رجب کی پہلی، پندرہویں اور ستائیسویں رات کی عبادات کی فضیلت سے متعلق روایات
یہ اقتباس شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری کی کتاب غیر مسنون نفلی نمازیں سے ماخوذ ہے۔

صلاة رجب سے متعلق روایت:

ماہ رجب کی راتوں میں خصوصی عبادت بدعت ہے، اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کچھ ثابت نہیں۔ دلائل کا تحقیقی جائزہ ملاحظہ ہو۔
❀ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
في رجب يوم وليلة من صام ذلك اليوم وقام تلك الليلة كان له من الأجر كمن صام مائة سنة وقام مائة سنة وهى لثلاث بقين من رجب فى ذلك اليوم بعث الله محمدا نبيا
27 رجب کے دن روزہ اور رات کو قیام کرنے والے کو سو برس کے روزوں اور قیام کا ثواب ملتا ہے، اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔
(شعب الإيمان للبيهقي: 3530، الغَرائب المُلتقطة لابن حجر: 1040/5، فضل رجب لابن عساکر: 10، 11، ذيل اللآلي المصنوعة للسيوطي: 459/1)

اس روایت کی اسنادی حیثیت

سخت ضعیف و منکر روایت ہے۔
➊ خالد بن ہیاج بن بسطام ضعیف ہے۔ اس کی اپنے والد سے مروی روایت منکر ہوتی ہے۔
❀ امام ابن حبان رحمۃ اللہ فرماتے ہیں :
يعتبر حديثه من غير روايته عن أبيه
اس کی وہ روایات قابل اعتبار ہیں، جو اس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی اور سے بیان کی ہیں۔
(الثقات: 225-226/8)
❀ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں :
ذو مناكير عن أبيه
اپنے باپ سے منکر روایتیں بیان کرتا ہے۔
(سير أعلام النبلاء: 114/4)
مذکورہ روایت بھی اس نے اپنے باپ سے بیان کی ہے، لہٰذا منکر ہے۔
➋ ہیاج بن بسطام ضعیف ہے۔
➌ سلیمان بن طرخان تیمی مدلس ہیں۔
❀ حافظ بیہقی رحمۃ اللہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں۔
(شعب الإيمان: 393/7)
هذا حديث منكر إلى الغاية
یہ انتہا کی منکر روایت ہے۔
(تبيين العجب: 21/1)

دوسری روایت

❀ سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
من أحيا ليلة من رجب وصام يوما، أطعمه الله من ثمار الجنة، وكساه من حلل الجنة، وسقاه من الرحيق المختوم، إلا من فعل ثلاثا: من قتل نفسا، أو سمع مستغيثا يستغيث بليل أو نهار فلم يغثه، أو شكا إليه أخوه حاجة فلم يفرج عنه
جو ماہ رجب کی کسی رات قیام کرتا ہے، دن کو روزہ رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے جنت کا پھل کھلائے گا، جنتی لباس پہنائے گا، الرحیق المختوم سے پلائے گا، مگر جس نے یہ تین کام کیے (وہ اس سے محروم رہے گا) کسی جان کو قتل کیا، دن یا رات کے وقت کسی فریادی کی پکار سنی، مگر اس کی مدد نہ کی، اس کا بھائی اس کے پاس اپنی ضرورت لے کر آیا، مگر اس نے بھائی کی ضرورت کو پورا نہیں کیا۔
(فضائل شهر رجب للخلال ص 54، ح: 6، الموضوعات لابن الجوزي: 580/2، ح: 1151، ذيل الآلي المصنوعة للسيوطي ص 199)

