سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک جمعدار فوج نے خاص اپنے روپے سے مسجد تیار کروائی، آیا وہ مسجد شرعاً حکم مسجد کا رکھتی ہے یا نہ، اور اس مسجد میں مصلیوں کے نماز پڑھنے سے اس کو ثواب ملے گایا نہ۔ بينوا توجروا
الجواب
اگر اس مسجد میں کوئی مانع شرعی نہ ہو، تو بے شک وہ مسجد شرعاً مسجد کا حکم رکھتی ہے، اور اس میں مصلیوں کے نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا، موانعات شرعیہ یہ ہیں، کہ مالِ حرام سے یا زمین مغصوبہ میں بنائی گئی ہو، یا زمین مشترکہ میں بلا اجازت شریک ثابت بنائی گئی ہو، یا بقصد فخر و مباہاۃ دریا کے بنائی گئی ہو، یا ضرر رسانی و ضداً و مخالفت مسجد ثانی بنائی گئی ہو، تو ایسی مسجد شرعاً حکم مسجد کا نہیں رکھتی، تفسیر مدارک میں ہے۔
"كل مسجد بني مباهاة اورياء او سمعة او لغرض سوي ابتغاء وجه اللّٰه او بمال غير طيّب فهو لا حق بمسجد الضرار”
تفسیر کثاف میں ہے:
"عن عطاء لما فتح الله الامصار على يد عمر رضى الله عنه امر المسلمين ان يبنو المساجد ولا يتخذوا فى المدينة مسجدين يضار احدهما صاحب الخ”
تفسیر احمدی میں ہے:
"فالعجب من المشائخ المتعصبين فى زماننا يبنون فى كل ناحية مسجدا طلبا للاسم والرسم واستيلاء لشافهم واقتداء بابائهم ولم يتأملوا ما فى هذه الآية والقصة من شناعته احوالهم وافعالهم انتهيٰ”
’’ہمارے زمانے کے متعصب مشائخ سے تعجب ہے، کہ وہ اپنے نام اور مشہوری اور برتری کے لیے آبائی رسم کے مطابق ہر گوشہ میں مسجد بنا لیتے ہیں، کیا وہ آیت پر غور نہیں کرتے اور منافقین کے حالات و افعال سے واقف نہیں ہوتے۔‘‘۱۲
پس اگر مسجد مذکور ان امور سے خالی ہو اور خالص لوجہ اللہ بنائی گئی ہو، تو بے شک وہ مسجد، مسجد کا حکم رکھتی ہے۔ اور اس میں مصلیوں کے نماز پڑھنے سے اس کے بانی جمعدار مذکورہ کو ثواب ملے گا۔ واللہ اعلم بالصواب، حررہ عبد الحق ملتانی عفی عنہ۔
(سید نذیر حسین (فتاویٰ نذیریہ ص ۲۱۶ جلد اول)