سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ جب امام "سمع اللہ لمن حمدہ” کہے تو مقتدیوں کو "ربنا ولك الحمد حمداً كثيراً طيباً مباركاً فيه” بلند آواز سے کہنا مستحب و افضل ہے یا آہستہ کہنا بہتر ہے؟ عام طور پر اہلحدیث حضرات اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ عہدِ مبارک میں ایک صحابیؓ نے "سمع اللہ لمن حمدہ” کے بعد آنحضرت ﷺ کے پیچھے بلند آواز سے یہ الفاظ کہے تھے۔ نماز کے بعد جب حضور ﷺ نے پوچھا تو اس صحابیؓ نے بتایا کہ انہی نے یہ الفاظ کہے ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے 30 سے بھی زائد فرشتوں کو دیکھا جو جلدی کر رہے تھے کہ کون ان کلمات کو ثواب میں سب سے پہلے لکھے۔ اس سے اہلحدیث حضرات دلیل پکڑتے ہیں کہ ان کلمات کو بلند آواز سے کہنا افضل ہے۔ کیا یہ استدلال صحیح ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر انصاف سے دیکھا جائے تو صحیح یہی ہے کہ یہ کلمات مقتدی آہستہ کہیں۔ البتہ اگر کسی نے کبھی بلند آواز سے کہہ بھی دیا تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ عام طور پر تمام صحابہ کرامؓ "ربنا ولك الحمد” وغیرہ آہستہ ہی کہا کرتے تھے۔ سوال میں مذکور حدیث کا سیاق بھی اسی پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اس صحابیؓ کے ان کلمات کو بلند آواز سے کہنے پر آنحضرت ﷺ نے نماز کے بعد پوچھا تھا:
((من المتكلم أنفا؟))
"ابھی یہ کلمات کس نے کہے تھے؟”
اگر صحابہ کرامؓ اکثر یا کبھی بلند آواز سے یہ کلمات کہا کرتے تو آپ ﷺ کے لیے سوال کرنا بے معنی ہوتا کیونکہ جو بات عمومی طور پر رائج ہو، اس پر سوال نہیں کیا جاتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بلند آواز سے کہنا معمول نہیں تھا۔
مزید یہ کہ اس واقعہ کے بعد بھی پورے ذخیرہ حدیث میں ایک بھی روایت ایسی موجود نہیں جس میں یہ مذکور ہو کہ صحابہ کرامؓ نے ان کلمات کو بلند آواز سے کہنا شروع کر دیا ہو۔ نہ کسی ایک صحابیؓ سے یہ عمل ثابت ہے۔
اگر واقعی یہ افضل عمل ہوتا تو لازمی طور پر صحابہ کرامؓ یا تابعینؒ اس پر عمل کرتے اور یہ روایت صحیح سند سے ہم تک پہنچتی۔ بلکہ یہ روایت موجود ہے کہ جب امام سورہ فاتحہ ختم کرتا تھا تو مقتدی آمین اتنی بلند آواز سے کہتے کہ مسجد گونج اٹھتی۔ لیکن کسی روایت میں یہ مذکور نہیں کہ "ربنا ولك الحمد” کے الفاظ پر مسجد گونجتی تھی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بلند آواز سے کہنا نہ افضل ہے اور نہ ہی مستحب۔ کیونکہ جو عمل افضل ہوتا، صحابہ کرامؓ اس میں کبھی پیچھے نہ رہتے۔
اصل بات یہ ہے کہ اس حدیث سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ ان کلمات کا ثواب اور اجر بہت زیادہ ہے۔ صحابیؓ نے ان الفاظ کو ایک خاص جذبے اور کیفیت سے کہا تھا جس پر فرشتے سبقت لے جانے لگے۔ لیکن اس کا تعلق آہستہ یا بلند آواز سے نہیں ہے۔ اگر بلند آواز سے کہنا افضل ہوتا تو حضور ﷺ ضرور صحابہؓ کو اس کا حکم دیتے یا خود جہراً کہتے۔
لہٰذا:
◈ ان کلمات کو آہستہ کہنا افضل ہے۔
◈ اگر کوئی کبھی بلند آواز سے کہہ دے تو اس میں بھی ممانعت نہیں۔
مزید وضاحت کے لیے مثالیں
➊ صحیح مسلم کی روایت
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ:
ایک شخص نماز میں آیا، سانس پھولا ہوا تھا۔ اس نے صف میں شامل ہو کر "اللہ اکبر” کہا اور دعاے استفتاح کے بجائے یہ الفاظ بلند آواز سے کہے:
"الحمد لله حمداً كثيراً طيباً مباركاً فيه”
نماز کے بعد حضور ﷺ نے تین بار پوچھا کہ یہ الفاظ کس نے کہے؟ آخر میں اس شخص نے بتایا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"میں نے بارہ فرشتوں کو دیکھا کہ وہ جلدی کر رہے تھے کہ کون ان الفاظ کو اوپر لے کر جائے۔”
اب اگر کوئی شخص یہ استدلال کرے کہ ان کلمات کو بلند آواز سے کہنا افضل ہے تو اسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ دعاے استفتاح بھی نماز میں بلند آواز سے پڑھنی افضل ہے۔ حالانکہ اہلحدیث حضرات میں سے کسی نے بھی آج تک ایسا فتویٰ نہیں دیا۔
➋ روایتِ رفاعہ بن رافعؓ (ترمذی، ابو داود، نسائی)
حضرت رفاعہؓ فرماتے ہیں:
میں حضور ﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا، مجھے چھینک آئی تو میں نے کہا:
"الحمد لله حمداً كثيراً طيباً مباركاً فيه مباركاً عليه كما يحب ربنا ويرضى”
نماز کے بعد حضور ﷺ نے تین بار پوچھا کہ یہ کلمات کس نے کہے تھے؟ آخر میں میں نے عرض کیا: "یا رسول اللہ ﷺ! یہ میں نے کہے ہیں۔” تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تیس سے بھی زائد فرشتے ان کلمات کو آسمان کی طرف لے جانے میں ایک دوسرے سے سبقت کر رہے تھے۔”
اب کیا اہلحدیث حضرات یہ فتویٰ دیں گے کہ اگر کسی کو نماز میں چھینک آئے تو وہ یہ کلمات بلند آواز سے کہے کیونکہ ایسا کرنا افضل ہے؟ آج تک کسی نے ایسا فتویٰ نہیں دیا۔
نتیجہ
◈ تین مختلف واقعات میں یہ کلمات بلند آواز سے کہے گئے، لیکن ہر بار یہ ایک استثنائی واقعہ تھا، عمومی معمول نہیں۔
◈ نہ متقدمین علماء، نہ محدثین اور نہ شارحین حدیث میں سے کسی نے یہ فتویٰ دیا کہ ان کلمات کو بلند آواز سے کہنا افضل ہے۔
◈ یہ صرف آج کے اہلحدیث حضرات کا زور ہے، حالانکہ ان احادیث سے صرف ان کلمات کے کہنے کی فضیلت اور خیر ثابت ہوتی ہے، آہستہ یا بلند آواز سے کہنے کا مسئلہ نہیں۔
◈ افضل یہی ہے کہ مقتدی یہ کلمات آہستہ کہیں، لیکن اگر کبھی بلند آواز سے کہہ بھی دے تو گناہ نہیں۔
ھذا ما عندی، واللہ اعلم بالصواب