جس کا قربانی کا ارادہ ہو وہ ذوالحجہ کا چاند طلوع ہونے سے قربانی کرنے تک اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے
➊ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا رأيتم هلال ذى الحجة وأراد أحدكم أن يضحى فليمسك عن شعره وأظفاره
”جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بال اور ناخن کاٹنے سے رک جائے ۔“
[مسلم: 3655 ، كتاب الأضاحي: باب نهى من دخل عليه عشر ذي الحجة وهو مريد التضحية أن ياخذ من شعره و أظفاره شيئا ، نسائي: 211/7 ، ابن ماجة: 3149 ، بيهقى: 266/9 ، احمد: 289/6]
➋ ایک اور روایت میں یہ لفظ ہیں:
من كان له ذبح يذبحه فإذا أهل هلال ذى الحجة فلا يأخذن من شعره و أظفاره حتى يضحى
”جس کے پاس قربانی کے لیے کوئی جانور ہو وہ ذوالحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد قربانی کر لینے تک ہرگز اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے ۔“
[مسلم: 1977 ، نسائي: 212/7 ، ترمذي: 1523 ، ابو داود: 2791 ، شرح معاني الآثار: 205/2 ، حاكم: 220/4 ، بيهقى: 266/9 ، احمد: 301/6]
(احمدؒ) قربانی کرنے والے کے لیے (عشرہ ذوالحجہ کے دوران ) بال یا ناخن کاٹنا حرام ہے ۔
[المغنى: 96/11]
(شافعیؒ) یہ عمل مکروہ تنز یہی ہے ۔
[المجموع: 391/8]
(ابو حنیفہؒ) عشرہ ذوالحجہ کے دوران بال یا ناخن کاٹنا قربانی کرنے والے کے لیے مکروہ بھی نہیں ہے (حالانکہ یہ صریح حدیث کی مخالفت ہے ) ۔
[تحفة الأحوذى: 102/5 ، نيل الأوطار: 474/3 ، الروضة الندية: 477/2]
(راجح) امام احمدؒ کا موقف أقرب الی الحدیث ہے ۔
(نوویؒ) رقمطراز ہیں کہ حضرت سعید بن مسیب ، امام ربیعہ ، امام احمد ، امام اسحاق ، امام داود ، اور بعض اصحاب شافعی رحمہم اللہ نے کہا ہے کہ ایسے شخص پر اپنے بال اور ناخن میں سے کچھ بھی کاٹنا اس وقت تک حرام ہے جب تک کہ وہ شخص قربانی کے وقت میں قربانی نہ کر لے ۔
[شرح مسلم: 154/7]
(ابن بازؒ) جو شخص قربانی کرنے کا ارادہ کر لے اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بال اور اپنے ناخن اور اپنے چمڑے (جسم ) سے کچھ بھی کاٹے جبکہ ماہ ذوالحجہ شروع ہو چکا ہو حتٰی کہ وہ قربانی کر لے ۔
[فتاوى إسلامية: 317/2]