سوال :
دیوث کے بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے، اس کے ساتھ تعلقات رکھنا کیسا ہے اور کیا اس کے ساتھ قطع تعلقی ہو سکتی ہے؟
جواب :
دیوث کا معنی و مفہوم بیان کرنے سے پہلے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان درج کرتا ہوں، پھر اس کا معنی و مفہوم ذکر کرتا ہوں۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تین بندوں کی طرف اللہ تبارک و تعالی قیامت والے دن نہیں دیکھے گا ، والدین کا نافرمان، مرد سے مشابہت اختیار کرنے والی عورت اور دیوث“
(سنن النسائی کتاب الزكاة، باب المنان بما أعطى ح 2563، مسند احمد 134/2، 69، 128، ح : 6180، 5372، 6113)
امام سیوطی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: دیوث ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنی عورت پر غیرت نہیں کھاتا۔ جوہری (139/1) میں ہے کہ بے غیرت کو دیوث کہتے ہیں۔ مسند احمد میں اس حدیث کے اندر دیوث کا معنی یہ ہے کہ جو آدمی اپنی بیوی میں خباثت کو برقرار رکھتا ہے۔
(مسند احمد 69/2، 128، ح : 5372، 6113) نیز دیکھیں النہایہ (593/1) اور لسان العرب (4/ 456) وغیرہ۔
یعنی جو آدمی اپنی بیوی میں خلاف شرع کام دیکھ کر اس پر غیرت نہیں کھاتا وہ دیوث ہے۔ اس عموم میں عورت کا بدکردار و زانیہ ہونا، شرعی لباس و حجاب کے بغیر گھر کی چار دیواری سے باہر نکلنا، غیر محرم مردوں کی مجالس میں بن سنور کر اور معطر ہو کر جانا، غیر محرم مردوں سے اختلاط اور خلاف شرع گفتگو کرنا وغیرہ تمام ایسے امور شامل ہیں جو خلاف شرع ہوں اور عورت کا شوہر ان خلاف شرع امور کو دیکھ کر دینی غیرت و حمیت سے عاری ہو۔
ہمارا حق یہ ہے کہ ایسے بدکردار شخص کو دعوت دے کر سمجھائیں اور اس میں دینی غیرت ضرور بیدار کریں۔ اگر بالکل لاتعلق ہو جائیں گے تو اسے مزید بے غیرتی کے مواقع میسر آ جائیں گے اور اگر ہم احسن انداز سے، نرم رویہ اپنا کر سمجھاتے رہیں گے تو امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے عمل پر شرمندہ ہو کر توبہ کر لے اور ہمارے لیے بھی نجات کا سامان پیدا ہو جائے۔ اس لیے اپنے عزیز و اقارب سے دور رہنے کی بجائے انھیں جا کر اسلام کی خالص تعلیمات سے بہرہ ور کریں اور دعوت دینے سے مت اکتائیں۔