اس روایت کی اسنادی حیثیت

جھوٹی روایت ہے۔
➊ اسحاق بن محمد بن مروان کوفی کے متعلق امام دار قطنی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں۔
ليس ممن يحتج بحديثه
اس کی روایت سے حجت نہیں پکڑی جائے گی۔
(سؤالات الحاكم للدارقطني، ص108، ح: 70)
➋ محمد بن مروان بن قطان کوفی کے متعلق امام دار قطنی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں۔
شيخ من الشيعة حاطب ليل لا يكاد يحدث عن ثقة، متروك
شیعہ ہے، رطب و یابس جمع کرتا ہے، یہ متروک کسی ثقہ سے بیان کرتا ہی نہیں۔
(سؤالات البرقاني، ص 62، ح 458)
➌ حصین بن مخارق ابو جنادہ کے متعلق امام ابن حبان رحمۃ اللہ فرماتے ہیں۔
لا يجوز الاحتجاج به
اس سے دلیل پکڑنا جائز نہیں۔
(كتاب المجروحين: 511/2)
❀ امام دارقطنی رحمۃ اللہ نے متروک کہا ہے۔
(الضعفاء والمتروكون، ص 189)
❀ حافظ سیوطی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں :
كان يضع الأحاديث
احادیث گھڑتا تھا۔
(ذيل اللآلي المصنوعة، ص 119)
➍ ابو حمزہ شمالی (ثابت بن ابی صفیہ) کو امام احمد بن حنبل، امام یحیی بن معین، امام ابو زرعہ رازی، امام ابو حاتم رازی، امام ابن حبان رحمۃ اللہ نے ضعیف و مجروح قرار دیا ہے، نیز امام دارقطنی رحمۃ اللہ نے متروک کہا ہے۔
(سؤالات البرقاني، ص 20، ح: 64)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ نے ضعیف رافضی کہا ہے۔
(تقريب التهذيب: 818)
❀ حافظ ابن الجوزی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں۔
هذا حديث موضوع على رسول الله صلى الله عليه وسلم
یہ روایت جھوٹی ہے۔
(الموضوعات: 587/2)

رجب کی پہلی رات کی عبادت سے متعلق روایت:

اس رات کی عبادت کے بارے میں ایک من گھڑت روایت آتی ہے: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صلى المغرب أول ليلة من رجب ثم صلى بعدها عشرين ركعة، يقرأ فى كل ركعة بفاتحة الكتاب وقل هو الله أحد مرة، ويسلم فيهن عشر تسليمات، أتدرون ما ثوابه؟ فإن الروح الأمين جبريل علمني ذلك قلنا: الله ورسوله أعلم قال: حفظه الله فى نفسه وماله وأهله وولده وأجير من عذاب القبر وجاز على الصراط كالبرق بغير حساب ولا عذاب
رجب کی پہلی رات نماز مغرب پڑھنے کے بعد جو شخص بیس رکعت ادا کرے، ہر رکعت میں سورت فاتحہ اور سورت اخلاص ایک ایک بار پڑھے، ان رکعات میں دس سلام پھیرے، جانتے ہو اس کا ثواب کیا ہے؟ یہ نماز مجھے روح الامین نے سکھائی ہے۔ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: اللہ تعالیٰ اس کے جان و مال اور اہل وعیال کی حفاظت فرمائے گا، اسے عذاب قبر سے پناہ ہوگی، پل صراط سے برق رفتار بغیر حساب و کتاب کے گزر جائے گا۔
(الموضوعات لابن الجوزي: 434/2، ح: 106)

اس روایت کی اسنادی حیثیت

جھوٹی سند ہے۔
➊ ابوطیب طاہر بن حسن مطوعی کی توثیق مطلوب ہے۔
➋ عبد اللہ بن محمد بن یعقوب ابو حمد حارثی متروک و متہم ہے۔
➌ محمد بن قاسم کا تعین نہیں ہو سکا ممکن ہے کہ یہ ابن مجمع بھی ہو۔
❀ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
روى عنه أهل خراسان أشياء لا يحل ذكرها فى الكتب فكيف الاشتغال بروايتها
اہل خراسان نے اس سے ایسی روایات بیان کی ہیں، جنہیں لکھنا ہی جائز نہیں تو عمل کیسے جائز ہوگا؟
(کتاب المجروحين: 330/2)
❀ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدث بأحاديث موضوعة
من گھڑت روایتیں بیان کرتا ہے۔
(المدخل إلى الصحيح: 244/1، ح: 195)
➍ محمد بن یونس سرحسی کی توثیق معلوم نہیں ہو سکی۔
➎ علی بن محمد کا تعیین و توثیق درکار ہے۔
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا حديث موضوع، وأكثر رواته مجاهيل
من گھڑت ہے، اکثر راوی مجہول ہیں۔
(الموضوعات: 434/2)
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
صد إحياء ليال لا خصوص لها، كأول ليلة من رجب
رجب کی پہلی رات کی طرح ان راتوں کی شب بیداری کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔
(اقتضاء الصراط المستقيم: 623/2)

