راوی حدیث حریز بن عثمان پر علی رض کو گالیاں دینے کے الزام کا تحقیقی جائزہ
مرتب کردہ: ابو حمزہ سلفی

ایک رافضی لکھتا ہے کہ حریز بن عثمان الرحبی، الشامی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتا تھا۔ وہ ذہبی کی المغنی اور بعض دیگر کتب کے حوالے دیتا ہے کہ:
"حریز بن عثمان رجی، تابعی صغیر، ثبت، لكنه ناصبي.”پھر اعتراض کرتا ہے کہ جب کسی صحابی پر سب و شتم کرنے والے کو کذاب اور دجال کہا گیا ہے، تو حریز جیسے "ناصبی” کو ثقہ اور ثبت کیسے مانا گیا اور اس کی روایت بخاری و مسلم میں کیوں آئی؟

جواب: رافضی کے صریح جھوٹ کا بطلان

1. میزان الاعتدال میں اصل عبارت

حافظ ذہبی نے میزان میں حریز کے بارے میں لکھا:
«كان متقناً ثبتاً… وقال الفلاس: كان ينال من علي، وكان حافظاً لحديثه.»
(میزان الاعتدال، رقم: 1792)

ترجمہ: "وہ (حریز) متقن اور ثبت تھا… فلاس نے کہا کہ وہ علی کی تنقیص کیا کرتا تھا، مگر وہ ان کی حدیث کا حافظ بھی تھا۔”

❖ یہاں کہیں بھی یہ الفاظ موجود نہیں کہ "وہ علی کو گالیاں دیتا تھا”۔ یہ رافضی کی اپنی من گھڑت ہے۔

2. فلاس کا قول اور اس کی سند

خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں عمرو بن علی الفلاس کے حوالے سے یہ جملہ نقل کیا:
«وكان ينتقص علياً وينال منه، وكان حافظاً لحديثه.»

لیکن اس قول کی سند میں محمد بن الحسین القطان ہے، جس پر خود محدثین نے جرح کی ہے:

  • ابن ناجیہ نے کہا: «يكذب» (وہ جھوٹا ہے)
    (تاریخ بغداد، 635)

لہٰذا ایسی سند سے ثابت شدہ قول، جس میں راوی کذاب ہو، حجت نہیں ہوتا۔

3. صحیح سند سے حریز کا انکار

اسی تاریخ بغداد میں ثقہ سند سے یہ روایت موجود ہے:

علی بن عیاش (ثقہ ثبت) فرماتے ہیں:
"میں نے حریز بن عثمان کو ایک شخص سے کہتے سنا:
«ويحك أما خفت الله حكيت عني أني أسب علياً؟ والله ما أسبه، وما سببته قط.»
(تاریخ بغداد 8/268)

ترجمہ: "تجھے اللہ کا خوف نہیں، تو نے یہ کیوں بیان کیا کہ میں علی کو گالیاں دیتا ہوں؟ اللہ کی قسم! میں نے علی کو کبھی گالی نہیں دی، نہ کبھی دوں گا۔”

یہ روایت یحییٰ بن معین جیسے امامِ جرح و تعدیل کے واسطے سے آئی ہے اور اس کے تمام رجال ثقہ ہیں۔

4. شاگرد کا بیان: رحمت کی دعا

شبابة بن سوار (صدوق) فرماتے ہیں:
"ایک آدمی نے حریز سے کہا: سنا ہے تم علی پر رحمت نہیں بھیجتے۔
حریز نے کہا: «اسكت، ما أنت وهذا.»
پھر میری طرف متوجہ ہو کر کہا:
«رحمه الله مئة مرة.»
(الضعفاء الكبير للعقيلي)

ترجمہ: "اللہ علی پر سو بار رحمت فرمائے۔”

یہ روایت بھی ثقہ رجال سے ثابت ہے۔

خلاصہ و نتیجہ

  1. رافضی نے حریز پر حضرت علی کو "گالیاں دینے” کا الزام گھڑ کر لگایا، حالانکہ کتبِ رجال میں ایسا کوئی لفظ نہیں۔

  2. جو قول "انتقاص” کے طور پر آیا ہے وہ بھی کذاب راوی کے واسطے سے ہے، اس لیے ناقابلِ احتجاج ہے۔

  3. صحیح سند سے حریز نے قسم کھا کر اس الزام کی تردید کی ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے دعائے رحمت ثابت ہے۔

  4. اس لیے اہل سنت نے حریز کو "ثقہ، ثبت” مانا ہے، اور ان کی روایت صحیح بخاری و صحیح مسلم میں قبول کی گئی ہے۔

اہم حوالوں کے سکین

راوی حدیث حریز بن عثمان پر علی رض کو گالیاں دینے کے الزام کا تحقیقی جائزہ – 01 راوی حدیث حریز بن عثمان پر علی رض کو گالیاں دینے کے الزام کا تحقیقی جائزہ – 02 راوی حدیث حریز بن عثمان پر علی رض کو گالیاں دینے کے الزام کا تحقیقی جائزہ – 03 راوی حدیث حریز بن عثمان پر علی رض کو گالیاں دینے کے الزام کا تحقیقی جائزہ – 04

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے