رشتہ دار بیت المال سے زیادہ حقدار ہیں اس لیے وہ وارث ہوں گے
لفظِ الأرحام رِحم کی جمع ہے ۔ لغوی اعتبار سے یہ لفظ قرابت پر بولا جاتا ہے ۔ اصطلاحی اعتبار سے ذوالرحم سے مراد ایسا قریبی (رشتہ دار ) ہے جس کا نہ تو کوئی حصہ مقرر ہو اور نہ ہی وہ عصبہ بنتا ہو مثلاً بیٹیوں کی اولاد یا ماؤں کے باپ وغیرہ ۔
[الفرئض: ص / 244]
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ [الأنفال: 75]
”قریبی رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں ۔“
ثابت ہوا اگر میت کے اصحاب الفروض اور عصبہ رشتہ دار نہ ہوں اور اولوالارحام ہوں تو وہ اس کے وارث ہوں گے ۔
➋ ایک اور آیت میں ہے کہ :
لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ [النساء: 7]
”ماں باپ اور خویش و اقارب کے ترکے میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی ۔ رجال ، نساء اور أقربون میں اولوالاً رحام بھی شامل ہیں ۔“
➌ حضرت مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مــن تـرك مالا فلورثته وأنــا وارث من لا وارث لـه أعـقـل عنه وأرثه والخال وارث من لا وارث له بعقل عنه ويرثه
”جو شخص کوئی مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے ورثاء کے لیے ہے اور جس کا کوئی وارث نہیں میں اس کا وارث ہوں ، میں اس کی طرف سے دیت ادا کروں گا اور وارث بنوں گا ۔ اور ماموں اس کا وارث ہو گا جس کا کوئی وارث نہیں ۔ وہ اس کی طرف سے دیت بھی دے گا اور اس کا وارث بھی ہو گا ۔
[حسن: إرواء الغليل: 138/6 – 139 ، احمد: 131/4 ، ابو داود: 2899 ، كتاب الفرائض: باب فى ميراث ذوى الأرحام ، ابن ماجة: 2738 ، طيالسي: 284/1 ، سعيد بن منصور: 172 ، ابن الجارود: 965 ، ابن حبان: 1225 ، شرح معاني الآثار: 397/4 ، دارقطني: 85/4 ، حاكم: 344/4 ، بيهقى: 214/6]
➍ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
والخال وارث من لا وارث له
”اور ماموں اس کا وارث ہو گا جس کا کوئی وارث نہیں ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 137/6 ، احمد: 28/1 ، ترمذي: 2103 ، كتاب الفرائض: باب ما جآء فى ميراث الخال ، ابن ماجة: 2737 ، ابن الجارود: 964 ، موارد الظمآن: 1227 ، شرح معاني الآثار: 397/4 ، دار قطني: 84/4 ، بيهقى: 2/4]
➎ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
ابن أخت القوم من أنفسهم
”قوم کی بہن کا بیٹا بھی ان میں سے ہی ہوتا ہے ۔“
[بخاري: 6762 ، مسلم: 1059]
➏ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والی عورت کے بیٹے کی میراث اس کی ماں کے ورثاء کے لیے مقرر فرمائی ہے اور وہ محض اولوالارحام ہی ہوتے ہیں ۔
[صحيح: صحيح ابو داود: 2523 ، ابو داود: 2907 ، كتاب الفرائض: باب ميراث ابن ملاعنة]
یقینا یہ تمام دلائل اولوالارحام کی وراثت کے اثبات میں کافی ہیں لیکن پھر بھی اس مسئلے میں اختلاف موجود ہے۔
(ابو حنیفہؒ ، احمدؒ ) أصحاب الفروض اور عصبہ رشتہ داروں کی غیر موجودگی میں اُولوالارحام وارث بنیں گے ۔ حضرت عمر ، حضرت علی ، حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم کا بھی یہی موقف ہے ۔
(مالکؒ ، شافعیؒ ) أصحاب الفروض اور عصبہ رشتہ داروں کی غیر موجودگی میں اُولوالا رحام وارث نہیں بنیں گے ۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ، امام زہریؒ ، امام مکحولؒ ، امام قاسمؒ اور امام یحیٰی وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔
[الأم: 76/4 ، مغني المحتاج: 7/3 ، المبسوط: 192/29 ، اللباب: 200/4 ، الكافي: ص / 556 ، المغنى: 82/7 ، كشاف التناع: 455/4 ، المحلى: 322/9]
گذشتہ احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وراثت کا مال بیت المال میں جمع کرانے کی بجائے اُولوالارحام رشتہ داروں میں تقسیم کر دینا چاہیے اس کی مزید تائید درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام کھجور کے درخت کی ٹہنی سے گر کر مرگیا تھا ۔ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا اس کا کوئی نسبی یا قریبی رشتہ دار ہے ۔ لوگوں نے عرض کیا کہ نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أعطو ميراثه بعض أهل قريته
”اس کے اہل علاقہ میں سے کسی کو اس کی میراث دے دو ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 2209 ، احمد: 137/6 ، ابو داود: 2902 ، كتاب الفرائض: باب فى ميراث ذوى الأرحام ، ترمذى: 2105 ، ابن ماجة: 2733]
اس حدیث میں یہ ثبوت ہے کہ وراثت کو اولوالا رحام پر بیت المال سے مقدم کیا جائے گا ۔