رجب کی پندرہویں شب کی عبادت سے متعلق روایت:

رجب کی پندرہویں شب کو خاص عبادت کا اہتمام کرنا بدعت اور غیر مشروع ہے، کیونکہ اس کے ثبوت پر کوئی صحیح دلیل موجود نہیں۔ دین صحیح حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے، اس کے بارے میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ایک جھوٹی روایت آتی ہے:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صلى ليلة النصف من رجب أربع عشرة ركعة، يقرأ فى كل ركعة الحمد مرة، وقل هو الله أحد عشرين مرة، وقل أعوذ برب الفلق ثلاث مرات، وقل أعوذ برب الناس ثلاث مرات، فإذا فرغ من صلاته صلى على عشر مرات، ثم يسبح الله ويحمده ويكبره ويهلله ثلاثين مرة، بعث الله إليه ألف ملك يكتبون له الحسنات ويغرسون له الأشجار الفردوس، ومحى عنه كل ذنب أصابه إلى تلك الليلة، ولم يكتب عليه خطية إلى مثلها من القابل
جو پندرہ رجب کی رات چودہ رکعت ادا کرتا ہے، ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورت فاتحہ، بیس مرتبہ سورت اخلاص اور تین تین مرتبہ معوذتین پڑھتا ہے، فارغ ہونے کے بعد مجھ پر دس مرتبہ درود بھیجتا ہے، بعد ازاں، سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ کی تیس مرتبہ تسبیح کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ ایک ہزار فرشتے اس کی طرف بھیجتا ہے، جو اس کی نیکیاں لکھتے ہیں، جنت میں اس کے لیے درخت لگاتے ہیں، اس رات تک کی جانے والی تمام خطائیں مٹا دی جاتی ہیں، نیز آئندہ سال تک اس کا کوئی گناہ نہیں لکھا جاتا۔
(الموضوعات لابن الجوزي: 438/2-439، ح: 1009)

اس روایت کی اسنادی حیثیت

جھوٹی روایت ہے، اس میں کئی مجہول و نامعلوم راوی ہیں۔
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا موضوع ورواته مجهولون، ولا يخفى تركيب إسناده وجهالة رجاله
من گھڑت ہے، اس کے کئی راوی مجہول ہیں، سند کا بناوٹی اور راویوں کا مجہول ہونا مخفی نہیں۔
(الموضوعات: 439/2)
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
كذلك يوم آخر فى وسط رجب، يصلى فيه صلاة تسمى صلاة أم داود فإن تعظيم هذا اليوم لا أصل له فى الشريعة أصلا
اسی طرح پندرہ رجب کو صلاۃ ام داؤد پڑھی جاتی ہے، شریعت میں اس دن کی تعظیم کا سرے سے وجود ہی نہیں۔
(إقتضاء الصراط المستقيم: 617/2)
❀ علامہ ونشریسی رحمہ اللہ (914ھ) بدعات کی فصل میں فرماتے ہیں:
منها القيام ليلة النصف من رجب وشعبان
ان بدعات میں رجب اور شعبان کی پندرہویں رات کا قیام بھی ہے۔
(المعيار المُعرب: 508/2)

رجب کی خصوصی عبادت سے متعلق روایات:

رجب میں خصوصی عبادت بدعت ہے، اس پر کوئی شرعی دلیل نہیں۔ اس کے بارے میں وارد شدہ روایات پر مختصر اور تحقیقی جائزہ ملاحظہ ہو:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صام يوما من رجب وصلى فيه أربع ركعات، يقرأ فى أول ركعة مائة مرة آية الكرسي، وفي الركعة الثانية مائة مرة قل هو الله أحد، لم يمت حتى يرى مقعده من الجنة أو يرى له
جس نے رجب کے کسی دن روزہ رکھا اور چار رکعت ادا کیں، پہلی رکعت میں سو مرتبہ آیت الکرسی اور دوسری رکعت میں سو مرتبہ سورت اخلاص پڑھی، وہ مرنے سے پہلے جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے یا اسے دکھا دیا جاتا ہے۔
(الموضوعات لابن الجوزي: 435/2، ح: 1007)

