعارف، ص 228)
فائدہ :
❀ محمد بن زید بن عبد اللہ بن عمر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
كان ابن عمر إذا رأى الناس، وما يعدون لرجب كره ذلك
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب لوگوں کو رجب کے لیے خاص اہتمام کرتے دیکھتے، تو نا پسند فرماتے۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 101/3، وسنده صحيح)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے