یہ مقالہ راویِ حدیث عاصم بن بَهدَلَہ، أبو بکر القارئ الکوفی (المعروف: عاصم بن أبي النَّجود) کی توثیق پر ہے۔ جمہورِ محدثین کے نزدیک آپ صدوق/حسن الحدیث ہیں۔ بعض مقامات پر ابن حجر اور دارقطنی کی مختصر نوعیت کی جروحات منقول ہیں؛ اس مقالے میں ہم:
-
پہلے 20 ائمّہ سے عاصم کی توثیق پیش کریں گے؛
-
پھر ابن حجر اور دارقطنی کی تنبیہات/جرح سے متعلق وضاحت پیش کریں گے؛
-
اور نتیجہ میں واضح کریں گے کہ عاصم کی حدیث حسن/محتج بہ ہے اور جمہور کی توثیقات کے مقابل اُن پر قدح قادحِ مُسقط نہیں بنتی۔
📖 عاصم بن بَهدَلَہ (عاصم بن أبي النَّجود) کی توثیق
① امام أحمد بن حنبل (241ھ)
عربی عبارت:
918 – سَأَلْتُهُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، فَقَالَ: ثِقَةٌ، رَجُلٌ صَالِحٌ خَيْرٌ، ثِقَةٌ، وَالْأَعْمَشُ أَحْفَظُ مِنْهُ.
ترجمہ: میں نے امام احمد سے عاصم بن بہدلہ کے بارے میں پوچھا تو فرمایا:
“وہ ثقہ ہیں، نیک اور صالح آدمی ہیں، خیر ہیں، ثقہ ہیں؛ البتہ اعمش ان سے زیادہ حافظ ہیں۔”
حوالہ:
الكتاب: العلل ومعرفة الرجال
المؤلف: أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل (المتوفى 241ھ)
وضاحت:
❖ امام احمد نے دو بار “ثقہ” کہا اور ساتھ ساتھ “رجل صالح خیر” کا اضافہ کیا، جو ان کے تقویٰ و دیانت کی بھی گواہی ہے۔
❖ “الأعمش أحفظ منه” صرف تقابلی کلمہ ہے، تضعیف نہیں۔
② امام یحییٰ بن معین (233ھ)
عربی عبارت:
157 – عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ ثِقَةٌ لَا بَأْسَ بِهِ، وَهُوَ مِنْ نُظَرَاءِ الْأَعْمَشِ، وَالْأَعْمَشُ أَثْبَتُ مِنْهُ.
ترجمہ: یحییٰ بن معین نے فرمایا:
“عاصم بن بہدلہ ثقہ ہیں، ان میں کوئی حرج نہیں؛ وہ اعمش کے ہم مرتبہ راویوں میں سے ہیں، البتہ اعمش ان سے زیادہ ثابت ہیں۔”
حوالہ:
الكتاب: من كلام أبي زكريا يحيى بن معين في الرجال (رواية طهمان)
المؤلف: أبو زكريا يحيى بن معين (المتوفى 233ھ)
وضاحت:
❖ امام یحییٰ بن معین کی صریح توثیق ہے: “ثقہ لا بأس به”۔
❖ اعمش کے مقابلے میں تقابل کیا، مگر عاصم کے ضبط و عدالت پر کوئی جرح نہیں۔
③ امام أبو زرعہ الرازی (264ھ)
عربی عبارت:
… نا عبد الرحمن قال: سألت أبا زرعة عن عاصم بن بهدلة، فقال: ثقة.
ترجمہ: عبدالرحمن کہتے ہیں: میں نے ابو زرعہ سے عاصم بن بہدلہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: “وہ ثقہ ہیں۔”
حوالہ:
الكتاب: الجرح والتعديل
المؤلف: أبو محمد عبد الرحمن بن أبي حاتم الرازي (المتوفى 327ھ)
وضاحت:
❖ ابو زرعہ جیسے ناقدِ کبیر کی مختصر لیکن قوی توثیق ہے۔
❖ محض “ثقہ” کہنا محدثین کے ہاں سب سے اعلیٰ درجہ کی توثیق شمار ہوتی ہے۔
④ امام العِجْلي (261ھ)
عربی عبارت:
763 – عاصم بن أبي النجود، وهو ابن بهدلة … وكان ثقة في الحديث، ولا يختلف عنه في حديث زر وأبي وائل.
ترجمہ: عاصم بن ابی النجود، وہی ابن بہدلہ ہیں … “وہ حدیث میں ثقہ تھے؛ اور زر بن حبیش و ابو وائل سے ان کی روایت میں اختلاف نہیں کیا جاتا۔”
حوالہ:
الكتاب: تاريخ الثقات
المؤلف: أبو الحسن أحمد بن عبد الله العجلي (المتوفى 261ھ)
وضاحت:
❖ عجلی نے صراحتاً کہا “ثقہ فی الحدیث”۔
❖ ساتھ یہ بھی بتایا کہ زر اور ابو وائل سے ان کی روایات میں کوئی اختلاف نہیں پایا گیا، جو ان کے ضبط پر دلیل ہے۔
⑤ حافظ ابن حزم الأندلسی (456ھ)
عربی عبارت:
… عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ … قَالَ عَلِيٌّ: هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ كَالشَّمْسِ لَا مَغْمَزَ فِيهِ.
ترجمہ: ابن حزم فرماتے ہیں:
“عاصم بن ابی النَّجود عن زر بن حبیش والی سند **سورج کی طرح بالکل صحیح اور صاف ہے، اس میں کسی بھی عیب یا نقص کی گنجائش نہیں۔”
حوالہ:
الكتاب: المحلّى بالآثار
المؤلف: أبو محمد علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الأندلسي (المتوفى 456ھ)
وضاحت:
❖ ابن حزم نے اس سند کو “صحیح كالشمس” کہا، جو اعلیٰ ترین درجہ کی تعریف ہے۔
❖ یہ واضح اشارہ ہے کہ عاصم کی سند پر اعتماد قطعی طور پر قائم ہے۔
⑥ علامہ نور الدین ہیثمی (807ھ)
عربی عبارت:
1658 – … وَرِجَالُ الْمَرْفُوعِ فِيهِمْ عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ، وَحَدِيثُهُ حَسَنٌ.
9942 – … وَفِيهِ عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ، وَحَدِيثُهُ حَسَنٌ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِ أَحْمَدَ رِجَالُ الصَّحِيحِ.
ترجمہ: ہیثمی کہتے ہیں:
“اس سند میں عاصم بن بہدلہ موجود ہیں اور ان کی حدیث حسن ہے۔”
حوالہ:
الكتاب: مجمع الزوائد ومنبع الفوائد
المؤلف: نور الدين علي بن أبي بكر الهيثمي (المتوفى 807ھ)
وضاحت:
❖ ہیثمی نے عاصم کے بارے میں صراحت کی: “حدیثہ حسن”۔
❖ یعنی ان کی روایت قابلِ احتجاج اور قابلِ قبول ہے۔
⑦ حاکم ابو عبد الله النيسابوري (405ھ)
عربی عبارت:
8669 – … وَطُرُقُ حَدِيثِ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ كُلُّهَا صَحِيحَةٌ عَلَى مَا أَصَّلْتُهُ فِي هَذَا الْكِتَابِ … إِذْ هُوَ إِمَامٌ مِنْ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ.
ترجمہ: حاکم فرماتے ہیں:
“عاصم بن ابی النَّجود کی زر عن عبداللہ والی تمام احادیث صحیح ہیں … کیونکہ وہ مسلمانوں کے ائمہ میں سے ایک امام ہیں۔”
حوالہ:
الكتاب: المستدرك على الصحيحين
المؤلف: أبو عبد الله الحاكم النيسابوري (المتوفى 405ھ)
وضاحت:
❖ حاکم نے نہ صرف ان کی روایات کو “صحیح” کہا بلکہ انہیں “ائمۃ المسلمین” میں شمار کیا۔
❖ یہ الفاظ ان کے مقام و مرتبہ کو ظاہر کرتے ہیں۔
⑧ ابو العباس البوصیری (840ھ)
عربی عبارت:
4478 – … عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّه … رُوَاتُهُ ثِقَاتٌ.
5747 – … عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ زِرٍّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ … هَذَا إِسْنَادٌ رُوَاتُهُ ثِقَاتٌ.
ترجمہ: بوصیری فرماتے ہیں:
“یہ سند جس میں عاصم بن بہدلہ ہیں … اس کے تمام رواۃ ثقہ ہیں۔”
حوالہ:
الكتاب: إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة
المؤلف: أبو العباس شهاب الدين البوصيري (المتوفى 840ھ)
وضاحت:
❖ بوصیری نے صراحت کی کہ “رواتہ ثقات”۔
❖ عاصم بھی ان رواۃ میں شامل ہیں، پس وہ بھی ثقہ شمار ہوتے ہیں۔
⑨ حافظ ابن حبان (354ھ)
عربی عبارت:
9952 – عَاصِم بْن أبي النجُود الْأَسدي وَهُوَ عَاصِم بْن بَهْدَلَة …
[1306] … كَانَ مِنَ الْقُرَّاءِ … وَكَانَ ثِقَةً.
ترجمہ: ابن حبان نے کہا:
“عاصم بن ابی النجود الاسدی، وہی عاصم بن بہدلہ … وہ قرّاء میں سے تھے … اور وہ ثقہ تھے۔”
حوالہ:
الكتاب: الثقات، اور مشاهير علماء الأمصار
المؤلف: محمد بن حبان البستي (المتوفى 354ھ)
وضاحت:
❖ ابن حبان نے ان کو اپنی کتاب “الثقات” میں درج کیا۔
❖ “الثقات” میں شامل کرنا ہی کافی ہے کہ وہ ان کے نزدیک قابل اعتماد تھے۔
⑩ حافظ ابن عبدالبر (463ھ)
عربی عبارت:
… قَالَ أَبُو عُمَرَ: هُوَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ ثَابِتٌ مَحْفُوظٌ مَرْفُوعٌ.
ترجمہ: ابن عبدالبر نے عاصم بن بہدلہ عن زر والی روایت کے بارے کہا:
“یہ حدیث صحیح، حسن، ثابت، محفوظ اور مرفوع ہے۔”
حوالہ:
الكتاب: جامع بيان العلم وفضله
المؤلف: أبو عمر يوسف بن عبد الله بن عبد البر الأندلسي (المتوفى 463ھ)
وضاحت:
❖ ابن عبدالبر نے اس سند کو “صحیح حسن ثابت” کہا۔
❖ یہ تصریح عاصم کی اعتمادیت کو مزید پختہ کرتی ہے۔
⑪ ابن شاہین (385ھ)
عربی عبارت:
830 – عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ ثِقَةٌ، رَجُلٌ صَالِحٌ، خَيْرٌ.
ترجمہ: ابن شاہین نے کہا:
“عاصم بن بہدلہ ثقہ ہیں، نیک اور صالح شخص ہیں، خیر ہیں۔”
حوالہ:
الكتاب: تاريخ أسماء الثقات
المؤلف: أبو حفص عمر بن أحمد بن عثمان البغدادي المعروف بـ ابن شاهين (المتوفى 385ھ)
وضاحت:
❖ ابن شاہین نے نہ صرف ثقہ کہا بلکہ ساتھ ان کی صلاح و خیر کی بھی گواہی دی۔
❖ یہ الفاظ ان کی عدالت اور پرہیزگاری پر دلالت کرتے ہیں۔
⑫ عبدالعظيم المنذري (656ھ)
عربی عبارت:
… وَرَوَاهُ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ فَرَفَعَهُ.
قَالَ الْحَافِظُ: وَهَذَا إِسْنَادٌ حَسَنٌ.
ترجمہ: حافظ منذری کہتے ہیں:
“یہ سند جس میں عاصم بن ابی النجود ہیں … یہ سند حسن ہے۔”
حوالہ:
الكتاب: الترغيب والترهيب
المؤلف: عبد العظيم بن عبد القوي المنذري (المتوفى 656ھ)
وضاحت:
❖ المنذری نے صراحت کی کہ یہ سند “حسن” ہے۔
❖ حسن کا حکم دینا یعنی یہ روایت قابلِ احتجاج اور قابلِ قبول ہے۔
⑬ شمس الدین السخاوی (902ھ)
عربی عبارت:
618 – … أخرجه الطبراني في الكبير بسند حسن، من حديث عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ عن أبي وائل.
ترجمہ: سخاوی کہتے ہیں:
“اس حدیث کو طبرانی نے الکبیر میں روایت کیا ہے، عاصم بن بہدلہ عن ابی وائل کے طریق سے، اور یہ سند حسن ہے۔”
حوالہ:
الكتاب: المقاصد الحسنة في بيان كثير من الأحاديث المشتهرة
المؤلف: شمس الدين محمد بن عبد الرحمن السخاوي (المتوفى 902ھ)
وضاحت:
❖ سخاوی نے براہِ راست عاصم والی سند کو حسن قرار دیا۔
❖ اس سے ظاہر ہے کہ بعد کے متاخرین بھی ان کو قابلِ اعتماد مانتے تھے۔
⑭ امام ابو عيسى الترمذي (279ھ)
عربی عبارت:
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطٍ، ثَنَا أَبِي، ثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ …
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ترجمہ: امام ترمذی نے عاصم کی سند سے حدیث ذکر کر کے کہا:
“یہ حدیث حسن صحیح ہے۔”
حوالہ:
الكتاب: الجامع (سنن الترمذي)
المؤلف: أبو عيسى محمد بن عيسى الترمذي (المتوفى 279ھ)
وضاحت:
❖ امام ترمذی کا “حسن صحیح” کہنا، عاصم کی روایت کو مستند و قابلِ اعتماد بناتا ہے۔
❖ یہ سب سے قوی الفاظ ہیں جو کسی سند کے بارے کہے جاتے ہیں۔
⑮ بدر الدين العيني (855ھ)
عربی عبارت:
… عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ … قلت: وروى عنه الإمام أبو حنيفة، وهو أستاذ أبي حنيفة … فَانْظُرْ أَيُّهَا الْمُنْصِفُ إِلَى مِثْلِ هَؤُلَاءِ السَّادَاتِ الثِّقَاتِ الأَتْقِيَاءِ الأَخْيَارِ كَيْفَ تَقَلَّدُوا أَبَا حَنِيفَةَ.
ترجمہ: عینی لکھتے ہیں:
“عاصم بن بہدلہ … امام ابو حنیفہ نے ان سے روایت لی، وہ ان کے استاد تھے … پس اے منصف دیکھ کہ کیسے یہ سادات ثقہ، پرہیزگار اور نیک لوگ ابو حنیفہ کی پیروی کرتے تھے۔”
حوالہ:
الكتاب: مغاني الأخيار في شرح أسامي رجال معاني الآثار
المؤلف: بدر الدين محمود بن أحمد العيني (المتوفى 855ھ)
وضاحت:
❖ عینی نے عاصم کو “سادات ثقات، اتقیاء، اخیار” قرار دیا۔
❖ یہ نہ صرف توثیق ہے بلکہ ان کے علمی و عملی مقام کی بھی بڑی تعریف ہے۔
⑯ جمال الدين الزيلعي (762ھ)
عربی عبارت:
… قَالَ: وَعَاصِمُ بْنُ أَبِي النَّجُودِ وَنُعَيْمُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ حَافِظَانِ ثِقَتَانِ.
ترجمہ: زيلعی فرماتے ہیں:
“عاصم بن ابی النجود اور نعیم بن ابی ہند دونوں حافظ اور ثقہ ہیں۔”
حوالہ:
الكتاب: نصب الراية لأحاديث الهداية
المؤلف: جمال الدين عبد الله بن يوسف الزيلعي (المتوفى 762ھ)
وضاحت:
❖ زيلعی نے براہِ راست عاصم کو حافظ و ثقہ کہا، جس سے ان کی قوتِ حفظ و عدالت دونوں ثابت ہوتی ہیں۔
⑰ امام أبو داود (275ھ)
عربی عبارت:
503- سَأَلْتُ أَبَا دَاوُدَ، عَنْ عَاصِمٍ وَعَمْرِو بْنِ مُرَّةَ؟ فَقَالَ: عَمْرُو فَوْقَهُ.
ترجمہ: ابو داود سے پوچھا گیا: عاصم اور عمرو بن مرۃ میں کیا فرق ہے؟
انہوں نے فرمایا: “عمرو بن مرۃ ان سے اوپر ہیں۔”
حوالہ:
الكتاب: سؤالات الآجري لأبي داود
المؤلف: أبو داود سليمان بن الأشعث (المتوفى 275ھ)
وضاحت:
❖ ابو داود نے عمرو بن مرۃ کو عاصم پر افضل کہا، مگر یہ تنقیص نہیں۔
❖ خود سننِ ابو داود میں عاصم کی کئی روایات کو تخریج کیا اور ان پر سکوت کیا، اور ابو داود کا سکوت حدیث کے صالح و مقبول ہونے کی علامت ہے۔
⑱ حافظ ابن كثير (774ھ)
عربی عبارت:
… عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ … وَهَذَا إِسْنَادٌ جَيِّدٌ قَوِيٌّ.
… وَفِي مَوْضِعٍ آخَرَ: هَذَا إِسْنَادٌ حَسَنٌ.
ترجمہ: ابن كثير فرماتے ہیں:
“یہ سند جس میں عاصم بن ابی النجود ہیں، جید اور قوی ہے … اور دوسری جگہ فرمایا: یہ حسن سند ہے۔”
حوالہ:
الكتاب: تفسير القرآن العظيم
المؤلف: أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير (المتوفى 774ھ)
وضاحت:
❖ ابن كثير نے واضح الفاظ میں “اسناد جید قوی” اور “اسناد حسن” کہا۔
❖ یہ عاصم کی روایت کو مضبوط اور محتج بہ قرار دیتا ہے۔
⑲ حافظ الذهبي (748ھ)
عربی عبارت:
173 – "عه” عَاصِمُ بْنُ أَبِي النَّجُودِ … صَدُوقٌ.
… وَقَالَ: "وَكَانَ صَالِحًا خَيْرًا، حُجَّةً فِي الْقُرْآنِ، صَدُوقًا فِي الْحَدِيثِ”.
ترجمہ: ذهبی فرماتے ہیں:
“عاصم بن ابی النجود صدوق ہیں … وہ صالح، خیر، قرآن میں حجت، اور حدیث میں صدوق تھے۔”
حوالہ:
الكتاب: من تكلم فيه وهو موثوق أو صالح الحديث، اور العبر في خبر من غبر
المؤلف: شمس الدين محمد بن أحمد الذهبي (المتوفى 748ھ)
وضاحت:
❖ ذهبی نے صراحت کی کہ وہ صدوق ہیں، اور قرآن میں ان کو حجت کہا۔
❖ یہ بیان ان کی عظمت اور دوہری شہادت (قرآن و حدیث دونوں میں) کا ثبوت ہے۔
⑳ امام دارقطنی (385ھ)
عربی عبارت:
… قَالَ: ابْنُ أَبِي النَّجُودِ فِي حِفْظِهِ شَيْءٌ.
ترجمہ: دارقطنی نے کہا:
“عاصم بن ابی النجود کے حافظہ میں کچھ معاملہ ہے۔”
حوالہ:
الكتاب: سؤالات البرقاني للدارقطني
المؤلف: أبو الحسن أحمد بن محمد بن أحمد بن غالب البرقاني (المتوفى 425ھ)
وضاحت:
❖ دارقطنی کا یہ کلام “فی حفظه شيء” ایک ہلکی تنبیہ ہے، صریح جرحِ مفسرہ نہیں۔
❖ اس کے باوجود دارقطنی نے اپنی کتب میں عاصم کی متعدد روایات تخریج کی ہیں۔
❖ لہٰذا یہ تنبیہ ان کی عدالت و ثقاہت کو نہیں گراتی، صرف دیگر حفاظ کے مقابلے میں کمزور بتاتی ہے۔
ابن حجر کی جرح اور اس کی وضاحت
حافظ ابن حجر (852ھ)
عربی عبارت:
3054 – عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ … صَدُوقٌ لَهُ أَوْهَامٌ.
ترجمہ: ابن حجر نے کہا:
“عاصم بن بہدلہ صدوق ہیں مگر ان سے بعض اوہام (بھول/غلطی) صادر ہوئے ہیں۔”
حوالہ:
الكتاب: تقريب التهذيب
المؤلف: أحمد بن علي بن حجر العسقلاني (المتوفى 852ھ)
وضاحت:
❖ “صدوق” = بنیادی درجہ ثقاہت کا اقرار۔
❖ “لہ اوہام” = ان کے یہاں بعض روایات میں بھول پائی جاتی ہے، جو اکثر رواۃ کے ساتھ ہوتا ہے۔
❖ یہ کوئی ایسی جرح نہیں جو ان کو ضعیف کر دے۔
جوابِ جمہور (امام ارناؤوط وغیرہ)
عربی عبارت:
وقوله: "صدوق له أوهام” ليس بجيد، فقد وثقه يحيى بن معين، وأحمد، وأبو زرعة، ويعقوب بن سفيان، وابن حبان … وكل هؤلاء وثقوه مع معرفتهم ببعض أوهامه اليسيرة.
ترجمہ: شعیب ارناؤوط کہتے ہیں:
“ابن حجر کا یہ کہنا کہ عاصم ‘صدوق له اوهام’ ہیں، یہ ٹھیک نہیں۔
کیونکہ یحییٰ بن معین، احمد بن حنبل، ابو زرعہ، یعقوب بن سفیان اور ابن حبان سب نے ان کو ثقہ کہا ہے، حالانکہ ان کو ان کے بعض معمولی اوہام کا علم بھی تھا۔”
حوالہ:
الكتاب: تحرير تقريب التهذيب (تحقیق: بشار عواد، شعیب ارناؤوط)
وضاحت:
❖ جمہور نے ان کی اوہام کے باوجود انہیں ثقہ مانا۔
❖ اوہام محدثین میں عام ہیں، لیکن اگر راوی کی اصل عدالت و ضبط برقرار رہے تو روایت قابل احتجاج رہتی ہے۔
خلاصہ و نتیجہ
❖ پیش کردہ نصوص و اقوال کی روشنی میں یہ امر واضح ہوا کہ عاصم بن بَهدَلَہ الکوفی (أبو بکر القارئ) جمہورِ محدثین کے نزدیک “ثقہ/صدوق، حسن الحدیث” ہیں۔
❖ متقدمینِ ناقدین (امام احمد، یحییٰ بن معین، ابو زرعہ، العجلی، ابن حبان، ابن عبدالبر، حاکم، ترمذی، ہیثمی، بوصیری، ابن شاہین، ابن کثیر، ذہبی، زَیلعی وغیرہم) نے صراحتاً ان کی توثیق کی، بعض نے ان کی اسانید کو “صحیح کالشمس/جید قوی/حسن صحیح/رواتہ ثقات” کہا۔
❖ ابن حجر کی تعبیر “صدوق لہ أوہام” اور دارقطنی کی تنبیہ “فی حفظہ شیء” نوعِ تنبیہ ہے، جرحِ مُفسَّرِ مُسقط نہیں؛ دونوں بزرگوں نے اصل ثقاہت کی نفی نہیں کی، بلکہ بعض مواقع پر افضل الحُفّاظ کے مقابل میں درجۂ حفظ کی نشان دہی کی۔
❖ اصولِ نقد کے تحت جب کسی راوی پر جزوی/ہلکی نوعیت کی جرح ہو اور اس کے بالمقابل کثیر، صریح اور متنوّع توثیقات موجود ہوں—بالخصوص جب اُن کی متعدد روایات کو ائمہ نے حسن/صحیح کہا ہو—تو ترجیح توثیق کو حاصل ہوتی ہے اور راوی کی روایت قابلِ احتجاج رہتی ہے۔
❖ لہٰذا عاصم بن بَهدَلَہ کی روایات—خصوصاً طریق: عاصم عن زرّ عن عبداللہ/أبي وائل—اصولاً حسن/صحیح کے درجہ میں آتی ہیں، اور محض “اَوہام” کی اطلاع سے اُن کی روایت کو رد کرنا منہجِ محدثین کے خلاف ہے۔
❖ نتیجتاً: عاصم بن بَهدَلَہ صدوق حسن الحدیث/ثقہ ہیں؛ اُن پر وارد جزوی کلام قدحِ مُسقط نہیں بنتا، اور اُن کی روایات فقہ/اعتقاد میں جب دیگر شواہد و قرائن موافق ہوں تو قابلِ استدلال ہیں۔
اہم حوالوں کے سکین




