اس روایت کی اسنادی حیثیت

روایت جھوٹی ہے۔
➊ احمد بن عبید اللہ بن عبد الوہاب
➋ ابوالفضل احمد بن محمد بن سعید
➌ ابوسلیمان جرجانی اور
➍ حجر بن ہاشم/ہشام
چاروں مجہول ہیں۔
➎ عثمان بن عطاء بن ابی مسلم خراسانی کو امام یحیی بن معین رحمہ اللہ (سؤالات ابن الجنيد: 393)، امام بخاری رحمہ اللہ (التاريخ الكبير: 244/6) اور امام مسلم رحمہ اللہ (الكنى والأسماء: 779/2) نے ضعیف کہا ہے۔
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ (الجرح والتعديل: 162/6) اور امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 162/6) نے متروک الحدیث کہا ہے۔
❀ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضعيف الحديث جدا
سخت ضعیف ہے۔
(سنن الدارقطني: 164/3)
❀ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يروي عن أبيه أحاديث موضوعة
اپنے باپ سے من گھڑت روایتیں بیان کرتا ہے۔
(المدخل إلى الصحيح: 207/1، ح: 117)
➏ عطاء بن ابی مسلم خراسانی کا سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سماع ثابت نہیں، لہذا سند منقطع ہے۔
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا حديث موضوع على رسول الله صلى الله عليه وسلم أكثر رواته مجاهيل، وعثمان متروك عند المحدثين
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ ہے۔ اکثر راوی مجہول ہیں اور عثمان محدثین کے نزدیک متروک ہے۔
(الموضوعات لابن الجوزي: 435/2)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إسناده ظلمات
اس کی سند میں کئی نامعلوم راوی ہیں۔
(تلخيص الموضوعات، ص 184)
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے من گھڑت قرار دیا ہے۔
(المنار المنيف، ص 97)

 دوسری روایت

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب سے پہلے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا:
أيها الناس، إنه قد أظلكم شهر عظيم، شهر رجب شهر الله الأصم، تضاعف فيه الحسنات، وتستجاب فيه الدعوات، ويفرج فيه عن الكربات، لا يرد للمؤمن فيه دعوة، فمن اكتسب فيه خيرا ضوعف له فيه أضعافا مضاعفة، والله يضاعف لمن يشاء، فعليكم بقيام ليله، وصيام نهاره، فمن صلى فى يوم فيه خمسين صلاة يقرأ فى كل ركعة ما تيسر من القرآن، أعطاه الله عز وجل من الحسنات بعدد الشفع والوتر، وبعدد الشعر والوبر
لوگو! ایک عظیم مہینہ آنے والا ہے، رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے، اس میں نیکیاں بڑھائی جاتی ہیں، دعائیں قبول ہوتی ہیں، مصائب سے چھٹکارا ملتا ہے، کسی مومن کی دعا رد نہیں کی جاتی۔ اس کی نیکیوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ جس کی چاہیں نیکیاں بڑھا دیں، رات کا قیام اور دن کا روزہ آپ پر لازم ہے، جو اس مہینے کے کسی دن پچاس رکعات نماز ادا کرتا ہے، ہر رکعت میں مقدور بھر قرآن پڑھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے جفت و طاق اور ( بھیڑ، بکری، اونٹ وغیرہ کے) بالوں کی تعداد کے برابر نیکیاں عطا فرماتا ہے۔
(كتاب فضل رجب لأبي محمد الكتاني نقلًا عن تبيين العجب لابن حَجَر، ص 62، فضل رجب لابن عساکر، ص317-318، ح: 14، تاریخ ابن عساکر: 291/43)

اس روایت کی اسنادی حیثیت

جھوٹی روایت ہے۔
➊ ابو حسن علی بن یعقوب قزوینی کے متعلق حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدث بعد السبعين وثلاثمائة بخبر باطل
اس نے سن 370ھ کے بعد باطل روایت بیان کی ہے۔
(میزان الاعتدال: 163/3، الرقم: 5972)
➋ حسن بن احمد بن مبارک طوسی کے متعلق امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضعيف جدا بالوضع
سخت ضعیف ہے، اس پر وضع حدیث کا الزام بھی ہے۔
(لسان الميزان لابن حجر: 24/3)
❀ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
صاحب مناكير
منکر روایتیں بیان کرتا ہے۔
(میزان الاعتدال للذهبي: 480/1)
➌ محمد بن زرارہ مسلسیطی کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
➍ محمد بن عمر وانصاری کا تعین و توثیق درکار ہے۔
➎ عبدالعزیز کتانی اور علی بن یعقوب قزوینی کے درمیان انقطاع ہے۔
❀ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حكى عنه عبد العزيز الكتاني منقطعا
عبدالعزیز کتانی نے اس سے منقطع ہی بیان کیا ہے۔
(تاریخ دمشق: 291/43)
❀ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا حديث منكر بمرة لم أكتبه إلا من هذا الوجه
اس کے منکر ہونے میں کوئی دو رائے نہیں، اس کی یہی سند ہے۔
(تاريخ دمشق: 292/43)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا حديث موضوع وإسناده مجهول
من گھڑت حدیث ہے، اس کی سند مجہول ہے۔
(تبیین العجب، ص 62)

تیسری روایت

سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يا سلمان ما من مؤمن ولا مؤمنة يصلي فى هذا الشهر ثلاثين ركعة يقرأ فى كل ركعة فاتحة الكتاب وقل هو الله أحد ثلاث مرات وقل يأيها الكافرون ثلاث مرات إلا محا الله عنه ذنوبه وأعطى من الأجر كمن صام الشهر كله وكان من المصلين إلى السنة المقبلة
سلمان! جو مومن مرد اور عورت اس ماہ تیس رکعت ادا کریں، ہر رکعت میں سورت فاتحہ اور تین مرتبہ سورت اخلاص، تین مرتبہ سورت کافرون پڑھتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے گناہ مٹا دیتا ہے، انہیں مہینہ بھر کے روزوں اور ایک سال آئندہ کی نمازوں کا ثواب دیتا ہے۔
(غنية الطالبين لعبد القادر الجيلاني: 180/1-181)

اس روایت کی اسنادی حیثیت

جھوٹی روایت ہے۔
➊ ہبتہ اللہ بن مبارک سقطی متہم بالکذب ہے۔
➋ علی بن محمد بن اسماعیل بن محمد صفار کے حالات زندگی نہیں ملے۔
ماہ رجب کے متعلق خصوصی عبادت کے ثبوت پر کوئی صحیح دلیل نہیں، یہ قبیح بدعت ہے۔
❀ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ (795ھ) فرماتے ہیں:
أما الصلاة فلم يصح فى شهر رجب صلاة محصوصة تختص
ماہ رجب میں کوئی خاص نماز ثابت نہیں ہے۔
(لطائف المعارف، ص 228)
❀ علامہ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ (1421ھ) فرماتے ہیں:
رجب میں کوئی خاص عبادت نہیں، بلکہ اس کا حکم باقی حرمت والے مہینوں کی طرح ہے، حرمت والے مہینے چار ہیں: رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ ❀ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ
(التوبة: 36)
زمین و آسمان کی تخلیق سے اب تک کتاب الہی میں مہینے بارہ ہی ہیں، ان میں چار حرمت والے ہیں۔ ماہ رجب کو عبادت مثلاً روزہ اور قیام وغیرہما کے حوالے سے خصوصیت حاصل نہیں، جو شخص اس ماہ کو ان عبادات کے لیے خاص کرتا ہے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، وہ بدعتی ہے۔ فرمان نبوی ہے: میری اور میرے سرا پائے ہدایت خلفائے راشدین کی سنت لازم پکڑنا، اس سے تعلق مضبوط رکھنا اور اسے مضبوط جبڑوں کے ساتھ پکڑنا، دین میں نئے کاموں سے بچیں، کیونکہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
(مجموع فتاوی ورسائل: 338/2-239)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے